نوید صادق
محفلین
جوش ملیح آبادی کا مرثیہٴ حسین اور انقلاب
رضوان احمد
پٹنہ
February 16, 2009
شاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی
مرثیے کے ذکر کے ساتھ ہی انیس اور دبیر کا خیال آتا ہے۔ ان شعرا نے مرثیے کے دامن کو اتنا مالا مال کر دیا تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ اب کوئی اور شاعر ان دو تناور درختوں کی چھتنار چھاؤں میں پنپ نہیں پائے گا۔ لیکن جوش ملیح آبادی ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اجتہاد کیا اور مرثیہ کو نئے افکار سے آشنا کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایام عزا میں جہاں قدما کے مرثیے کا ذکر آتا ہے، وہیں جوش کا مرثیہ حسین اور انقلاب بھی ضرور پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ جوش جلال او ر جمال کے شاعر ہیں۔ ان کی لفظیات میں جو ولولہ اور آہنگ ہے اس نے جوش کے مرثیے کی فکر کو حدت دی ہے۔در اصل کربلا کے المیہ کا احساس ایسا شدید اور جان لیوا ہے اس کا اندازہ اس شعر سے ہو تا ہے:
کہہ دوں تو دل سے خون کا چشمہ ابل پڑے
اور چپ رہوں تو منہ سے کلیجہ نکل پڑے
جو احساس اتنا شدید ہو اور جس کی فکر ایسی جان لیوا ہو اس کے تحت جب مرثیہ لکھا جائے گا تو وہاں جلال و جمال کے تجربات کا در آنا بالکل فطری بات ہے۔ جوش کی مرثیہ گوئی پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر شکیل الرحمن لکھتے ہیں:
”جوش ملیح آبادی نے کربلا کے واقعات میں اعلیٰ اور افضل اقدار کے حسن پر بھی نظر رکھی ہے اور شخصیتوں کے جلال و جمال کو بھی موضوع بنایا ہے۔ حسین ابن علی کی ذاتِ اعلیٰ اقدار کے حسن کا مرکز ہے۔ نیز ان کا ہر عمل زندگی کے جمال کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ ان کی خدمت میں سلام بھیجتے ہوئے کہتے ہیں:
ضمیر اہل وحشت اورذات اہل وحشت کو
بہم پیچیدہ و دست و گریباں کر دیا تو نے
جو دھندلا ہو چلا پہلا ورق منشورِ فطرت کا
تو اپنے خون دل کو زیبِ عنواں کر دیا تو نے
بنا کر شمعِ طور اپنے لہو کے گرم قطروں کو
دیارِ ذہنِ عالم میں چراغاں کر دیا تو نے
بقائے آسماں پر ایک ضیائے نو دمک اٹھی
زمیں پہ چاک جب اپنا گریباں کر دیا تو نے
جوش کو زبان پر زبردست قدر ت حاصل تھی، اس لیے مراثی میں بھی ان کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔ یو ں تو جوش نے کئی مراثی لکھے ہیں لیکن ان کا مرثیہ ”حسین اور انقلاب“ ایک الگ انداز کا مرثیہ ہے۔ مراثی کا مقصد غمِ حسین میں ماتم کرنا ہو تا ہے، لیکن شہادت حسین کو جوش نے نئے معانی ا ور نئے زاویے عطا کیے ہیں۔ وہ آہ و بکا کی تلقین نہیں کرتے کیوں کہ ان کے خیال میں امام عالی مقام کی شہادت نے اسلام اور انسانیت کو جو سربلندی عطا کی ہے وہ سر بلندی ہی اس شہادت کا ماحصل ہے۔ بلکہ جوش تو ایسے شاعر ہیں جو ذاکر پر شدید طنز کرتے ہیں انہوں نے اپنی مشہور نظم ”ذاکر سے خطاب“ پر شدید طنز کرتے ہوئے اسے رونے رلانے کا کاروبار کرنے والا کہا ہے۔ بلکہ اس نظم میں جوش کا لہجہ اس قدر شدید اور تلخ ہو جاتا ہے کہ وہ ذاکر کو ماتم پسند اور افسردہ فطرت انسان جیسے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔
اس پس منظر میں جوش اپنا مرثیہ ”حسین اور انقلاب“ پیش کرتے ہیں جو 68بندوں پر مشتمل ہے۔ اس مرثیے کا آغاز حیات کی ناپیداری کے فسانے، آہ وفغاں اور تلخیِ حیات کی ہولناک داستان کے بیان سے ہو تا ہے۔ وہ دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ کھینچتے ہیں اور آٹھویں بند تک یہی صورتِ حال ہے۔ نویں بند سے وہ مرثیہ کی تشکیل کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کیسے کوئی عزیز روایات چھوڑ دے
کچھ کھیل ہے کہ کہنہ حکایات چھوڑ دے
گھٹی میں تھے جو حل وہ خیالات چھوڑ دے
ماں کا مزاج باپ کے عادات چھوڑ دے
کس جی سے کوئی رشتہٴ اوہام چھوڑ دے
ورثے میں جو ملے ہیں وہ اصنام توڑ دے
کربلا کی شب کا معرکہ بھی جوش اپنے مخصوص انداز میں پیش کرتے ہیں یہاں جو استعارے اور تراکیب استعمال کرتے ہیں وہ ان کی اپنی انفرادیت ہیں:
بکھرے ہوئے ہوا میں وہ گیسو رسول کے
تاروں کی روشنی میں وہ آنسو بتول کے
اس شب میں حضرت امامِ عالی مقام کا جو بے مثل اور لاثانی کردار سامنے آتا ہے اسے جو ش کے الفاظ میں سنئےک:
وہ رات جب امام کی گونجی تھی یہ صدا
اے دوستان صادق و یاران با صفا
باقی نہیں رہا ہے کوئی اور مرحلہ
اب سامنا ہے موت کا اور صرف موت کا
آنے ہی پربلائیں ہیں اب تحت و فوق سے
جاناجو چاہتا ہے چلا جائے شوق سے
لیکن آخر وہ یارانِ با صفا حضرت امام حسین کے جاں نثار تھے وہ کن الفاظ میں عرض کرتے ہیں:
قرباں نہ ہو جو آ پ کے والا صفات پر
لعنت اس امن و عیش پر، تُف اس حیات پر
پتلے ہیں ہم حدید کے، پیکر ہیں سنگ کے
انساں نہیں، پہاڑ ہیں میدانِ جنگ کے
اور اس سیاہ رات کو جوش ملیح آبادی کن الفاظ میں تراشتے ہیں:
شبیر نے حیات کا عنواں بنا دیا
اس رات کو بھی ماہِ درخشاں بنا دیا
حضرت امام عالی مقام کائنات کے لیے ایک مثالی کردار کیوں ہیں اسے بھی جوش ملیح آبادی اپنے الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
حضرت حسین کو صاحبِ مزاجِ نبوت،وارثِ ضمیرِ رسالت، خلوتی شاہد قدرت، فخر مشیت، آئین جدید کا بانی، کارواں عزم کا رہبر، مینار عظمت، دلیل شرافت اور روح انقلاب کا پروردگار جیسے خطابات سے یادکرتے ہیں۔ ان کے اشعار کی والہانہ ادائیگی اور وارفتگی جوش کے مخصوص لب و لہجہ پر دال ہے:
ہاں وہ حسین، جس کا ابد آشنا ثبات
کہتا ہے گاہ گاہ حکیموں سے ہی یہ بات
یعنی درونِ پردہ صدرنگ کائنات
اک کار ساز ذہن ہے اک کار ساز ذات
سجدوں سے کھینچتا ہے جو مسجود کی طرف
تنہا جو اک اشارہ ہے معبود کی طرف
اور اس سے آگے بڑھ کر کہتے ہیں:
جس کی جبیں پہ کج ہے خود اپنے لہو کا تاج
جو مرگ و زندگی کا ہے اک طرفہ امتزاج
سردے دیا مگر نہ دیا ظلم کو خراج
جس کے لہو نے رکھ لی تمام انبیا کی لاج
سنتا نہ کوئی دہر میں صدق و صفا کی بات
جس مرد سر فروش نے رکھ لی خدا کی بات
حسین اور انقلاب ایک ایسا مرثیہ ہے جس میں نہ صرف عزم حسین اور روح انقلاب کار فرما ہے بلکہ جوش نے عزم حسینی کا ذکر کرکے روح عصر کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔
پھر حق ہے آفتاب لب بام اے حسین
پھر بزم آب و گل میں ہے کہرام اے حسین
پھر زندگی ہے سست و سبک گام اے حسین
پھر حریت ہے مورد الزام اے حسین
ذوق فساد و ولولہ شر لیے ہوئے
پھر عصر نو کے شمر ہیں خنجر لیے ہوئے
اور اس سے آگے بڑھ کر مزید ولولہ انگیز انداز میں گویا ہوتے ہیں:
مجروح پھر ہے اجر و مساوات کا شعار
اس بیسویں صدی میں پھر طرفہ انتشار
پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہر یار
پھر کربلا ئے نو سے ہے نوع بشر دو چار
اے زندگی جلال شہ مشرقین دے
اس تازہ کربلا کو بھی عزم حسین دے
اور مرثیہ کا اختتام جوش اپنے مخصوص انداز میں کرتے ہیں:
عفریت ظلم کانپ رہا ہے اماں نہ پائے
دیو فساد ہانپ رہا ہے اماں نہ پائے
تلوار شمر عصر کے سینے میں بھونک دو
ہاں جھونک دو یزید کو دوزخ میں جھونک دو
الٹے رہو کچھ اور یوں ہی آستین کو
الٹی ہے آستین تو پلٹ دو زمین کو
اس مرثیہ میں جوش کا نظریہ بھی واضح طور پر سامنے آتا ہے جو مثبت فکر کی نشاندہی کرتا ہے۔ در اصل جوش حسینت اور یزیدیت کو دو استعاروں کی شکل میں دیکھتے ہیں جن کی ستیزہ کاری ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ حسین علیہ السلام کی ذات ابدی ہے اور وہ کسی مخصوص علاقہ، فرقہ اور ذات تک محدود نہیں ہیں بلکہ عالم انسانیت کے لیے ہیں۔ اسی لیے جوش کہتے ہیں:
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ: وائس آف امریکہ: اردو سروس
رضوان احمد
پٹنہ
February 16, 2009
شاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی
مرثیے کے ذکر کے ساتھ ہی انیس اور دبیر کا خیال آتا ہے۔ ان شعرا نے مرثیے کے دامن کو اتنا مالا مال کر دیا تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ اب کوئی اور شاعر ان دو تناور درختوں کی چھتنار چھاؤں میں پنپ نہیں پائے گا۔ لیکن جوش ملیح آبادی ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اجتہاد کیا اور مرثیہ کو نئے افکار سے آشنا کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایام عزا میں جہاں قدما کے مرثیے کا ذکر آتا ہے، وہیں جوش کا مرثیہ حسین اور انقلاب بھی ضرور پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ جوش جلال او ر جمال کے شاعر ہیں۔ ان کی لفظیات میں جو ولولہ اور آہنگ ہے اس نے جوش کے مرثیے کی فکر کو حدت دی ہے۔در اصل کربلا کے المیہ کا احساس ایسا شدید اور جان لیوا ہے اس کا اندازہ اس شعر سے ہو تا ہے:
کہہ دوں تو دل سے خون کا چشمہ ابل پڑے
اور چپ رہوں تو منہ سے کلیجہ نکل پڑے
جو احساس اتنا شدید ہو اور جس کی فکر ایسی جان لیوا ہو اس کے تحت جب مرثیہ لکھا جائے گا تو وہاں جلال و جمال کے تجربات کا در آنا بالکل فطری بات ہے۔ جوش کی مرثیہ گوئی پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر شکیل الرحمن لکھتے ہیں:
”جوش ملیح آبادی نے کربلا کے واقعات میں اعلیٰ اور افضل اقدار کے حسن پر بھی نظر رکھی ہے اور شخصیتوں کے جلال و جمال کو بھی موضوع بنایا ہے۔ حسین ابن علی کی ذاتِ اعلیٰ اقدار کے حسن کا مرکز ہے۔ نیز ان کا ہر عمل زندگی کے جمال کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ ان کی خدمت میں سلام بھیجتے ہوئے کہتے ہیں:
ضمیر اہل وحشت اورذات اہل وحشت کو
بہم پیچیدہ و دست و گریباں کر دیا تو نے
جو دھندلا ہو چلا پہلا ورق منشورِ فطرت کا
تو اپنے خون دل کو زیبِ عنواں کر دیا تو نے
بنا کر شمعِ طور اپنے لہو کے گرم قطروں کو
دیارِ ذہنِ عالم میں چراغاں کر دیا تو نے
بقائے آسماں پر ایک ضیائے نو دمک اٹھی
زمیں پہ چاک جب اپنا گریباں کر دیا تو نے
جوش کو زبان پر زبردست قدر ت حاصل تھی، اس لیے مراثی میں بھی ان کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔ یو ں تو جوش نے کئی مراثی لکھے ہیں لیکن ان کا مرثیہ ”حسین اور انقلاب“ ایک الگ انداز کا مرثیہ ہے۔ مراثی کا مقصد غمِ حسین میں ماتم کرنا ہو تا ہے، لیکن شہادت حسین کو جوش نے نئے معانی ا ور نئے زاویے عطا کیے ہیں۔ وہ آہ و بکا کی تلقین نہیں کرتے کیوں کہ ان کے خیال میں امام عالی مقام کی شہادت نے اسلام اور انسانیت کو جو سربلندی عطا کی ہے وہ سر بلندی ہی اس شہادت کا ماحصل ہے۔ بلکہ جوش تو ایسے شاعر ہیں جو ذاکر پر شدید طنز کرتے ہیں انہوں نے اپنی مشہور نظم ”ذاکر سے خطاب“ پر شدید طنز کرتے ہوئے اسے رونے رلانے کا کاروبار کرنے والا کہا ہے۔ بلکہ اس نظم میں جوش کا لہجہ اس قدر شدید اور تلخ ہو جاتا ہے کہ وہ ذاکر کو ماتم پسند اور افسردہ فطرت انسان جیسے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔
اس پس منظر میں جوش اپنا مرثیہ ”حسین اور انقلاب“ پیش کرتے ہیں جو 68بندوں پر مشتمل ہے۔ اس مرثیے کا آغاز حیات کی ناپیداری کے فسانے، آہ وفغاں اور تلخیِ حیات کی ہولناک داستان کے بیان سے ہو تا ہے۔ وہ دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ کھینچتے ہیں اور آٹھویں بند تک یہی صورتِ حال ہے۔ نویں بند سے وہ مرثیہ کی تشکیل کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کیسے کوئی عزیز روایات چھوڑ دے
کچھ کھیل ہے کہ کہنہ حکایات چھوڑ دے
گھٹی میں تھے جو حل وہ خیالات چھوڑ دے
ماں کا مزاج باپ کے عادات چھوڑ دے
کس جی سے کوئی رشتہٴ اوہام چھوڑ دے
ورثے میں جو ملے ہیں وہ اصنام توڑ دے
کربلا کی شب کا معرکہ بھی جوش اپنے مخصوص انداز میں پیش کرتے ہیں یہاں جو استعارے اور تراکیب استعمال کرتے ہیں وہ ان کی اپنی انفرادیت ہیں:
بکھرے ہوئے ہوا میں وہ گیسو رسول کے
تاروں کی روشنی میں وہ آنسو بتول کے
اس شب میں حضرت امامِ عالی مقام کا جو بے مثل اور لاثانی کردار سامنے آتا ہے اسے جو ش کے الفاظ میں سنئےک:
وہ رات جب امام کی گونجی تھی یہ صدا
اے دوستان صادق و یاران با صفا
باقی نہیں رہا ہے کوئی اور مرحلہ
اب سامنا ہے موت کا اور صرف موت کا
آنے ہی پربلائیں ہیں اب تحت و فوق سے
جاناجو چاہتا ہے چلا جائے شوق سے
لیکن آخر وہ یارانِ با صفا حضرت امام حسین کے جاں نثار تھے وہ کن الفاظ میں عرض کرتے ہیں:
قرباں نہ ہو جو آ پ کے والا صفات پر
لعنت اس امن و عیش پر، تُف اس حیات پر
پتلے ہیں ہم حدید کے، پیکر ہیں سنگ کے
انساں نہیں، پہاڑ ہیں میدانِ جنگ کے
اور اس سیاہ رات کو جوش ملیح آبادی کن الفاظ میں تراشتے ہیں:
شبیر نے حیات کا عنواں بنا دیا
اس رات کو بھی ماہِ درخشاں بنا دیا
حضرت امام عالی مقام کائنات کے لیے ایک مثالی کردار کیوں ہیں اسے بھی جوش ملیح آبادی اپنے الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
حضرت حسین کو صاحبِ مزاجِ نبوت،وارثِ ضمیرِ رسالت، خلوتی شاہد قدرت، فخر مشیت، آئین جدید کا بانی، کارواں عزم کا رہبر، مینار عظمت، دلیل شرافت اور روح انقلاب کا پروردگار جیسے خطابات سے یادکرتے ہیں۔ ان کے اشعار کی والہانہ ادائیگی اور وارفتگی جوش کے مخصوص لب و لہجہ پر دال ہے:
ہاں وہ حسین، جس کا ابد آشنا ثبات
کہتا ہے گاہ گاہ حکیموں سے ہی یہ بات
یعنی درونِ پردہ صدرنگ کائنات
اک کار ساز ذہن ہے اک کار ساز ذات
سجدوں سے کھینچتا ہے جو مسجود کی طرف
تنہا جو اک اشارہ ہے معبود کی طرف
اور اس سے آگے بڑھ کر کہتے ہیں:
جس کی جبیں پہ کج ہے خود اپنے لہو کا تاج
جو مرگ و زندگی کا ہے اک طرفہ امتزاج
سردے دیا مگر نہ دیا ظلم کو خراج
جس کے لہو نے رکھ لی تمام انبیا کی لاج
سنتا نہ کوئی دہر میں صدق و صفا کی بات
جس مرد سر فروش نے رکھ لی خدا کی بات
حسین اور انقلاب ایک ایسا مرثیہ ہے جس میں نہ صرف عزم حسین اور روح انقلاب کار فرما ہے بلکہ جوش نے عزم حسینی کا ذکر کرکے روح عصر کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔
پھر حق ہے آفتاب لب بام اے حسین
پھر بزم آب و گل میں ہے کہرام اے حسین
پھر زندگی ہے سست و سبک گام اے حسین
پھر حریت ہے مورد الزام اے حسین
ذوق فساد و ولولہ شر لیے ہوئے
پھر عصر نو کے شمر ہیں خنجر لیے ہوئے
اور اس سے آگے بڑھ کر مزید ولولہ انگیز انداز میں گویا ہوتے ہیں:
مجروح پھر ہے اجر و مساوات کا شعار
اس بیسویں صدی میں پھر طرفہ انتشار
پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہر یار
پھر کربلا ئے نو سے ہے نوع بشر دو چار
اے زندگی جلال شہ مشرقین دے
اس تازہ کربلا کو بھی عزم حسین دے
اور مرثیہ کا اختتام جوش اپنے مخصوص انداز میں کرتے ہیں:
عفریت ظلم کانپ رہا ہے اماں نہ پائے
دیو فساد ہانپ رہا ہے اماں نہ پائے
تلوار شمر عصر کے سینے میں بھونک دو
ہاں جھونک دو یزید کو دوزخ میں جھونک دو
الٹے رہو کچھ اور یوں ہی آستین کو
الٹی ہے آستین تو پلٹ دو زمین کو
اس مرثیہ میں جوش کا نظریہ بھی واضح طور پر سامنے آتا ہے جو مثبت فکر کی نشاندہی کرتا ہے۔ در اصل جوش حسینت اور یزیدیت کو دو استعاروں کی شکل میں دیکھتے ہیں جن کی ستیزہ کاری ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ حسین علیہ السلام کی ذات ابدی ہے اور وہ کسی مخصوص علاقہ، فرقہ اور ذات تک محدود نہیں ہیں بلکہ عالم انسانیت کے لیے ہیں۔ اسی لیے جوش کہتے ہیں:
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ: وائس آف امریکہ: اردو سروس