فرخ منظور
لائبریرین
وجاہت مسعود کا موسیقی کے نو رتنوں پر ایک مضمون
جونپوری کے مہا گیانی سر یلے نو رتن
وجاہت مسعود
صبح کی کرن پھوٹتی ہے۔ دھندلے کے سہاگ پہ نکھار آتا ہے۔ دھوپ اترتی ہے۔ دن چڑھ آیا۔ اب دنیا کے دھندے ہوں گے۔ بازار میں کٹورہ بجے گا۔ بچے بالے مدرسے کی راہ لیں گے۔ دلہن حمام کرے گی۔ دفتر میں اجلاس اور محل میں دربار ہو گا۔ پل دو پل کا میلہ ہے۔ کوئی دم میں سورج اٹریا کے اس پار پہنچ کر ڈھلوان کے سفر پہ روانہ ہو گا۔ دھوپ ڈھلے گی۔ زوال کی ساعت گنی جائے گی۔ اقتدار ہو یا عمرِ رواں، روپ کی برکھا ہو یا عشق کی گرمیاں، جوبن کی گھڑیاں تو بس گنی چنی ہوتی ہیں۔
پندرھویں صدی میں وسطی ہند کی ریاست جونپور کے والی سلطان حسین شرقی یہ حقیقت سمجھتے تھے۔ فنون کے سرپرست حسین شرقی نے راگ جونپوری کی داغ بیل ڈالی۔ جونپوری دن کے دوسرے پہر کا راگ ہے۔ٹھاٹھ اساوری مگر آروہی میں کومل گندھار کا ایک تل جڑ دیا جاتا ہے۔ بلمپت میں نکھاد کے خدوخال جو کچھ تیکھے ہوتے ہیں تو گویا ہر تان پنچم کو پہنچتی ہے۔
بیسویں صدی میں راگ ودیا کے قریب قریب سبھی مہاساگر گیانیوں نے راگ جونپوری کی مانگ میں سیندھور بھرا ہے۔ ہم نے کلاسیکی موسیقی کے تعارف میں راگ جونپوری منتخب کیا کہ نفرت اور ناانصافی میں لپٹی بستیوں پہ شانتی کا بول اترے۔ جنگ میں جلتی گلیوں میں امن کا سر سنائی دے۔ ہر منتخب فنکار کے تعارف کے ساتھ راگ جونپوری میں ان کے فن کا نہایت مختصر نمونہ بھی حاضر ہے۔ یہ خاکِ اہل ہنر ہے، کہیں ٹھکانے لگے۔
سنگیت رتن استاد عبدالکریم خان
(1937-1872)
ہندوستانی سنگیت کو بیسویں صدی میں استاد عبدالکریم خان سے بڑا فنکار نصیب نہیں ہوا۔ استاد عبدالکریم خان ہر سانس کو سر میں بدلنا چاہتے تھے۔ ہر جذبے کو تان کی شکل دینا چاہتے تھے۔بندش، گمک اور مینڈھ تو گویا ہنر کا پردہ رکھنے کے بہانے تھے۔
کیرانہ کا قصبہ کوروکھیشتر کے قریب واقع تھا جہاں کوروں اور پانڈووں میں یدھ ہوا تھا۔ کیرانہ کے کالے خان صاحب سارنگی میں اپنا مقام رکھتے تھے۔ بیٹا عبدالکریم ابھی چار برس کا تھا کہ انہوں نے اس کی انگلی چھوڑ دی۔ کلا کی راہیں سنگین ہوتی ہیں۔ سایہ اٹھ جائے تو اور کٹھن ہوجاتی ہیں۔
1908 میں عبدالکریم خان مہاراجہ بڑودہ کے درباری گائیک ہوگئے۔ شاہی خانوادے کی نورس کلی تارہ بائی سے تعلقِ خاطر ہوگیا۔ دونوں چاہنے والوں کو بڑودہ چھوڑ کر بمبئی میں پناہ لینا پڑی۔اس بیچ میں استاد نے موسیقی کی تعلیم کے باقاعدہ ادارے قائم کئے۔ پونے کے قریب میرج کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنایا۔ دربار میسور سے سنگیت رتن کا خطاب پایا۔ 1922ءمیں تارہ بائی استاد عبدالکریم سے علیحدہ ہوگئیں۔ جس گلے سے سرکا چشمہ بہتا تھا اس پہ برہا کے گز کا باریک تار پھرگیا۔ استاد کی گائیکی میں ملال اور سوز کی لکیریں گہری ہوگئیں۔
سادھارن روپ میں جیون کرنے والا یہ کبیر پنتھی رابندر ناتھ ٹیگور کے ساتھ شعر کی نزاکتوں اور فزکس میں نوبل انعام یافتہ سی وی رامن سے موسیقی کے صوتیاتی اصولوں پر علمی مکالمہ کرتا تھا۔ استاد کریم کی گائیکی میں الوہی کیفیت تھی۔ سرگم کی چتر کاری میں وارفتگی اور عبودیت میں فاصلہ نہیں رہتا تھا۔ گاتے سمے استاد کریم کی سر ورشا سننے والوں پر یوں اترتی تھی جیسے کوئی عارف اپنے پیروکاروں میں گیان کے موتی بانٹتا ہے۔
استاد عبدالکریم وسطی ہندوستان کے پہلے گائیک تھے جنہوں نے جنوبی ہند کی راگ ودیا کو سمجھا بھی اور اپنی گائیکی میں سمویا بھی۔ 1937 میں جنوبی ہندوستان کی یاترا پر تھے۔ ریل گاڑی میں طبیعت کچھ ناساز ہوئی۔ ایک گمنام سے سٹیشن پر اتر پڑے اورٹالسٹائی کی طرح پلیٹ فارم پر دم توڑ دیا۔ روشن آرا بیگم راوی تھیں کہ استاد کریم آخری وقت میں درباری کے سروں میں کلمہ پڑھ رہے تھے۔ استاد فیاض خان کو خان صاحب عبدالکریم کے ناگہانی انتقال کی خبر ملی تو بے ساختہ کہا ”ہندوستان میں سر مرگیا“۔
زہرہ بائی آگرے والی
(1868 – 1913)
ہندوستان سے مغل اقتدار کی بساط پوری طرح لپیٹی جاچکی تھی لیکن نئے بندوبست کے پاوں ابھی پوری طرح جمے نہیں تھے۔ مرزا غالب زندہ تھے اور اپنے خطوط میں ختم ہوتے ہوئے عہد کی تصویریں کھینچ رہے تھے۔ تار، ڈاک اور ریل کی صورت میں آنے والے زمانے کے خدوخال ابھرنے لگے تھے۔
جھٹ پٹے کے ان برسوں میں آگرہ گھرانے میں پیدا ہونے والی زہرہ بائی کا منصب گائیکی کے قدیم ڈھنگ کونئے زمانے سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ دھرپد اور خیال سے چلتی ہوئی زہرہ بائی ٹھمری اور غزل تک آئی۔ یہ گویا موسیقی کے ہلکے پھلکے انداز کا نقطہ آغاز تھا۔ نئی موسیقی کی بنیادیں زہرہ بائی نے بھریں۔ اس پر دیواریں اٹھانے والے بعد میں آئے۔
نئی صدی شروع ہوئی۔ زہرہ بائی آگرے والی کا کمالِ ہنر نصف النہار پر تھا۔ تعلیم مکمل ہوچکی تھی۔ زہرہ کا اپنا رنگ پہچانا جانے لگا تھا۔ زہرہ نے آگرہ گھرانے کی تمکنت برقرار رکھی۔ ادائیگی شستہ اور بول بانٹ واضح۔ زہرہ بائی کا نام زندہ رکھنے کو یہی بہت ہے کہ استاد فیاض خان خود کو زہرہ بائی کا خوشہ چین قرار دیتے تھے۔ استاد بڑے غلام علی خان زہرہ کے معترف تھے۔ یوں برصغیر میں ریڈیو ابھی نہیں آیا تھا مگر گراموفون کی صورت میں زہرہ کے درجنوں ٹکڑے دستیاب ہیں۔
گوہر جان کلکتے والی
(1873 – 1930)
گول کمرے میں ریشمی غلاف سے آراستہ گول میز پر بڑے بھونپو والا گراموفون رکھا ہے۔ سوئی کی نوک چکر کھاتے ریکارڈ کا سینہ چیرتی آگے بڑھتی ہے۔ سو برس پہلے کی ریکارڈنگ خراش آلود مگر سر کا تموج کہے دیتا ہے کہ ساز کے پردے میں کوئی غیرتِ ناہید چھپی ہے۔ نغمہ ختم ہونے پر آواز آتی ہے، ”میرا نام گوہر جان کلکتے والی’ تو کچھ سننے والے مسکرائے بنا نہیں رہتے۔ ارتقا کا یہی چلن ہے۔ پرانے لوگ نئی دنیا سے ڈرتے ہیں اور نئی دنیا پچھلوں پہ ہنستی ہے۔
انیسویں صدی کا نصف آخر تھا۔ ابھی گاوتکیے سے ٹیک لگا کر پان کھانے، پیچوان اڑانے اور مشاعرہ سننے والے انگریزوں کی روایت موجود تھی۔ آرمینیا کے یہودی ولیم رابرٹ نے 1870 میں کلکتہ کی ناچ گرل و کٹوریہ سے شادی کر لی۔ اینجلینا کی پیدائش کے بعد وکٹوریہ سازندے خورشید کے عشق میں گرفتار ہوگئی۔ ولیم سے طلاق ہوگئی۔ 1881میں بنارس پہنچ کر یہ گھرانہ مسلمان ہو گیا۔وکٹوریہ ملکہ بائی کہلائی اور اینجلینا کو گوہر جان کا نام ملا۔ ان دنوں بنارس رقص، موسیقی اور تھیٹر کا مرکز ہو رہا تھا۔ان علوم کے علاوہ ادب اور گھڑ سواری میں بھی گوہر جان کی تعلیم شروع ہوئی۔
1883 میں یہ لوگ واپس کلکتہ آئے تو دریائے ہگلی کے کنارے میٹا برج کے جھروکوں میں واجد علی شاہ ابھی سیرِ گل کرتے تھے۔ اندر سبھا اور پارسی رہس گلے مِل رہے تھے۔ یہ ڈیرے دار طوائفوں اور ریاستی مجروں اور خوش ذوق انگریزوں کی دنیا تھی۔گوہر جان 1887 میں زمزمہ پردازہوئی۔
راگ ودیا اور رقص پر عبور اپنی جگہ، گوہر جان کے پاس قتلِ عام کے ھتھیاروں کی کمی نہیں تھی۔ تیکھے نقوش، چمکتی آنکھیں، بوٹا قامت، لمبے سیاہ بال اور چال ڈھال میں شاہانہ وقار۔ زرتار ساڑھی کے پلو تلے سیب کی ڈنڈی ناف جھلک دیتی تھی۔ تان میں بارش کے قطروں سی تازگی اور نرت میں بجلی۔ عبدالحلیم شرر اور اکبر آلہ آبادی تک کون تھا جوگوہر جان کے کوچے سے سلامت نکلا ہو۔
ایچ ایم وی کمپنی ہندوستانی گانے ریکارڈ کرنے کلکتہ آئی تو نظرِ انتخاب گوہر جان پر پڑی۔ 14نومبر 1902 کو گوہر جان نے ہندوستان میں پہلا گیت ریکارڈ کرایا۔ جونپوری کے ٹکرے مختصر کا معاوضہ تین ہزار روپے۔ بہت سوں کا خیال تھا کہ ہندی سنگیت کو تین منٹ میں سمویا نہیں جاسکتا۔ گوہر جان نے کوزے میں سمندر بند کرنے کی روایت شروع کی۔گیت کے آخر میں اپنا نام بتانے کی علّت یہ تھی کہ ریکارڈ کی تیاری کے آخری مراحل جرمنی کے شہر ہینوور میں سر ہوتے تھے۔ ریکارڈ کے غلاف پر فنکار کا درست نام ثبت ہونا ضروری تھا۔
1911 میں جارج پنجم کی تاج پوشی کے موقع پر دلّی دربار میں مبارکبادی گانے کا موقع گوہر جان اور جانکی بائی کو ملا۔ گوہر جان کا ٹھسکہ اپنی جگہ داستانوی تھا، کلکتہ میں گوہر جان کے سوا کسی ہندوستانی کو چار گھوڑوں والی بگھی میں سواری کی اجازت نہیں تھی جو ہر شام مہالکشمی ریس کورس میں گھڑ دوڑ دیکھنے پہنچتی تھی۔ علم کا یہ درجہ کہ رابندر ناتھ ٹیگور کے ساتھ شعر اور گاندھی جی کے ساتھ سوراج پر بات ہوتی تھی۔
گوہر جان نے اپنے پرسنل سیکرٹری سید غلام عباس سے شادی کی تھی۔ غلام عباس سے علیحدگی کے بعد بمبئی میں امرت نائیک کے ساتھ رہنے لگیں۔ امرت نائیک کی اچانک موت نے گوہر جان کے جھالے پر دکھ کی پھوار ڈال دی۔ گوہر جان میسور دربار سے منسلک ہوگئیں۔ یہیں 1930 میں ساز کے تار ٹوٹ گئے۔
آفتابِ موسیقی استاد فیاض خان
(1880-1950)
آگرہ گھرانے کی گائیکی سے مغل خاندان کا سایہ کبھی ہٹ کے نہیں دیا۔ برصغیر پاک و ہند میں مغل حکومت کے رسمی خاتمے سے ٹھیک بیس برس بعد پیدا ہونے والے فیاض خان مغل موسیقی کی آخری تان تھے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگتا کہ دم توڑتے شیر کی دھاڑتھے۔ فیاض خاں کی گائیکی پر نظر ڈالنے سے پہلے آگرہ گھرانے سے مغل عہد کا تعلق واضح ہونا ضروری ہے۔
آگرہ گھرانے کی خاص چیز دھرپد ہے اور صدری راگ، درباری۔ ان دونوں نے اکبر کے دربار میں جنم لیا۔ آگرے کو اکبر کی روح سے جدا نہیں کیا جاسکتا، فتح پور سیکری کی عمارات اور پھر اکبر کے مقبرے میں اس شہر کے طرز تعمیر کی روح دوڑتی ہے۔
اکبر کے بعد آنے والوں میں جلال کا شعلہ ختم ہوتا رہا اور جمال کی لو نظر آنے لگی۔ اکبر مہم جو حکمران تھا۔ دربارِ اکبری میں ایسی ہی موسیقی موزوں تھی جس میں ہر تان بہادروں کی للکار ہو اور پس منظر میں نازک اندام طبلے کی بجائے پکھاوج کی صورت میں یلغار کرتے گھوڑوں کے قدموں کی ٹاپ سنائی دے۔ سنگین چٹانوں پر سموں سے چنگاریاں اڑیں تو بلوانوں کی چوڑی چھاتیاں پہاڑسمان دکھائی دیں۔
دھر پد کی خاص تالوں تالہ میں نزاکت کی بجائے طنطنہ پایا جاتاہے۔ دھمار اور دھمال میں صوتی رعایت ہی نہیں ، کیفیت کی ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔ فیاض خان کلا کے ساگر میں غرق سر مست قلندر تھا۔
استاد فیاض خان کی آواز پاٹ دار اور لہجہ گھن کرج کا تھا لیکن آپ کے مزاج میں سر کے خفیف بہلاوے اور لے کے ہلکورے کو محسوس کرنے، اظہار کرنے اور پھر سننے والوں تک پہنچانے کی صلاحیت بھی فراواں تھی۔ سوزِ دروں اور جذبہ ہمدردری کے بغیر فن اور انسان کے مابین ہمدمی پیدا نہیں ہوسکتی۔
فن کائنات کے آخری امکانات کی چتاونی قبول کرتا ہے۔ اسے محض ایک نقشِ پا کہتا ہے مگر بھوبل بالو یا میلوں پھیلے برفانی میدانوں پر لکھے نقوشِ پاکی نزاکتیں پڑھنے والی آنکھ بھی تو ہونی چاہیے۔ راگ کانہڑہ میں اندولن کرنے والے فیاض خاں نفیس طبع شاعر تھے۔ پریم پیا تخلص کرتے تھے اور جب نندلال کے گاوں برج کی ناریوں کے لفظوں میں راگ پوریا کی بندش کہتے تھے،
میں کر آئی پیاسنگ رنگ رلیاں
تو سننے والے جان لیتے تھے کہ قوت اور درد مندی میں کیا رشتہ ہے۔ علم اور جمالیاتی لطف میں کیا تعلق ہے۔ خود دار فیاض خاں اپنی پرشکوہ آواز میں سر پر استقامت دکھاتے ہوئے اچانک سر کو بہلاوا دیتے تو کن رس دربار اکبری اور محمد شاہی دربار کا فرق جان لیتے تھے۔ درباری کا نہڑہ اور شاہانہ کا نہڑہ میں محض دوزمانوں کا بعد نہیں، دو الگ الگ مزاج نظر آتے ہیں۔ جہاں آگرہ کی سرگم میں شدہ سر لگتا ہے وہاں شام اودھ میں چنچل سر لگتے ہیں۔
خوش قسمتی سے فیاض خان کی زندگی ہی میں برصغیر میں ریڈیو جاری ہوگیا تھا۔ سو ان کے پچاس کے قریب راگ اہل ذوق کی تسکین کے لیے دستیاب ہیں۔ ان کا انتقال کے بعد آگرہ گھرانے کا رنگ کمہلانے لگا۔ دھرپد کی جگہ خیال مقبول ہوا۔ پکھا وج کی جگہ طبلے کا باج بلند ہوا اور شہنائی کی جگہ مرلی نے لے لی۔ شامِ بنارس میں آگرہ انگ کی گرج دار گائیکی کی جگہ کم پڑتے لگی۔ مرزا یاس یگانہ نے کہا تھا، بانسری نے دلوں کو موہ لیا۔ ایسا ہی ہوا ہوگا مگر جائے استاد خالی است
استاد بڑے غلام علی خان
(1902 – 196
تقسیم ہند کے بعد سید ذوالفقار بخاری ریڈیو پاکستان کے مدارالمہام قرار پائے۔ جذبہ تعمیر فراواں تھا۔ نشریات کے ساتھ ساتھ نئے ملک کے ثقافتی خدوخال کی مشاطگی بھی اپنے کندھوں پہ لے لی۔ استاد بڑے غلام علی خان کو150 روپے کے خطیر مشاہرے پر پشاور ریڈیو سٹیشن پہنچنے کا حکم ملا۔ استاد بھونچکے رہ گئے۔ جب ذرا اوسان بجا ہوئے، جہاز کا ٹکٹ کٹایا اور دہلی جا پہنچے۔پالم پور ہوائی اڈے پر جہاز کی سیڑھیوں کے پاس پنڈت جواہر لال نہرو سواگت کو کھڑے تھے۔
20ویں صدی میں کلاسیکی موسیقی میں استاد بڑے غلام علی خان سے بڑھ کر پذیرائی کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔ لاہور کے قریب قصور کے پٹیالہ گھرانے میں پیدا ہوئے مگر استاد نے اپنی گائیکی کے مندر میں دھرپد کے بہرام خانی نقوش ،جے پور گائیکی کی نفیس مرکیاں اور گوالیار کے دل آویز بہلاوے یوں سجائے تھے کہ اس مشت خاک سے سروں کی کرنیں چاندنی کی طرح چھنتی تھیں۔ لاہور کی زمین میں ایک وارفتہ لِلک کی سی کیفیت ہے۔ بڑے غلام علی خان نے اپنے فن اور ذات میں گٹکریاں لیتا لاہور سمو لیا تھا۔
دوہرا تن و توش، فیاض خان صاحب جیسی گھنی مونچھیں مگر خدوخال سے شفقت برستی تھی۔ ہم عصر اور ہم سر فنکاروں سے موازنہ کریں تو استاد کو زندگی سے زیادہ مہلت نہیں ملی۔ 1938 میں کلکتہ کی کل ہند موسیقی کانفرنس میں یہ ستارہ پہلی بار چمکا۔ 1944 کی بمبئی کانفرنس تک تابش میں خورشید ہو چلا تھا۔ سنہ 47 سے سنہ 58 تک کے دس برس ریڈیو پاکستان کی غلام گردشوں میں کھو گئے۔ 1962 میں ہند سرکار نے پدم شری کا اعزاز خطاب دیا۔ اسی برس فالج کا حملہ ہوا۔
برصغیر میں کسےِ یارا تھا کہ بڑے غلام علی خان کی جانکاری پر انگلی اٹھائے مگر یہ ہے کہ استاد خود موسیقی کی تعلیم اور راگ کو کلا کی پہلی سیڑھی سمجھتے تھے۔ تیسرے سپتک کے دشت امکاں میں کلیلیں بھرتے تھے مگر ان کا سر بہار گلا، سارنگی سے کھیلتی انگلیاں اور کہیں دور ٹکِی آنکھیں راگ کے وسیلے سے زندگی کے اس گیان کو پانا چاہتی تھیں جو فن کے بندھے ٹکے قاعدوں کی جکڑ میں نہیں آ سکتا۔
استاد کو ریاض سے عشق تھا۔ استاد بڑے غلام علی کو کم کسی نے سر منڈل کے بغیر دیکھا ہو گا۔ تانگے کی پچھلی نشست پر بیٹھے ہیں اور انگلیاں تاروں سے کھیل رہی ہیں۔ باغ میں کوئی پرندہ چہچہایا اور استاد نے سر کی تتلی پکڑ لی۔ کوئی خوش جمال پاس سے گزری اور استاد نے یہ خوشبو بھی کسی تان میں قید کر لی۔
استاد بڑے غلام علی خان نے ٹھیک کیا جو بھارت چلے گئے۔ لاہور کی مال روڈ پر تو اب تانگہ نہیں چلتا۔
ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم
(1917 – 1982)
پہلی لام کا ہنگام اپنے انت کو بڑھ رہا تھا۔ ہندوستان میں تحریک خلافت کی گونج تھی مگر کلکتہ کی گلیوں میں خیال کی سرگم بسی تھی۔ چتر ونیا کی لے تھی۔ ستار کے تاروں کی جھانجھ تھی۔ وحشت کلکتوی کی غزل تھی۔ نذر الاسلام کا گیت تھا۔ ٹیگور بانی کا جادو بولتا تھا۔ محی الدین ابوالکلام آزاد کا خطبہ سنائی دیتا تھا۔
یہیں1917 میں ایک متوسط گھرانے میں وحیدالنسا پیدا ہوئیں۔ والد چوب کار تھے۔ لکڑی پر نقش و نگار بنا کر رزق کماتے تھے۔ بیٹی کو یہی نقش و نگار ہندوستان کی سنگھارہواوں میں کھینچنا تھے۔ وحید النسا کی خالہ عظمت النسا موسیقی میں درک رکھتی تھیں اور نوری بیگم کے نام سے جانی جاتی تھیں۔پنجاب کے رہنے والوں کو شاید تعجب ہو مگر بنگال کے خطے میں سر فحاشی کا استعارہ نہیں، تہذیب کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ سو کم عمر بچیوں کو تان پلٹے سے شغف ہو تو اس پہ جرگہ نہیں بیٹھتا تھا۔
وحید النسا کے گھر میں وارثی سلسلے کے ایک بزرگ حافظ پیاری صاحب کا آنا ہوا۔ تصوف کے شناور کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے ایک شاخِ نبات سےافلاطونی عشق کرکے شماتتِ ہمسایہ مول لی تھی اور مرزا پیاری صاحب کہلاتے تھے۔ وجد میں ہوتے تو نعرہ بلند کرتے ”مزہ ہے پیاری کا” حافظ پیاری نے آٹھ برس کی وحید النسا سے قرآن حکیم کی تلاوت سنی تو نہال ہو کر کہا، تیرا نام وحید النسا نہیں تو روشن جہاں ہے۔ وحید النسا روشن آراءہوگئیں۔
1925 میں یہ گھرانہ پٹنہ چلا آیا۔ پٹنہ تہذیب کی پنچم سواری گزرے زمانہ ہو چکا تھا۔ ناٹک کے مرکز بھی کہیں بنارس اور بمبئی منتقل ہوگئے تھے مگر گنگا کے گھاٹ پہ نغمگی کی فضا موجود تھی۔ کچے راستوں پر ہچکولے کھاتی بیل گاڑیاں لین ڈوری باندھے گذرتیں تو ان کی گھنٹیوں سے رات کے پچھلے پہر جگل بندی کا نقشہ بن جاتا۔ روشن آرا نے ریاض جاری رکھا۔ ایک روز کسی سادھونے روشن آرا کی تان سنی تو شفقت سے مشورہ دیا بیٹی کلا میں پیرنے کا گر پا نا ہے تو میرج جاو اور عبدالکریم خان سے فیض اٹھاو۔
سولہ برس کی روشن آرا حضرت خواجہ شمس الدین کی درگاہ پر جا پہنچی۔ کچھ ہچکچاہٹ کے بعد عبدالکریم خان نے روشن آرا پر شفقت کا ہاتھ رکھ دیا۔ روشن آرا پانچ برس تک سنگیت کے ساگر سے موتی چنتی رہیں۔ 1937 میں استاد انتقال کرگئے مگر کیرانہ گھرانے کی میراث روشن آرا کے ہاتھ رہی۔ کلا کا فیض ماہ وسال کی حدود کا پابند نہیں ہوتا۔ خود کہا کرتی تھیں کہ استاد کے شاگرد ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تھے مگر جو کسی کو نہ مل سکا، وہ بھی روشن آرا کے حصے میں آیا۔
پچھلی صدی کی چوتھی دہائی میں ریڈیو کا بول بالا تھا۔ روشن آرا دلی سٹیشن سے جادو جگاتی تھیں جہاں بڑے دروازے سے سٹوڈیو میں داخل ہوں تو عبدالکریم خان صاحب کا مجسمہ رکھا تھا۔ یہیں روشن آرا کی ملاقات چوہدری احمد خان سے ہوئی۔ چوہدری صاحب پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ سرتال کے شیدا تھے۔ راج کے آخری دن تھے مگر ابھی کوٹھی خانوں میں پولیس افسروں کےلیے خفیہ مجرے سجانے کا چلن شروع نہیں ہوا تھا۔ تان پورے اور سارنگی کی سنگت پر چھاپے مارنا بھی پولیس کے فرائض میں شمار نہیں ہوتا تھا۔
چوہدری احمد خان نے روشن آرا کا گانا سنا۔ قدر دانی فریفتگی کو پہنچی۔ اس رشتے میں بندھ گئے۔جو سانس کی آخری گٹکری تک قائم رہا۔ اس رشتے کی ایک قیمت یہ تھی کہ ملکہ موسیقی تقسیم کے بعد دلی کی روشنیاں چھوڑ کر لالہ موسی کے غبار میں آبیٹھیں۔
30 برس کی عمر تھی۔ قدردان برصغیر کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے تھے۔ مگر شاہنامہ اسلام کی تنگنائے میں دادرا، خیال کا گذر کہاں سے ہوتا۔ روشن آرا نے اہل فن کی آنکھیں دیکھ رکھی تھیں۔ ریڈیو پاکستان پہ تو دربان بھی آنکھیں دکھاتے تھے۔ گوشہ نشین ہوگئیں۔ حیاتِ مختصر کی دوپہر خود اختیار کردہ گمنامی کی نذر ہوگئی۔ عامی خلق تو کہیں کی بھی ہو، فنکار اور کاریگر میں فرق نہیں کرتی۔ مگر پاکستان میں روشن آرا کو کن رس بھی نصیب نہیں تھے۔ غلط جگہ پہ داد ملتی تو آنکھ کا گوشہ ذرا نیہوڑا لیتیں۔ فنکار اور کیا کرے۔ کسی کو تڑی پار تو نہیں کر سکتا۔ امانت علی خان کو بھی تو ترانے گانا پڑے تھے۔
پاکستان موسیقی کانفرنس شروع ہوئی تو روشن آرا کی ڈھنڈیا پڑی۔ پھر ٹیلی ویڑن آیا اور روشن آرا کی سلامت رو تان کی بازیافت ہوئی۔ گو تان میں وہ بجلی کی سی لپک اب باقی نہیں تھی اور زیاں کا ایک احساس بادل کے ٹکڑے کی طرح ساتھ ساتھ چلتا تھا مگر ریاض سلامت تھا اور سر قائم تھا۔ اندر کی روشنی کا رچاو بھی بڑھ چکا تھا۔ سر کے آجو باجو چھوٹی چھوٹی مرکیوں سے نقش و نگار کا تانا بانا بن دیتی تھیں، کہیں بیچ میں سر گم کا ٹکڑا کہتیں تو چہرے کے نقوش کھلکھلا اٹھتے۔ ڈیوڑھے بدن کی سانولی اور گرہست صورت سرسوتی کا روپ دھار لیتیں۔ روشن آراکی گائیکی میں بِرہا کی پکار نہیں تھی، شانت سہاگن کا دھیرج تھا۔ یہ روشن آرا بیگم تھیں۔ ایک زندہ کلاسک۔ اور والٹیئر کہتا ہے، کلاسک کا نام لیا جاتا ہے۔ اِسے جانا کم کم جاتا ہے۔
بھارت رتن استاد بسم اللہ خان
(2006۔ 1917)
26 جنوری، 1951، آزاد ہندوستان کا پہلا یوم جمہوریہ تھا۔ پنڈت نہرو، راجندر پرشاد، سردار پٹیل اور مولانا آزاد لال قلعے کی تقریبات میں شریک تھے۔ کوئی 35 برس کا ایک فنکارشہنائی ہاتھ میں لیئے سٹیج پر نمودار ہوا اور راگ کافی کی دھن چھیڑ دی۔ شہنائی کے واضح اور بھرپور سر فضا میں پھیل گئے۔ لال قلعے کی فصیلوں پر ابابیلیں اترنے لگیں۔ قریب ہی ہمایوں کے مقبرے کی سیڑھیوں پر سے وہ تلچھٹ دھلنے لگی جو میجر ہڈسن نے بہادر شاہ ظفر کو یہاں گرفتار کر کے ہندوستان پر تھونپی تھی۔ شہنائی کے یہ جادوگر فنکار بسم اللہ خان تھے۔
مندروں کے شہر بنارس میں گنگا کنارے بسنے والے بھارت رتن استاد بسم اللہ خان کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے تن تنہا شہنائی کی سیتا کو ڈوم ڈھاریوں کے نرغے سے نکال کر موسیقی کے بلند ترین معیار سے روشناس کرایا۔ شہنائی فٹ بھر کی نرسل ہی تو ہے مگر لکڑی کا یہ بے جان ٹکڑا بسم اللہ خان کے ہونٹوں سے چھو جاتا تو نرتے سمراٹ ہو جاتا۔ شہنائی کے ساز پر بسم اللہ خان انگلیاں رکھتے تو کاشی دوار میں مندروں کے کلس سنہری ہو جاتے، دلوں میں مسرت آمیز نیکی کا وفور ہونے لگتا۔
1937 کا برس تھا۔ کلکتہ میں کل ہند موسیقی کانفرنس میں استاد بسم اللہ خان نے شہنائی بجائی تو راگ ودیا کے پارکھ اس ساز کے امکانات سے آگاہ ہوئے۔ بسم اللہ خان نے تب سے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ممبئی میں سر سنگار سمیلن ہر برس اپریل میں منعقد ہوتا ہے۔ کوئی 40 برس اس سنگت کا آغاز استاد بسم اللہ کی شہنائی سے ہوا کیا۔ بھارت کا کونسا رہنما ہے جس نے بسم اللہ خان کی شہنائی نہیں اٹھائی۔ پدم شری، پدم بھوشن، اور پھر پدم وی بھوشن سے لے کر بھارت رتن تک ہندوستان کا کونسا اعزاز تھا جو بسم اللہ خان پر نچھاور نہیں کیا گیا۔
استاد عبدالکریم خان اور پنڈت اوم کار ناتھ کے بعد استاد بسم اللہ خان تیسرے فنکار تھے جنہیں سر میں الوہی کیفیت کی جستجو تھی۔ استاد فرماتے تھے کہ سر ایسا سچا موتی اور صاف جل ہے کہ اس میں کھوٹ اور کپٹ نہیں ہو سکتی۔ چاہو تو سر کے گھاٹ ہی پہ رہو اور چاہو تو اثر کے ساگر میں اتر جاو۔ حلال اور حرام کی جکڑ بندیوں میں الجھے کسی کٹ حجتی نے استاد کو دِق کیا تو قدرے جھلا کے کہا سات شدھ اور پانچ کومل سروں کی یہ مالا ہمارے لیئےتو مالک تک پہنچنے کا وسیلا بن گئی۔ اگر یہ حرام ہے تو اور حرام کرو، اور حرام کرو۔ “
فن کے اعلٰی ترین امکانات فنکار میں کیسے تجسیم پاتے ہیں، یہ جاننے کے لیئے استاد بسم اللہ خان کو دیکھنا کافی تھا۔ وضع قطع میں بانکپن مگر بانکا پن نہیں، روّیے میں معصومیت مگر لاعلمی نہیں، رکھ رکھاو میں رعونت نہیں، بس اپنے مقام کا ان کہا احساس۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں سے اعلٰی ترین اعزازی ڈگریاں پانے والے بسم اللہ خان سائیکل رکشہ پر سفر کرتے تھے۔ سستے سگریٹ کا رنج کھینچتے تھے۔ شہر سے باہر جانا ہوتا تو ریل کے دوسرے درجے میں سفر کرتے۔ مگر بسم اللہ خان کی انگلیوں کا جادو بھارت ہی نہیں دنیا کے ہر اس کونے میں بول رہا ہے جہاں ہندوستانی موسیقی سنی جاتی ہے۔
21 مارچ 1916 کو بہار کے گاوں )دمراوں) ضلع بکسر میں جنم لیا تھا۔ 21 اگست 2006 کی صبح واراناسی کے (Heritage) ورثہ ہسپتال کے پیڑوں پہ چڑیاں چہچہا رہی تھیں اور دور کہیں بھیرویں کے بول ’جوگی مت جا مت جا مت جا۔۔۔‘ ابھی ہوا میں رچ رہے تھے کہ استاد نے آنکھیں موند لیں۔ شہنائی خاموش ہو گئی۔
پروین سلطانہ
(پیدائش 1950)
کلا کی مانگ کبھی سونی نہیں رہتی۔ جس برس استاد فیاض خان رخصت ہوئے، اسی سال آسام کے قصبے ناگاوں میں اکرام المجید کے ہاں پروین سلطانہ پیدا ہوئیں۔ اکرام المجید صاحب موسیقی کے پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ سو اسی روایت میں سب سے بڑی صاحبزادی پروین کی تعلیم شروع ہوئی۔
بچپن کے جو دن کھیل کود کا زمانہ کہلاتے ہیں وہ پروین سلطانہ نے سارنگی اور سرمنڈل کی سنگت میں گزارے۔ کڑی تربیت اور ریاض کے سلسلے آسام سے کلکتہ تک دراز ہوئے۔ 1962 میں کلکتہ کے سدارنگ سنگیت سمیلن میں پروین سلطانہ نمودار ہوئیں تو ان کی عمر 12 برس تھی۔ انہیں پدم شری کا اعزاز پانے والی بھارت کی کم عمر ترین فنکارہ بننے میں صرف 14 برس لگے۔
اس بیچ میں ایک سنگ میل1973 میں استاد دلشاد خان کی صورت میں سامنے آیا۔ کیرانہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے استاد دلشاد خان نے پروین سلطانہ کو ہندوستانی گائیکی کے دوسرے گھرانوں ہی سے روشناس نہیں کرایا بلکہ شریک حیات بن کر سر سانس کی سنگت بھی دی۔ دلشاد خان راگ ودیا میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔ان کی رفاقت میں پروین سلطانہ کے ریاض کو ایسا نکھار ملا کہ وہ تیسرے سپتک کا افق پار کر کے چوتھے کی پہنائیوں میں اڑان بھرنے لگیں۔
آواز کی نفاست، ادائیگی کی سہولت اور جذبے کا رچاو، ایک فنکار میں یہ گن آسانی سے جمع نہیں ہوتے۔ ڈھلتی شام کے رنگوں میں پروین سلطانہ کے راگ کی بڑھت ہو تو گویا کلا کی اپسرا سوختہ دلوں کے سینوں پہ نرت کرتے گزرتی ہے۔ کیا تعجب کہ داود رہبر جیسے گیانی نے روشن آراء کے بعد پروین سلطانہ کا نام لیا ہے۔
جونپوری کے مہا گیانی سر یلے نو رتن
وجاہت مسعود
صبح کی کرن پھوٹتی ہے۔ دھندلے کے سہاگ پہ نکھار آتا ہے۔ دھوپ اترتی ہے۔ دن چڑھ آیا۔ اب دنیا کے دھندے ہوں گے۔ بازار میں کٹورہ بجے گا۔ بچے بالے مدرسے کی راہ لیں گے۔ دلہن حمام کرے گی۔ دفتر میں اجلاس اور محل میں دربار ہو گا۔ پل دو پل کا میلہ ہے۔ کوئی دم میں سورج اٹریا کے اس پار پہنچ کر ڈھلوان کے سفر پہ روانہ ہو گا۔ دھوپ ڈھلے گی۔ زوال کی ساعت گنی جائے گی۔ اقتدار ہو یا عمرِ رواں، روپ کی برکھا ہو یا عشق کی گرمیاں، جوبن کی گھڑیاں تو بس گنی چنی ہوتی ہیں۔
پندرھویں صدی میں وسطی ہند کی ریاست جونپور کے والی سلطان حسین شرقی یہ حقیقت سمجھتے تھے۔ فنون کے سرپرست حسین شرقی نے راگ جونپوری کی داغ بیل ڈالی۔ جونپوری دن کے دوسرے پہر کا راگ ہے۔ٹھاٹھ اساوری مگر آروہی میں کومل گندھار کا ایک تل جڑ دیا جاتا ہے۔ بلمپت میں نکھاد کے خدوخال جو کچھ تیکھے ہوتے ہیں تو گویا ہر تان پنچم کو پہنچتی ہے۔
بیسویں صدی میں راگ ودیا کے قریب قریب سبھی مہاساگر گیانیوں نے راگ جونپوری کی مانگ میں سیندھور بھرا ہے۔ ہم نے کلاسیکی موسیقی کے تعارف میں راگ جونپوری منتخب کیا کہ نفرت اور ناانصافی میں لپٹی بستیوں پہ شانتی کا بول اترے۔ جنگ میں جلتی گلیوں میں امن کا سر سنائی دے۔ ہر منتخب فنکار کے تعارف کے ساتھ راگ جونپوری میں ان کے فن کا نہایت مختصر نمونہ بھی حاضر ہے۔ یہ خاکِ اہل ہنر ہے، کہیں ٹھکانے لگے۔
سنگیت رتن استاد عبدالکریم خان
(1937-1872)
ہندوستانی سنگیت کو بیسویں صدی میں استاد عبدالکریم خان سے بڑا فنکار نصیب نہیں ہوا۔ استاد عبدالکریم خان ہر سانس کو سر میں بدلنا چاہتے تھے۔ ہر جذبے کو تان کی شکل دینا چاہتے تھے۔بندش، گمک اور مینڈھ تو گویا ہنر کا پردہ رکھنے کے بہانے تھے۔
کیرانہ کا قصبہ کوروکھیشتر کے قریب واقع تھا جہاں کوروں اور پانڈووں میں یدھ ہوا تھا۔ کیرانہ کے کالے خان صاحب سارنگی میں اپنا مقام رکھتے تھے۔ بیٹا عبدالکریم ابھی چار برس کا تھا کہ انہوں نے اس کی انگلی چھوڑ دی۔ کلا کی راہیں سنگین ہوتی ہیں۔ سایہ اٹھ جائے تو اور کٹھن ہوجاتی ہیں۔
1908 میں عبدالکریم خان مہاراجہ بڑودہ کے درباری گائیک ہوگئے۔ شاہی خانوادے کی نورس کلی تارہ بائی سے تعلقِ خاطر ہوگیا۔ دونوں چاہنے والوں کو بڑودہ چھوڑ کر بمبئی میں پناہ لینا پڑی۔اس بیچ میں استاد نے موسیقی کی تعلیم کے باقاعدہ ادارے قائم کئے۔ پونے کے قریب میرج کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنایا۔ دربار میسور سے سنگیت رتن کا خطاب پایا۔ 1922ءمیں تارہ بائی استاد عبدالکریم سے علیحدہ ہوگئیں۔ جس گلے سے سرکا چشمہ بہتا تھا اس پہ برہا کے گز کا باریک تار پھرگیا۔ استاد کی گائیکی میں ملال اور سوز کی لکیریں گہری ہوگئیں۔
سادھارن روپ میں جیون کرنے والا یہ کبیر پنتھی رابندر ناتھ ٹیگور کے ساتھ شعر کی نزاکتوں اور فزکس میں نوبل انعام یافتہ سی وی رامن سے موسیقی کے صوتیاتی اصولوں پر علمی مکالمہ کرتا تھا۔ استاد کریم کی گائیکی میں الوہی کیفیت تھی۔ سرگم کی چتر کاری میں وارفتگی اور عبودیت میں فاصلہ نہیں رہتا تھا۔ گاتے سمے استاد کریم کی سر ورشا سننے والوں پر یوں اترتی تھی جیسے کوئی عارف اپنے پیروکاروں میں گیان کے موتی بانٹتا ہے۔
استاد عبدالکریم وسطی ہندوستان کے پہلے گائیک تھے جنہوں نے جنوبی ہند کی راگ ودیا کو سمجھا بھی اور اپنی گائیکی میں سمویا بھی۔ 1937 میں جنوبی ہندوستان کی یاترا پر تھے۔ ریل گاڑی میں طبیعت کچھ ناساز ہوئی۔ ایک گمنام سے سٹیشن پر اتر پڑے اورٹالسٹائی کی طرح پلیٹ فارم پر دم توڑ دیا۔ روشن آرا بیگم راوی تھیں کہ استاد کریم آخری وقت میں درباری کے سروں میں کلمہ پڑھ رہے تھے۔ استاد فیاض خان کو خان صاحب عبدالکریم کے ناگہانی انتقال کی خبر ملی تو بے ساختہ کہا ”ہندوستان میں سر مرگیا“۔
زہرہ بائی آگرے والی
(1868 – 1913)
ہندوستان سے مغل اقتدار کی بساط پوری طرح لپیٹی جاچکی تھی لیکن نئے بندوبست کے پاوں ابھی پوری طرح جمے نہیں تھے۔ مرزا غالب زندہ تھے اور اپنے خطوط میں ختم ہوتے ہوئے عہد کی تصویریں کھینچ رہے تھے۔ تار، ڈاک اور ریل کی صورت میں آنے والے زمانے کے خدوخال ابھرنے لگے تھے۔
جھٹ پٹے کے ان برسوں میں آگرہ گھرانے میں پیدا ہونے والی زہرہ بائی کا منصب گائیکی کے قدیم ڈھنگ کونئے زمانے سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ دھرپد اور خیال سے چلتی ہوئی زہرہ بائی ٹھمری اور غزل تک آئی۔ یہ گویا موسیقی کے ہلکے پھلکے انداز کا نقطہ آغاز تھا۔ نئی موسیقی کی بنیادیں زہرہ بائی نے بھریں۔ اس پر دیواریں اٹھانے والے بعد میں آئے۔
نئی صدی شروع ہوئی۔ زہرہ بائی آگرے والی کا کمالِ ہنر نصف النہار پر تھا۔ تعلیم مکمل ہوچکی تھی۔ زہرہ کا اپنا رنگ پہچانا جانے لگا تھا۔ زہرہ نے آگرہ گھرانے کی تمکنت برقرار رکھی۔ ادائیگی شستہ اور بول بانٹ واضح۔ زہرہ بائی کا نام زندہ رکھنے کو یہی بہت ہے کہ استاد فیاض خان خود کو زہرہ بائی کا خوشہ چین قرار دیتے تھے۔ استاد بڑے غلام علی خان زہرہ کے معترف تھے۔ یوں برصغیر میں ریڈیو ابھی نہیں آیا تھا مگر گراموفون کی صورت میں زہرہ کے درجنوں ٹکڑے دستیاب ہیں۔
گوہر جان کلکتے والی
(1873 – 1930)
گول کمرے میں ریشمی غلاف سے آراستہ گول میز پر بڑے بھونپو والا گراموفون رکھا ہے۔ سوئی کی نوک چکر کھاتے ریکارڈ کا سینہ چیرتی آگے بڑھتی ہے۔ سو برس پہلے کی ریکارڈنگ خراش آلود مگر سر کا تموج کہے دیتا ہے کہ ساز کے پردے میں کوئی غیرتِ ناہید چھپی ہے۔ نغمہ ختم ہونے پر آواز آتی ہے، ”میرا نام گوہر جان کلکتے والی’ تو کچھ سننے والے مسکرائے بنا نہیں رہتے۔ ارتقا کا یہی چلن ہے۔ پرانے لوگ نئی دنیا سے ڈرتے ہیں اور نئی دنیا پچھلوں پہ ہنستی ہے۔
انیسویں صدی کا نصف آخر تھا۔ ابھی گاوتکیے سے ٹیک لگا کر پان کھانے، پیچوان اڑانے اور مشاعرہ سننے والے انگریزوں کی روایت موجود تھی۔ آرمینیا کے یہودی ولیم رابرٹ نے 1870 میں کلکتہ کی ناچ گرل و کٹوریہ سے شادی کر لی۔ اینجلینا کی پیدائش کے بعد وکٹوریہ سازندے خورشید کے عشق میں گرفتار ہوگئی۔ ولیم سے طلاق ہوگئی۔ 1881میں بنارس پہنچ کر یہ گھرانہ مسلمان ہو گیا۔وکٹوریہ ملکہ بائی کہلائی اور اینجلینا کو گوہر جان کا نام ملا۔ ان دنوں بنارس رقص، موسیقی اور تھیٹر کا مرکز ہو رہا تھا۔ان علوم کے علاوہ ادب اور گھڑ سواری میں بھی گوہر جان کی تعلیم شروع ہوئی۔
1883 میں یہ لوگ واپس کلکتہ آئے تو دریائے ہگلی کے کنارے میٹا برج کے جھروکوں میں واجد علی شاہ ابھی سیرِ گل کرتے تھے۔ اندر سبھا اور پارسی رہس گلے مِل رہے تھے۔ یہ ڈیرے دار طوائفوں اور ریاستی مجروں اور خوش ذوق انگریزوں کی دنیا تھی۔گوہر جان 1887 میں زمزمہ پردازہوئی۔
راگ ودیا اور رقص پر عبور اپنی جگہ، گوہر جان کے پاس قتلِ عام کے ھتھیاروں کی کمی نہیں تھی۔ تیکھے نقوش، چمکتی آنکھیں، بوٹا قامت، لمبے سیاہ بال اور چال ڈھال میں شاہانہ وقار۔ زرتار ساڑھی کے پلو تلے سیب کی ڈنڈی ناف جھلک دیتی تھی۔ تان میں بارش کے قطروں سی تازگی اور نرت میں بجلی۔ عبدالحلیم شرر اور اکبر آلہ آبادی تک کون تھا جوگوہر جان کے کوچے سے سلامت نکلا ہو۔
ایچ ایم وی کمپنی ہندوستانی گانے ریکارڈ کرنے کلکتہ آئی تو نظرِ انتخاب گوہر جان پر پڑی۔ 14نومبر 1902 کو گوہر جان نے ہندوستان میں پہلا گیت ریکارڈ کرایا۔ جونپوری کے ٹکرے مختصر کا معاوضہ تین ہزار روپے۔ بہت سوں کا خیال تھا کہ ہندی سنگیت کو تین منٹ میں سمویا نہیں جاسکتا۔ گوہر جان نے کوزے میں سمندر بند کرنے کی روایت شروع کی۔گیت کے آخر میں اپنا نام بتانے کی علّت یہ تھی کہ ریکارڈ کی تیاری کے آخری مراحل جرمنی کے شہر ہینوور میں سر ہوتے تھے۔ ریکارڈ کے غلاف پر فنکار کا درست نام ثبت ہونا ضروری تھا۔
1911 میں جارج پنجم کی تاج پوشی کے موقع پر دلّی دربار میں مبارکبادی گانے کا موقع گوہر جان اور جانکی بائی کو ملا۔ گوہر جان کا ٹھسکہ اپنی جگہ داستانوی تھا، کلکتہ میں گوہر جان کے سوا کسی ہندوستانی کو چار گھوڑوں والی بگھی میں سواری کی اجازت نہیں تھی جو ہر شام مہالکشمی ریس کورس میں گھڑ دوڑ دیکھنے پہنچتی تھی۔ علم کا یہ درجہ کہ رابندر ناتھ ٹیگور کے ساتھ شعر اور گاندھی جی کے ساتھ سوراج پر بات ہوتی تھی۔
گوہر جان نے اپنے پرسنل سیکرٹری سید غلام عباس سے شادی کی تھی۔ غلام عباس سے علیحدگی کے بعد بمبئی میں امرت نائیک کے ساتھ رہنے لگیں۔ امرت نائیک کی اچانک موت نے گوہر جان کے جھالے پر دکھ کی پھوار ڈال دی۔ گوہر جان میسور دربار سے منسلک ہوگئیں۔ یہیں 1930 میں ساز کے تار ٹوٹ گئے۔
آفتابِ موسیقی استاد فیاض خان
(1880-1950)
آگرہ گھرانے کی گائیکی سے مغل خاندان کا سایہ کبھی ہٹ کے نہیں دیا۔ برصغیر پاک و ہند میں مغل حکومت کے رسمی خاتمے سے ٹھیک بیس برس بعد پیدا ہونے والے فیاض خان مغل موسیقی کی آخری تان تھے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگتا کہ دم توڑتے شیر کی دھاڑتھے۔ فیاض خاں کی گائیکی پر نظر ڈالنے سے پہلے آگرہ گھرانے سے مغل عہد کا تعلق واضح ہونا ضروری ہے۔
آگرہ گھرانے کی خاص چیز دھرپد ہے اور صدری راگ، درباری۔ ان دونوں نے اکبر کے دربار میں جنم لیا۔ آگرے کو اکبر کی روح سے جدا نہیں کیا جاسکتا، فتح پور سیکری کی عمارات اور پھر اکبر کے مقبرے میں اس شہر کے طرز تعمیر کی روح دوڑتی ہے۔
اکبر کے بعد آنے والوں میں جلال کا شعلہ ختم ہوتا رہا اور جمال کی لو نظر آنے لگی۔ اکبر مہم جو حکمران تھا۔ دربارِ اکبری میں ایسی ہی موسیقی موزوں تھی جس میں ہر تان بہادروں کی للکار ہو اور پس منظر میں نازک اندام طبلے کی بجائے پکھاوج کی صورت میں یلغار کرتے گھوڑوں کے قدموں کی ٹاپ سنائی دے۔ سنگین چٹانوں پر سموں سے چنگاریاں اڑیں تو بلوانوں کی چوڑی چھاتیاں پہاڑسمان دکھائی دیں۔
دھر پد کی خاص تالوں تالہ میں نزاکت کی بجائے طنطنہ پایا جاتاہے۔ دھمار اور دھمال میں صوتی رعایت ہی نہیں ، کیفیت کی ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔ فیاض خان کلا کے ساگر میں غرق سر مست قلندر تھا۔
استاد فیاض خان کی آواز پاٹ دار اور لہجہ گھن کرج کا تھا لیکن آپ کے مزاج میں سر کے خفیف بہلاوے اور لے کے ہلکورے کو محسوس کرنے، اظہار کرنے اور پھر سننے والوں تک پہنچانے کی صلاحیت بھی فراواں تھی۔ سوزِ دروں اور جذبہ ہمدردری کے بغیر فن اور انسان کے مابین ہمدمی پیدا نہیں ہوسکتی۔
فن کائنات کے آخری امکانات کی چتاونی قبول کرتا ہے۔ اسے محض ایک نقشِ پا کہتا ہے مگر بھوبل بالو یا میلوں پھیلے برفانی میدانوں پر لکھے نقوشِ پاکی نزاکتیں پڑھنے والی آنکھ بھی تو ہونی چاہیے۔ راگ کانہڑہ میں اندولن کرنے والے فیاض خاں نفیس طبع شاعر تھے۔ پریم پیا تخلص کرتے تھے اور جب نندلال کے گاوں برج کی ناریوں کے لفظوں میں راگ پوریا کی بندش کہتے تھے،
میں کر آئی پیاسنگ رنگ رلیاں
تو سننے والے جان لیتے تھے کہ قوت اور درد مندی میں کیا رشتہ ہے۔ علم اور جمالیاتی لطف میں کیا تعلق ہے۔ خود دار فیاض خاں اپنی پرشکوہ آواز میں سر پر استقامت دکھاتے ہوئے اچانک سر کو بہلاوا دیتے تو کن رس دربار اکبری اور محمد شاہی دربار کا فرق جان لیتے تھے۔ درباری کا نہڑہ اور شاہانہ کا نہڑہ میں محض دوزمانوں کا بعد نہیں، دو الگ الگ مزاج نظر آتے ہیں۔ جہاں آگرہ کی سرگم میں شدہ سر لگتا ہے وہاں شام اودھ میں چنچل سر لگتے ہیں۔
خوش قسمتی سے فیاض خان کی زندگی ہی میں برصغیر میں ریڈیو جاری ہوگیا تھا۔ سو ان کے پچاس کے قریب راگ اہل ذوق کی تسکین کے لیے دستیاب ہیں۔ ان کا انتقال کے بعد آگرہ گھرانے کا رنگ کمہلانے لگا۔ دھرپد کی جگہ خیال مقبول ہوا۔ پکھا وج کی جگہ طبلے کا باج بلند ہوا اور شہنائی کی جگہ مرلی نے لے لی۔ شامِ بنارس میں آگرہ انگ کی گرج دار گائیکی کی جگہ کم پڑتے لگی۔ مرزا یاس یگانہ نے کہا تھا، بانسری نے دلوں کو موہ لیا۔ ایسا ہی ہوا ہوگا مگر جائے استاد خالی است
استاد بڑے غلام علی خان
(1902 – 196
تقسیم ہند کے بعد سید ذوالفقار بخاری ریڈیو پاکستان کے مدارالمہام قرار پائے۔ جذبہ تعمیر فراواں تھا۔ نشریات کے ساتھ ساتھ نئے ملک کے ثقافتی خدوخال کی مشاطگی بھی اپنے کندھوں پہ لے لی۔ استاد بڑے غلام علی خان کو150 روپے کے خطیر مشاہرے پر پشاور ریڈیو سٹیشن پہنچنے کا حکم ملا۔ استاد بھونچکے رہ گئے۔ جب ذرا اوسان بجا ہوئے، جہاز کا ٹکٹ کٹایا اور دہلی جا پہنچے۔پالم پور ہوائی اڈے پر جہاز کی سیڑھیوں کے پاس پنڈت جواہر لال نہرو سواگت کو کھڑے تھے۔
20ویں صدی میں کلاسیکی موسیقی میں استاد بڑے غلام علی خان سے بڑھ کر پذیرائی کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔ لاہور کے قریب قصور کے پٹیالہ گھرانے میں پیدا ہوئے مگر استاد نے اپنی گائیکی کے مندر میں دھرپد کے بہرام خانی نقوش ،جے پور گائیکی کی نفیس مرکیاں اور گوالیار کے دل آویز بہلاوے یوں سجائے تھے کہ اس مشت خاک سے سروں کی کرنیں چاندنی کی طرح چھنتی تھیں۔ لاہور کی زمین میں ایک وارفتہ لِلک کی سی کیفیت ہے۔ بڑے غلام علی خان نے اپنے فن اور ذات میں گٹکریاں لیتا لاہور سمو لیا تھا۔
دوہرا تن و توش، فیاض خان صاحب جیسی گھنی مونچھیں مگر خدوخال سے شفقت برستی تھی۔ ہم عصر اور ہم سر فنکاروں سے موازنہ کریں تو استاد کو زندگی سے زیادہ مہلت نہیں ملی۔ 1938 میں کلکتہ کی کل ہند موسیقی کانفرنس میں یہ ستارہ پہلی بار چمکا۔ 1944 کی بمبئی کانفرنس تک تابش میں خورشید ہو چلا تھا۔ سنہ 47 سے سنہ 58 تک کے دس برس ریڈیو پاکستان کی غلام گردشوں میں کھو گئے۔ 1962 میں ہند سرکار نے پدم شری کا اعزاز خطاب دیا۔ اسی برس فالج کا حملہ ہوا۔
برصغیر میں کسےِ یارا تھا کہ بڑے غلام علی خان کی جانکاری پر انگلی اٹھائے مگر یہ ہے کہ استاد خود موسیقی کی تعلیم اور راگ کو کلا کی پہلی سیڑھی سمجھتے تھے۔ تیسرے سپتک کے دشت امکاں میں کلیلیں بھرتے تھے مگر ان کا سر بہار گلا، سارنگی سے کھیلتی انگلیاں اور کہیں دور ٹکِی آنکھیں راگ کے وسیلے سے زندگی کے اس گیان کو پانا چاہتی تھیں جو فن کے بندھے ٹکے قاعدوں کی جکڑ میں نہیں آ سکتا۔
استاد کو ریاض سے عشق تھا۔ استاد بڑے غلام علی کو کم کسی نے سر منڈل کے بغیر دیکھا ہو گا۔ تانگے کی پچھلی نشست پر بیٹھے ہیں اور انگلیاں تاروں سے کھیل رہی ہیں۔ باغ میں کوئی پرندہ چہچہایا اور استاد نے سر کی تتلی پکڑ لی۔ کوئی خوش جمال پاس سے گزری اور استاد نے یہ خوشبو بھی کسی تان میں قید کر لی۔
استاد بڑے غلام علی خان نے ٹھیک کیا جو بھارت چلے گئے۔ لاہور کی مال روڈ پر تو اب تانگہ نہیں چلتا۔
ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم
(1917 – 1982)
پہلی لام کا ہنگام اپنے انت کو بڑھ رہا تھا۔ ہندوستان میں تحریک خلافت کی گونج تھی مگر کلکتہ کی گلیوں میں خیال کی سرگم بسی تھی۔ چتر ونیا کی لے تھی۔ ستار کے تاروں کی جھانجھ تھی۔ وحشت کلکتوی کی غزل تھی۔ نذر الاسلام کا گیت تھا۔ ٹیگور بانی کا جادو بولتا تھا۔ محی الدین ابوالکلام آزاد کا خطبہ سنائی دیتا تھا۔
یہیں1917 میں ایک متوسط گھرانے میں وحیدالنسا پیدا ہوئیں۔ والد چوب کار تھے۔ لکڑی پر نقش و نگار بنا کر رزق کماتے تھے۔ بیٹی کو یہی نقش و نگار ہندوستان کی سنگھارہواوں میں کھینچنا تھے۔ وحید النسا کی خالہ عظمت النسا موسیقی میں درک رکھتی تھیں اور نوری بیگم کے نام سے جانی جاتی تھیں۔پنجاب کے رہنے والوں کو شاید تعجب ہو مگر بنگال کے خطے میں سر فحاشی کا استعارہ نہیں، تہذیب کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ سو کم عمر بچیوں کو تان پلٹے سے شغف ہو تو اس پہ جرگہ نہیں بیٹھتا تھا۔
وحید النسا کے گھر میں وارثی سلسلے کے ایک بزرگ حافظ پیاری صاحب کا آنا ہوا۔ تصوف کے شناور کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے ایک شاخِ نبات سےافلاطونی عشق کرکے شماتتِ ہمسایہ مول لی تھی اور مرزا پیاری صاحب کہلاتے تھے۔ وجد میں ہوتے تو نعرہ بلند کرتے ”مزہ ہے پیاری کا” حافظ پیاری نے آٹھ برس کی وحید النسا سے قرآن حکیم کی تلاوت سنی تو نہال ہو کر کہا، تیرا نام وحید النسا نہیں تو روشن جہاں ہے۔ وحید النسا روشن آراءہوگئیں۔
1925 میں یہ گھرانہ پٹنہ چلا آیا۔ پٹنہ تہذیب کی پنچم سواری گزرے زمانہ ہو چکا تھا۔ ناٹک کے مرکز بھی کہیں بنارس اور بمبئی منتقل ہوگئے تھے مگر گنگا کے گھاٹ پہ نغمگی کی فضا موجود تھی۔ کچے راستوں پر ہچکولے کھاتی بیل گاڑیاں لین ڈوری باندھے گذرتیں تو ان کی گھنٹیوں سے رات کے پچھلے پہر جگل بندی کا نقشہ بن جاتا۔ روشن آرا نے ریاض جاری رکھا۔ ایک روز کسی سادھونے روشن آرا کی تان سنی تو شفقت سے مشورہ دیا بیٹی کلا میں پیرنے کا گر پا نا ہے تو میرج جاو اور عبدالکریم خان سے فیض اٹھاو۔
سولہ برس کی روشن آرا حضرت خواجہ شمس الدین کی درگاہ پر جا پہنچی۔ کچھ ہچکچاہٹ کے بعد عبدالکریم خان نے روشن آرا پر شفقت کا ہاتھ رکھ دیا۔ روشن آرا پانچ برس تک سنگیت کے ساگر سے موتی چنتی رہیں۔ 1937 میں استاد انتقال کرگئے مگر کیرانہ گھرانے کی میراث روشن آرا کے ہاتھ رہی۔ کلا کا فیض ماہ وسال کی حدود کا پابند نہیں ہوتا۔ خود کہا کرتی تھیں کہ استاد کے شاگرد ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تھے مگر جو کسی کو نہ مل سکا، وہ بھی روشن آرا کے حصے میں آیا۔
پچھلی صدی کی چوتھی دہائی میں ریڈیو کا بول بالا تھا۔ روشن آرا دلی سٹیشن سے جادو جگاتی تھیں جہاں بڑے دروازے سے سٹوڈیو میں داخل ہوں تو عبدالکریم خان صاحب کا مجسمہ رکھا تھا۔ یہیں روشن آرا کی ملاقات چوہدری احمد خان سے ہوئی۔ چوہدری صاحب پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ سرتال کے شیدا تھے۔ راج کے آخری دن تھے مگر ابھی کوٹھی خانوں میں پولیس افسروں کےلیے خفیہ مجرے سجانے کا چلن شروع نہیں ہوا تھا۔ تان پورے اور سارنگی کی سنگت پر چھاپے مارنا بھی پولیس کے فرائض میں شمار نہیں ہوتا تھا۔
چوہدری احمد خان نے روشن آرا کا گانا سنا۔ قدر دانی فریفتگی کو پہنچی۔ اس رشتے میں بندھ گئے۔جو سانس کی آخری گٹکری تک قائم رہا۔ اس رشتے کی ایک قیمت یہ تھی کہ ملکہ موسیقی تقسیم کے بعد دلی کی روشنیاں چھوڑ کر لالہ موسی کے غبار میں آبیٹھیں۔
30 برس کی عمر تھی۔ قدردان برصغیر کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے تھے۔ مگر شاہنامہ اسلام کی تنگنائے میں دادرا، خیال کا گذر کہاں سے ہوتا۔ روشن آرا نے اہل فن کی آنکھیں دیکھ رکھی تھیں۔ ریڈیو پاکستان پہ تو دربان بھی آنکھیں دکھاتے تھے۔ گوشہ نشین ہوگئیں۔ حیاتِ مختصر کی دوپہر خود اختیار کردہ گمنامی کی نذر ہوگئی۔ عامی خلق تو کہیں کی بھی ہو، فنکار اور کاریگر میں فرق نہیں کرتی۔ مگر پاکستان میں روشن آرا کو کن رس بھی نصیب نہیں تھے۔ غلط جگہ پہ داد ملتی تو آنکھ کا گوشہ ذرا نیہوڑا لیتیں۔ فنکار اور کیا کرے۔ کسی کو تڑی پار تو نہیں کر سکتا۔ امانت علی خان کو بھی تو ترانے گانا پڑے تھے۔
پاکستان موسیقی کانفرنس شروع ہوئی تو روشن آرا کی ڈھنڈیا پڑی۔ پھر ٹیلی ویڑن آیا اور روشن آرا کی سلامت رو تان کی بازیافت ہوئی۔ گو تان میں وہ بجلی کی سی لپک اب باقی نہیں تھی اور زیاں کا ایک احساس بادل کے ٹکڑے کی طرح ساتھ ساتھ چلتا تھا مگر ریاض سلامت تھا اور سر قائم تھا۔ اندر کی روشنی کا رچاو بھی بڑھ چکا تھا۔ سر کے آجو باجو چھوٹی چھوٹی مرکیوں سے نقش و نگار کا تانا بانا بن دیتی تھیں، کہیں بیچ میں سر گم کا ٹکڑا کہتیں تو چہرے کے نقوش کھلکھلا اٹھتے۔ ڈیوڑھے بدن کی سانولی اور گرہست صورت سرسوتی کا روپ دھار لیتیں۔ روشن آراکی گائیکی میں بِرہا کی پکار نہیں تھی، شانت سہاگن کا دھیرج تھا۔ یہ روشن آرا بیگم تھیں۔ ایک زندہ کلاسک۔ اور والٹیئر کہتا ہے، کلاسک کا نام لیا جاتا ہے۔ اِسے جانا کم کم جاتا ہے۔
بھارت رتن استاد بسم اللہ خان
(2006۔ 1917)
26 جنوری، 1951، آزاد ہندوستان کا پہلا یوم جمہوریہ تھا۔ پنڈت نہرو، راجندر پرشاد، سردار پٹیل اور مولانا آزاد لال قلعے کی تقریبات میں شریک تھے۔ کوئی 35 برس کا ایک فنکارشہنائی ہاتھ میں لیئے سٹیج پر نمودار ہوا اور راگ کافی کی دھن چھیڑ دی۔ شہنائی کے واضح اور بھرپور سر فضا میں پھیل گئے۔ لال قلعے کی فصیلوں پر ابابیلیں اترنے لگیں۔ قریب ہی ہمایوں کے مقبرے کی سیڑھیوں پر سے وہ تلچھٹ دھلنے لگی جو میجر ہڈسن نے بہادر شاہ ظفر کو یہاں گرفتار کر کے ہندوستان پر تھونپی تھی۔ شہنائی کے یہ جادوگر فنکار بسم اللہ خان تھے۔
مندروں کے شہر بنارس میں گنگا کنارے بسنے والے بھارت رتن استاد بسم اللہ خان کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے تن تنہا شہنائی کی سیتا کو ڈوم ڈھاریوں کے نرغے سے نکال کر موسیقی کے بلند ترین معیار سے روشناس کرایا۔ شہنائی فٹ بھر کی نرسل ہی تو ہے مگر لکڑی کا یہ بے جان ٹکڑا بسم اللہ خان کے ہونٹوں سے چھو جاتا تو نرتے سمراٹ ہو جاتا۔ شہنائی کے ساز پر بسم اللہ خان انگلیاں رکھتے تو کاشی دوار میں مندروں کے کلس سنہری ہو جاتے، دلوں میں مسرت آمیز نیکی کا وفور ہونے لگتا۔
1937 کا برس تھا۔ کلکتہ میں کل ہند موسیقی کانفرنس میں استاد بسم اللہ خان نے شہنائی بجائی تو راگ ودیا کے پارکھ اس ساز کے امکانات سے آگاہ ہوئے۔ بسم اللہ خان نے تب سے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ممبئی میں سر سنگار سمیلن ہر برس اپریل میں منعقد ہوتا ہے۔ کوئی 40 برس اس سنگت کا آغاز استاد بسم اللہ کی شہنائی سے ہوا کیا۔ بھارت کا کونسا رہنما ہے جس نے بسم اللہ خان کی شہنائی نہیں اٹھائی۔ پدم شری، پدم بھوشن، اور پھر پدم وی بھوشن سے لے کر بھارت رتن تک ہندوستان کا کونسا اعزاز تھا جو بسم اللہ خان پر نچھاور نہیں کیا گیا۔
استاد عبدالکریم خان اور پنڈت اوم کار ناتھ کے بعد استاد بسم اللہ خان تیسرے فنکار تھے جنہیں سر میں الوہی کیفیت کی جستجو تھی۔ استاد فرماتے تھے کہ سر ایسا سچا موتی اور صاف جل ہے کہ اس میں کھوٹ اور کپٹ نہیں ہو سکتی۔ چاہو تو سر کے گھاٹ ہی پہ رہو اور چاہو تو اثر کے ساگر میں اتر جاو۔ حلال اور حرام کی جکڑ بندیوں میں الجھے کسی کٹ حجتی نے استاد کو دِق کیا تو قدرے جھلا کے کہا سات شدھ اور پانچ کومل سروں کی یہ مالا ہمارے لیئےتو مالک تک پہنچنے کا وسیلا بن گئی۔ اگر یہ حرام ہے تو اور حرام کرو، اور حرام کرو۔ “
فن کے اعلٰی ترین امکانات فنکار میں کیسے تجسیم پاتے ہیں، یہ جاننے کے لیئے استاد بسم اللہ خان کو دیکھنا کافی تھا۔ وضع قطع میں بانکپن مگر بانکا پن نہیں، روّیے میں معصومیت مگر لاعلمی نہیں، رکھ رکھاو میں رعونت نہیں، بس اپنے مقام کا ان کہا احساس۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں سے اعلٰی ترین اعزازی ڈگریاں پانے والے بسم اللہ خان سائیکل رکشہ پر سفر کرتے تھے۔ سستے سگریٹ کا رنج کھینچتے تھے۔ شہر سے باہر جانا ہوتا تو ریل کے دوسرے درجے میں سفر کرتے۔ مگر بسم اللہ خان کی انگلیوں کا جادو بھارت ہی نہیں دنیا کے ہر اس کونے میں بول رہا ہے جہاں ہندوستانی موسیقی سنی جاتی ہے۔
21 مارچ 1916 کو بہار کے گاوں )دمراوں) ضلع بکسر میں جنم لیا تھا۔ 21 اگست 2006 کی صبح واراناسی کے (Heritage) ورثہ ہسپتال کے پیڑوں پہ چڑیاں چہچہا رہی تھیں اور دور کہیں بھیرویں کے بول ’جوگی مت جا مت جا مت جا۔۔۔‘ ابھی ہوا میں رچ رہے تھے کہ استاد نے آنکھیں موند لیں۔ شہنائی خاموش ہو گئی۔
پروین سلطانہ
(پیدائش 1950)
کلا کی مانگ کبھی سونی نہیں رہتی۔ جس برس استاد فیاض خان رخصت ہوئے، اسی سال آسام کے قصبے ناگاوں میں اکرام المجید کے ہاں پروین سلطانہ پیدا ہوئیں۔ اکرام المجید صاحب موسیقی کے پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ سو اسی روایت میں سب سے بڑی صاحبزادی پروین کی تعلیم شروع ہوئی۔
بچپن کے جو دن کھیل کود کا زمانہ کہلاتے ہیں وہ پروین سلطانہ نے سارنگی اور سرمنڈل کی سنگت میں گزارے۔ کڑی تربیت اور ریاض کے سلسلے آسام سے کلکتہ تک دراز ہوئے۔ 1962 میں کلکتہ کے سدارنگ سنگیت سمیلن میں پروین سلطانہ نمودار ہوئیں تو ان کی عمر 12 برس تھی۔ انہیں پدم شری کا اعزاز پانے والی بھارت کی کم عمر ترین فنکارہ بننے میں صرف 14 برس لگے۔
اس بیچ میں ایک سنگ میل1973 میں استاد دلشاد خان کی صورت میں سامنے آیا۔ کیرانہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے استاد دلشاد خان نے پروین سلطانہ کو ہندوستانی گائیکی کے دوسرے گھرانوں ہی سے روشناس نہیں کرایا بلکہ شریک حیات بن کر سر سانس کی سنگت بھی دی۔ دلشاد خان راگ ودیا میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔ان کی رفاقت میں پروین سلطانہ کے ریاض کو ایسا نکھار ملا کہ وہ تیسرے سپتک کا افق پار کر کے چوتھے کی پہنائیوں میں اڑان بھرنے لگیں۔
آواز کی نفاست، ادائیگی کی سہولت اور جذبے کا رچاو، ایک فنکار میں یہ گن آسانی سے جمع نہیں ہوتے۔ ڈھلتی شام کے رنگوں میں پروین سلطانہ کے راگ کی بڑھت ہو تو گویا کلا کی اپسرا سوختہ دلوں کے سینوں پہ نرت کرتے گزرتی ہے۔ کیا تعجب کہ داود رہبر جیسے گیانی نے روشن آراء کے بعد پروین سلطانہ کا نام لیا ہے۔