ابن جمال
محفلین
جوتے
جوتے سننے میں بڑے آسان لگتے ہیں لیکن اس کا صحیح ہجے اتنی ہی کم لوگوں کو معلوم ہے ۔ویسے بھی ہجے معلوم کرکے کسی کوکرناہی کیاہے۔ پہنناتوپائوں میں ہی ہے اوربزرگوں نے فرمایاتھاکہ جوتے پائوں میں ہی اچھے لگتے ہیں لیکن کچھ فیشن پرست خواتین اب جوتے سرپر بھی رکھنے سے گریز نہیں کررہی ہیں۔(مطلب یہ کہ جوتے کی ڈیزائن کاکلپ وغیرہ )ویسے بھی مہنگائی کے اس دور میں جہاں ہرچیز مہنگی ہوتی جارہی ہے جوتے کیوں پیچھے رہتے۔ ان کی قیمت بھی اتنی بڑھ گئی ہے کہ لوگ دام سن کر حیران ہوجاتے ہیں کہ اسے پائوں میں پہنیں یاپھر سرپر رکھیں۔جیساکہ دلاور فگار قربانی کے بکرے کادام جان کر حیران ہوئے اوربے ساختہ کہہ پڑے کہ
تیری قربانی کروں یامیں تیرے قربان جائوں
جوتے پائوں میں نہ ہوں توجسم پر قیمتی سے قیمتی لباس پہن کر بھی ایک قسم کی شدید محرومی کااحساس ستاتارہتاہے اورہرشے میں کسی شے کی کمی محسوس ہوتی ہے والا معاملہ ہوجایاکرتاہے۔ اوراگرپائوں میں قیمتی جوتاہو توانسان کم قیمت کا لباس پہن کر بھی یوں اتراکرچلتاہے گویازیرپاچاندتاروں کی رداہوجیسے۔اوراس کے برعکس اگرجوتے چھوٹے پڑگئے اورانسان جوتے کاٹے اس سے قبل جوتوں نے کاٹناشروع کردیاتوپھر انسان ہرقدم پر اپنی تکلیف کااظہار کرتاچلاجاتاہے۔ بظاہر وہ کچھ نہ کہے لیکن وہ سراپامبتلائے الم معلوم ہوتاہے۔بقول مشتاق احمد یوسفی کہ فلاں صاحب اگرکسی کو بوجوہ چند گالی نہ دے سکتے تھے توچہرے پرایساایکسپریشن لاتے کہ خود قدآدم گالی معلوم ہوتے۔
جوتے کا ہماری زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زندگی میں کسی مقام پر اورکہیں بھی جوتے سے مفرنہیں ہے۔ بچپن میں والدین بچوں کی اصلاح کیلئے جوتوں کوبطورآلہ تادیب استعمال کرتے ہیں۔ کچھ بڑے ہونے پراساتذہ کرام جوتوں سے طلباء کامستقبل روشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورجوانی اگرکچھ زیادہ منہ زور ہوئی تومحلہ اورپاس پڑوس والوں کے جوتوں سے اورلڑکی کے باپ اوربھائیوں اودیگر رشتہ داروں کے جوتوں سے نبردآزماہوناپڑتاہے۔ شادی کے بعد بیوی کی جوتیوں سے پیہم واسطہ پڑتاہے اوربڑھاپے میں سعادت مند اولاد والدین کی اسی جوتے سے تواضع کرتی نظرآتی ہےاورساحرلدھیانوی کایہ شعر گنگناتی ہے
دنیانے تجربات وحوادث کی شکل میں
جوکچھ مجھے دیاتھاوہ لوٹارہاہوں میں
جوتےاورجوتی کی تفریق میں کیاکیاراز پنہاں ہیں اس سلسلے میں علماء لسانیت کے متضاد خیالات کو ہم بوجوہ ذکر نہیں کرناچاہتے۔ کچھ دانائوں کاخیال ہے کہ مرد اگرپہنے تو جوتاہے اورعورت پہنے توجوتی ہے لیکن شعبہ ظرافت کے ایک پروفیسر کاخیال ہے کہ اگرزور سے پڑے توجوتاہے اورآہستہ پڑے تو جوتی ہے۔ دانشوروں کاخیال ہے کہ آہستہ اورزور کا کوئی ایک فارمولہ طے نہیں کیاجاسکتا۔اس کو ضارب کی قوت ضرب اورمضروب کی قوت برداشت کے اعتبار سے ہی طے کیا جاسکتا ہے۔بعض افراد جوتوں کے ویسے ہی عادی ہوجاتے ہیں جیسے کہ غالب غم روزگار کے عادی تھے یعنی
جوتیاں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں
جوتوں کے کئی فوائد ہیں
جوتوں کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ یہ بغیر لائنس کا ہتھیار ہے۔ جب چاہے جہاں چاہے اسے بڑی فراخدالی سے استعمال کیاجاسکتاہے۔(اس پیشگی خطرہ کے ساتھ کہ سامنے والابھی اسی ہتھیار سے مسلح تونہیں ہے)کسی نے آپ کا پاکٹ مارنے کی کوشش کی اسے پکڑ کر جوتوں سے مرمت کیجئے ۔مسجد پہنچے وہاں نمازیوں نے کسی جوتاچور کوپکڑرکھاہے آپ بھی بقدرتوفیق جوتوں سے اس کی اصلاح احوال کا سامان کرسکتے ہیں لاٹھی ڈنڈاکون ڈھونڈے ۔ کوئی خورد آپ کا بزرگ بننے کی قبل ازوقت کوشش کرے تو جوتے سے ہی اس کادماغ درست کیاجاسکتاہے۔
دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کا کوئی سائڈ افیکٹ نہیں ہے اوراس کاکوئی توڑنہیں ہے۔آفس میں کام کرتے ہیں۔کام کی زیادتی سے براحال ہوجاتاہے اس پر بھی افسر صاحب اپنی افسران طبعیت سے بازنہیں آتے اورمزید کام تھمادیتے ہیں۔ ایک دن غصے میں آکر آپ نے جوتااتارا اورافسر کی چندیاپلپلی کردی۔ آپ کا افسر کبھی نہیں چاہے گاکہ اس حادثہ درد کی داستان مقام حادثہ سے باہر جائے وہ آپ سے افہام تفہیم کرکے معاملہ حل کرناچاہے گا ۔یہ کبھی نہیں چاہے گاکہ یہ معاملہ کورٹ اورعدالت تک پہنچے کیونکہ معاملہ عدالت میں جب پہنچے گا اوروکیل مخالف اس سے سوال کرے گاکہ جن جوتوں سے دماغ درست کیاگیا وہ نرم تھے یاسخت، رک رک کر پڑرہے تھے یاموسلادھار۔جوتوں کی دھمک صرف سرپر محسوس ہورہی تھی یااس کی وجہ سے آنکھوں کی روشنی بھی متاثر ہوئی ہے اور جوتے کھانے کا یاپہلااتفاق ہے یاماضی میں بھی اس سے بہرہ ورہوچکے ہیں۔ماضی میں جنہوں نے جوتے بازی کی مشق کی وہ کون ہیں کہاں ہیں ۔ان کی جوتے بازی بھول چکے ہیں یاابھی تک یاد ہے۔
تیسرافائدہ یہ ہے کہ اگرکسی لیڈروغیرہ سے آپ کی دشمنی ہے اوراس کو جوتانہ مارسکتے ہوں توپھرکم ازکم جوتے ہی اچھال دیں۔یہ فوری شہرت کاسبب ہے لیکن خیال رکھناچاہئے کہ یہ کام اپنے ہی لیول کے لوگوں کے ساتھ کرناچاہئے ورنہ منتظرزیدی کی طرح ہاتھ پائوں ٹوٹ سکتے ہیں ۔اس سلسلے میں مقام واردات کا بھی خیال رکھناازحد ضروری ہے ۔جمہوری ملکوں میں توجوتیوں میں دال بٹتی ہےلہذاجوتامارناگواراہوجاتاہے لیکن اگرکسی معالی الشیخ کے مملکت میں آپ نے جوتے بازی کی کوشش کی تویاد رکھیں کہ آپ کا حشر جوتے سے بھی براہوگااورکوئی بعید نہیں ہے کہ آپ کی کھال شریف ہی کسی جوتے میں بدل دی جائے۔
الیکشن کا طریقہ کار نہایت فرسودہ ہے اس سے قومی خزانے کی صحت پر خراب اثرپڑاکرتاہے اس لئے تجویز ہے کہ الیکشن کے طریقہ کار کو بدل دیاجائے اورپرچیاں کاٹنے کے بجائے ووٹرکیلئے ضروری ہوگاکہ وہ جس امیدوار کو پسند کرتاہے اس کے حق میں بکس میں دوجوتے ڈال دے۔ اس سے جہاں یہ فائدہ ہوگاکہ حکومت کو جوتوں کا ایک بڑاگرانبار ذخیرہ ملے گاجس کو وہ برآمد کرکے الیکشن خرچ نکال سکے گی۔وہیں اندرون ملک بھی جوتے کی مانگ بڑھنے کی وجہ سے بے روزگاروں کو روزگارملے گا۔
دوسری تجویز یہ ہے کہ تمام امیدواروں کو ایک لائن سے کھڑاکیاجائے اورووٹرکو آزادی دی جائے کہ وہ جس امیدوار کو پسند کرتاہے جوتے سے اس کی پشت شریف پر جوتامارکر ٹھپہ لگائے۔ جس کو سب سے زیادہ جوتے مارے جائیں وہ کامیاب امیدوار ماناجائے۔ اس میں کاغذ وغیرہ کے کثیراخراجات سے الیکشن کمیشن بچ جائے گا ۔خیال رہے کہ امیدوار ہٹاکٹااورپہلوان ٹائپ کا ہو اورنحیف ونزار نہ ہو ورنہ کہیں الیکشن کا دن تمام ہونے سے قبل امیدوار نہ تمام ہوجائے۔
الیکشن کے اس انقلابی طریقہ کار میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ سیاست دانوں کو پھر عوامی خواہشات کو جوتے پر رکھنے کا معقول جواز فراہم ہوجائے گااوروہ کہہ سکیں گے کہ عوام نے ہمیں جوتادیاہے لہذا ہم ان کے مطالبات کو بھی جوتے کی نوک پر ہی رکھتے ہیں اورعوام بھی مطمئن رہیں گے کہ چلو کچھ توہمارے بھی جذبات کی تسکین کا سامان ہوگیا۔
جوتوں کو گری پڑی چیز سمجھناروانہیں ہے یہ بھی قبولیت کی سند سے نوازے جاتے ہیں۔ آپ نے بارہادیکھاہوگاکہ مسجد میں نماز اداکرنے کے بعد کچھ لوگ جب باہر نکلتے ہیں کہ توان کے چہرے پر خجالت اورندامت کے اثرات نمایاں اورفراواں ہوتے ہیں۔ اس کو بسااوقات صرف چہرے پر نگاہ رکھنے والے سچی توبہ کے اثرات سمجھتے ہیں لیکن زمین کی طرف دیکھنے والے ان کے پائوں خالی دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ ان کے جوتے قبول ہوچکے ہیں اوریہ شرمندگی وخجالت اسی جوتوں کی قبولیت کا ثمرہ ہے۔
جوتوں کی گرانی اورجوتاچوروں کی فراوانی نے اب یہ حالت پیداکردی ہے کہ لوگ مسجد میں بھی جوتوں کو خود سے دوررکھناپسند نہیں کرتے اوراوردورتودور پیچھے تک رکھناگوارانہیں کرتے بھلے نماز قبول ہو یانہ ہو لیکن جوتے قبول ہوجائیں یہ منظورنہیں ۔اوراگرکوئی کہہ بھی دے کہ بھائی جوتاسامنے رکھنے نماز کے آداب کے خلاف ہے تو وہ جواب دے دیتے ہیں کہ جوتاپیچھے رکھناجوتے کے وجود کے ہی خلاف ہے۔
کہا ایک مولوی نے دیکھ کر جوتامرے آگے
اگرہوسامنے جوتاتوپھر سجدہ نہیں ہوتا
کہامیں نے بجاہے آپ کا ارشاد یہ لیکن
اگرپیچھے رکھیں جوتاتوپھر جوتانہیں ہوتا
جوتوں کاہماری شادی سے بہت گہراتعلق ہے۔گھوڑی پر چڑھے بغیر شادی ہوسکتی ہے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ دولہاجوتے کے بغیر شادی کرلے۔لڑکیاں پہلے جوتاچرانے کی مشق کرتی ہیں اورٹریننگ پختہ ہونے پر دل چرانے کاکام کرتی ہیں۔شادی بیاہ کی تقریبات ان دونوں کام کیلئے ورکشاپ کی حیثیت رکھتاہے۔جہاں سینئر خواتین جونئر کو جوتااوردل چرانے دونوں کی ٹپس دیتی ہیں۔ کچھ عقلمند دولہے جوتاچوری کے خدشہ کے تحت اس موقعہ پرایک عدد مزید جوتارکھ لیتے ہیں جوتاچوری کرنے کے بعد جب لڑکیاں دولہے بھائی سے حق المحنت کا مطالبہ کرتی ہیں تو وہ نہایت آرام سے بغل میں رکھاہوا جوتہ پہناکر چل دیتے ہیں اورلڑکیاں جوتادیکھتی رہ جاتی ہیں۔ لیکن کچھ ستم ظریف لڑکیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جوجوتاچرانے میں ناکامی پر زبردستی بھی پائوں سے جوتااتارلیاکرتی ہیں اورچہ دلاوراست دزدے کہ مصداق اس ڈکیتی پر جوتاچرانے کی حق المحنت وصول کرتی ہیں۔
جوتوں کے تعلق سے ہمارارویہ عمومی طورپر حقارت کاہوتاہے اوراس تعلق سے جوتوں پر اورجوتوں کی نوک پر رکھنے کا محاورہ بھی مشہور ہے۔لیکن ایسے لوگوں کو یاد رکھناچاہئے یہ جوتے کبھی تخت تک بھی پہنچے ہیں جہاں براجمان ہونے کی آروز میں بہت سےا فراد تختہ ہوچکے ہیں۔ رام نے جب چودہ سال کا بن باس لیاتواس کے بھائی نے تخت پر خود بیٹھنے کے بجائے رام کے کھراون (جوتوں)کوہی تخت پر اس کا قائم مقام بناکر چودہ سال حکومت کی تھی۔ویسے صورت حال میں آج بھی کوئی بہت زیادہ انقلابی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اہل اقتدار عوام کو آج بھی جوتوں کی نوک پر رکھتے ہیں دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ آج بھی عوام پر حکمرانی اہل اقتدار کے جوتوں کی ہی ہے۔
میں نے جوتے پر یہ مضمون تولکھ دیا لیکن سمجھ میں نہیں آتاکہ یہ مضمون زیادہ چلے گایاجوتازیادہ چلے گا۔ ماضی سے نصیحت حاصل کریں تو مضمون سے زیادہ جوتاچلنے کی توقع ہے ۔بقول اکبرالہ آبادی
واٹسن نے جوتابنایامیں نے ایک مضمون لکھا
میراتومضموں نہ پھیلاواٹسن کا جوتاچل گیا
جوتے سننے میں بڑے آسان لگتے ہیں لیکن اس کا صحیح ہجے اتنی ہی کم لوگوں کو معلوم ہے ۔ویسے بھی ہجے معلوم کرکے کسی کوکرناہی کیاہے۔ پہنناتوپائوں میں ہی ہے اوربزرگوں نے فرمایاتھاکہ جوتے پائوں میں ہی اچھے لگتے ہیں لیکن کچھ فیشن پرست خواتین اب جوتے سرپر بھی رکھنے سے گریز نہیں کررہی ہیں۔(مطلب یہ کہ جوتے کی ڈیزائن کاکلپ وغیرہ )ویسے بھی مہنگائی کے اس دور میں جہاں ہرچیز مہنگی ہوتی جارہی ہے جوتے کیوں پیچھے رہتے۔ ان کی قیمت بھی اتنی بڑھ گئی ہے کہ لوگ دام سن کر حیران ہوجاتے ہیں کہ اسے پائوں میں پہنیں یاپھر سرپر رکھیں۔جیساکہ دلاور فگار قربانی کے بکرے کادام جان کر حیران ہوئے اوربے ساختہ کہہ پڑے کہ
تیری قربانی کروں یامیں تیرے قربان جائوں
جوتے پائوں میں نہ ہوں توجسم پر قیمتی سے قیمتی لباس پہن کر بھی ایک قسم کی شدید محرومی کااحساس ستاتارہتاہے اورہرشے میں کسی شے کی کمی محسوس ہوتی ہے والا معاملہ ہوجایاکرتاہے۔ اوراگرپائوں میں قیمتی جوتاہو توانسان کم قیمت کا لباس پہن کر بھی یوں اتراکرچلتاہے گویازیرپاچاندتاروں کی رداہوجیسے۔اوراس کے برعکس اگرجوتے چھوٹے پڑگئے اورانسان جوتے کاٹے اس سے قبل جوتوں نے کاٹناشروع کردیاتوپھر انسان ہرقدم پر اپنی تکلیف کااظہار کرتاچلاجاتاہے۔ بظاہر وہ کچھ نہ کہے لیکن وہ سراپامبتلائے الم معلوم ہوتاہے۔بقول مشتاق احمد یوسفی کہ فلاں صاحب اگرکسی کو بوجوہ چند گالی نہ دے سکتے تھے توچہرے پرایساایکسپریشن لاتے کہ خود قدآدم گالی معلوم ہوتے۔
جوتے کا ہماری زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ زندگی میں کسی مقام پر اورکہیں بھی جوتے سے مفرنہیں ہے۔ بچپن میں والدین بچوں کی اصلاح کیلئے جوتوں کوبطورآلہ تادیب استعمال کرتے ہیں۔ کچھ بڑے ہونے پراساتذہ کرام جوتوں سے طلباء کامستقبل روشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورجوانی اگرکچھ زیادہ منہ زور ہوئی تومحلہ اورپاس پڑوس والوں کے جوتوں سے اورلڑکی کے باپ اوربھائیوں اودیگر رشتہ داروں کے جوتوں سے نبردآزماہوناپڑتاہے۔ شادی کے بعد بیوی کی جوتیوں سے پیہم واسطہ پڑتاہے اوربڑھاپے میں سعادت مند اولاد والدین کی اسی جوتے سے تواضع کرتی نظرآتی ہےاورساحرلدھیانوی کایہ شعر گنگناتی ہے
دنیانے تجربات وحوادث کی شکل میں
جوکچھ مجھے دیاتھاوہ لوٹارہاہوں میں
جوتےاورجوتی کی تفریق میں کیاکیاراز پنہاں ہیں اس سلسلے میں علماء لسانیت کے متضاد خیالات کو ہم بوجوہ ذکر نہیں کرناچاہتے۔ کچھ دانائوں کاخیال ہے کہ مرد اگرپہنے تو جوتاہے اورعورت پہنے توجوتی ہے لیکن شعبہ ظرافت کے ایک پروفیسر کاخیال ہے کہ اگرزور سے پڑے توجوتاہے اورآہستہ پڑے تو جوتی ہے۔ دانشوروں کاخیال ہے کہ آہستہ اورزور کا کوئی ایک فارمولہ طے نہیں کیاجاسکتا۔اس کو ضارب کی قوت ضرب اورمضروب کی قوت برداشت کے اعتبار سے ہی طے کیا جاسکتا ہے۔بعض افراد جوتوں کے ویسے ہی عادی ہوجاتے ہیں جیسے کہ غالب غم روزگار کے عادی تھے یعنی
جوتیاں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں
جوتوں کے کئی فوائد ہیں
جوتوں کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ یہ بغیر لائنس کا ہتھیار ہے۔ جب چاہے جہاں چاہے اسے بڑی فراخدالی سے استعمال کیاجاسکتاہے۔(اس پیشگی خطرہ کے ساتھ کہ سامنے والابھی اسی ہتھیار سے مسلح تونہیں ہے)کسی نے آپ کا پاکٹ مارنے کی کوشش کی اسے پکڑ کر جوتوں سے مرمت کیجئے ۔مسجد پہنچے وہاں نمازیوں نے کسی جوتاچور کوپکڑرکھاہے آپ بھی بقدرتوفیق جوتوں سے اس کی اصلاح احوال کا سامان کرسکتے ہیں لاٹھی ڈنڈاکون ڈھونڈے ۔ کوئی خورد آپ کا بزرگ بننے کی قبل ازوقت کوشش کرے تو جوتے سے ہی اس کادماغ درست کیاجاسکتاہے۔
دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کا کوئی سائڈ افیکٹ نہیں ہے اوراس کاکوئی توڑنہیں ہے۔آفس میں کام کرتے ہیں۔کام کی زیادتی سے براحال ہوجاتاہے اس پر بھی افسر صاحب اپنی افسران طبعیت سے بازنہیں آتے اورمزید کام تھمادیتے ہیں۔ ایک دن غصے میں آکر آپ نے جوتااتارا اورافسر کی چندیاپلپلی کردی۔ آپ کا افسر کبھی نہیں چاہے گاکہ اس حادثہ درد کی داستان مقام حادثہ سے باہر جائے وہ آپ سے افہام تفہیم کرکے معاملہ حل کرناچاہے گا ۔یہ کبھی نہیں چاہے گاکہ یہ معاملہ کورٹ اورعدالت تک پہنچے کیونکہ معاملہ عدالت میں جب پہنچے گا اوروکیل مخالف اس سے سوال کرے گاکہ جن جوتوں سے دماغ درست کیاگیا وہ نرم تھے یاسخت، رک رک کر پڑرہے تھے یاموسلادھار۔جوتوں کی دھمک صرف سرپر محسوس ہورہی تھی یااس کی وجہ سے آنکھوں کی روشنی بھی متاثر ہوئی ہے اور جوتے کھانے کا یاپہلااتفاق ہے یاماضی میں بھی اس سے بہرہ ورہوچکے ہیں۔ماضی میں جنہوں نے جوتے بازی کی مشق کی وہ کون ہیں کہاں ہیں ۔ان کی جوتے بازی بھول چکے ہیں یاابھی تک یاد ہے۔
تیسرافائدہ یہ ہے کہ اگرکسی لیڈروغیرہ سے آپ کی دشمنی ہے اوراس کو جوتانہ مارسکتے ہوں توپھرکم ازکم جوتے ہی اچھال دیں۔یہ فوری شہرت کاسبب ہے لیکن خیال رکھناچاہئے کہ یہ کام اپنے ہی لیول کے لوگوں کے ساتھ کرناچاہئے ورنہ منتظرزیدی کی طرح ہاتھ پائوں ٹوٹ سکتے ہیں ۔اس سلسلے میں مقام واردات کا بھی خیال رکھناازحد ضروری ہے ۔جمہوری ملکوں میں توجوتیوں میں دال بٹتی ہےلہذاجوتامارناگواراہوجاتاہے لیکن اگرکسی معالی الشیخ کے مملکت میں آپ نے جوتے بازی کی کوشش کی تویاد رکھیں کہ آپ کا حشر جوتے سے بھی براہوگااورکوئی بعید نہیں ہے کہ آپ کی کھال شریف ہی کسی جوتے میں بدل دی جائے۔
الیکشن کا طریقہ کار نہایت فرسودہ ہے اس سے قومی خزانے کی صحت پر خراب اثرپڑاکرتاہے اس لئے تجویز ہے کہ الیکشن کے طریقہ کار کو بدل دیاجائے اورپرچیاں کاٹنے کے بجائے ووٹرکیلئے ضروری ہوگاکہ وہ جس امیدوار کو پسند کرتاہے اس کے حق میں بکس میں دوجوتے ڈال دے۔ اس سے جہاں یہ فائدہ ہوگاکہ حکومت کو جوتوں کا ایک بڑاگرانبار ذخیرہ ملے گاجس کو وہ برآمد کرکے الیکشن خرچ نکال سکے گی۔وہیں اندرون ملک بھی جوتے کی مانگ بڑھنے کی وجہ سے بے روزگاروں کو روزگارملے گا۔
دوسری تجویز یہ ہے کہ تمام امیدواروں کو ایک لائن سے کھڑاکیاجائے اورووٹرکو آزادی دی جائے کہ وہ جس امیدوار کو پسند کرتاہے جوتے سے اس کی پشت شریف پر جوتامارکر ٹھپہ لگائے۔ جس کو سب سے زیادہ جوتے مارے جائیں وہ کامیاب امیدوار ماناجائے۔ اس میں کاغذ وغیرہ کے کثیراخراجات سے الیکشن کمیشن بچ جائے گا ۔خیال رہے کہ امیدوار ہٹاکٹااورپہلوان ٹائپ کا ہو اورنحیف ونزار نہ ہو ورنہ کہیں الیکشن کا دن تمام ہونے سے قبل امیدوار نہ تمام ہوجائے۔
الیکشن کے اس انقلابی طریقہ کار میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ سیاست دانوں کو پھر عوامی خواہشات کو جوتے پر رکھنے کا معقول جواز فراہم ہوجائے گااوروہ کہہ سکیں گے کہ عوام نے ہمیں جوتادیاہے لہذا ہم ان کے مطالبات کو بھی جوتے کی نوک پر ہی رکھتے ہیں اورعوام بھی مطمئن رہیں گے کہ چلو کچھ توہمارے بھی جذبات کی تسکین کا سامان ہوگیا۔
جوتوں کو گری پڑی چیز سمجھناروانہیں ہے یہ بھی قبولیت کی سند سے نوازے جاتے ہیں۔ آپ نے بارہادیکھاہوگاکہ مسجد میں نماز اداکرنے کے بعد کچھ لوگ جب باہر نکلتے ہیں کہ توان کے چہرے پر خجالت اورندامت کے اثرات نمایاں اورفراواں ہوتے ہیں۔ اس کو بسااوقات صرف چہرے پر نگاہ رکھنے والے سچی توبہ کے اثرات سمجھتے ہیں لیکن زمین کی طرف دیکھنے والے ان کے پائوں خالی دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ ان کے جوتے قبول ہوچکے ہیں اوریہ شرمندگی وخجالت اسی جوتوں کی قبولیت کا ثمرہ ہے۔
جوتوں کی گرانی اورجوتاچوروں کی فراوانی نے اب یہ حالت پیداکردی ہے کہ لوگ مسجد میں بھی جوتوں کو خود سے دوررکھناپسند نہیں کرتے اوراوردورتودور پیچھے تک رکھناگوارانہیں کرتے بھلے نماز قبول ہو یانہ ہو لیکن جوتے قبول ہوجائیں یہ منظورنہیں ۔اوراگرکوئی کہہ بھی دے کہ بھائی جوتاسامنے رکھنے نماز کے آداب کے خلاف ہے تو وہ جواب دے دیتے ہیں کہ جوتاپیچھے رکھناجوتے کے وجود کے ہی خلاف ہے۔
کہا ایک مولوی نے دیکھ کر جوتامرے آگے
اگرہوسامنے جوتاتوپھر سجدہ نہیں ہوتا
کہامیں نے بجاہے آپ کا ارشاد یہ لیکن
اگرپیچھے رکھیں جوتاتوپھر جوتانہیں ہوتا
جوتوں کاہماری شادی سے بہت گہراتعلق ہے۔گھوڑی پر چڑھے بغیر شادی ہوسکتی ہے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ دولہاجوتے کے بغیر شادی کرلے۔لڑکیاں پہلے جوتاچرانے کی مشق کرتی ہیں اورٹریننگ پختہ ہونے پر دل چرانے کاکام کرتی ہیں۔شادی بیاہ کی تقریبات ان دونوں کام کیلئے ورکشاپ کی حیثیت رکھتاہے۔جہاں سینئر خواتین جونئر کو جوتااوردل چرانے دونوں کی ٹپس دیتی ہیں۔ کچھ عقلمند دولہے جوتاچوری کے خدشہ کے تحت اس موقعہ پرایک عدد مزید جوتارکھ لیتے ہیں جوتاچوری کرنے کے بعد جب لڑکیاں دولہے بھائی سے حق المحنت کا مطالبہ کرتی ہیں تو وہ نہایت آرام سے بغل میں رکھاہوا جوتہ پہناکر چل دیتے ہیں اورلڑکیاں جوتادیکھتی رہ جاتی ہیں۔ لیکن کچھ ستم ظریف لڑکیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جوجوتاچرانے میں ناکامی پر زبردستی بھی پائوں سے جوتااتارلیاکرتی ہیں اورچہ دلاوراست دزدے کہ مصداق اس ڈکیتی پر جوتاچرانے کی حق المحنت وصول کرتی ہیں۔
جوتوں کے تعلق سے ہمارارویہ عمومی طورپر حقارت کاہوتاہے اوراس تعلق سے جوتوں پر اورجوتوں کی نوک پر رکھنے کا محاورہ بھی مشہور ہے۔لیکن ایسے لوگوں کو یاد رکھناچاہئے یہ جوتے کبھی تخت تک بھی پہنچے ہیں جہاں براجمان ہونے کی آروز میں بہت سےا فراد تختہ ہوچکے ہیں۔ رام نے جب چودہ سال کا بن باس لیاتواس کے بھائی نے تخت پر خود بیٹھنے کے بجائے رام کے کھراون (جوتوں)کوہی تخت پر اس کا قائم مقام بناکر چودہ سال حکومت کی تھی۔ویسے صورت حال میں آج بھی کوئی بہت زیادہ انقلابی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اہل اقتدار عوام کو آج بھی جوتوں کی نوک پر رکھتے ہیں دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ آج بھی عوام پر حکمرانی اہل اقتدار کے جوتوں کی ہی ہے۔
میں نے جوتے پر یہ مضمون تولکھ دیا لیکن سمجھ میں نہیں آتاکہ یہ مضمون زیادہ چلے گایاجوتازیادہ چلے گا۔ ماضی سے نصیحت حاصل کریں تو مضمون سے زیادہ جوتاچلنے کی توقع ہے ۔بقول اکبرالہ آبادی
واٹسن نے جوتابنایامیں نے ایک مضمون لکھا
میراتومضموں نہ پھیلاواٹسن کا جوتاچل گیا