جون ایلیا۔۔۔ سالگرہ

ماہی احمد

لائبریرین
جون ایلیا۔۔۔۔۔۔ سالگرہ مبارک

اردو میں شاعروں کی کوئی کمی نہیں، ایسے حالات میں کسی ایسے شاعر کا اپنا الگ مقام بنا لینا حیران کن ہے جس کا پہلا شعری مجموعہ ان کی زندگی کے 60ویں برس سے پہلے شائع نہیں ہو سکا۔

لیکن دیکھا جائے تو یہ بات اتنی حیران کن بھی نہیں، کیوں کہ جون ایلیا ایک ایسے منفرد اور یگانہ شاعر ہیں جس کا انداز نہ تو پہلے گزرنے والے کسی شاعر سے ملتا ہے اور نہ ہی بعد میں آنے والا کوئی شاعر ان کے لہجے کی تقلید کر سکا۔ وہ اپنے سلسلے کے آپ ہی موجد اور آپ ہی خاتم ہیں۔

جون کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ عشق و محبت کے موضوعات کو اردو غزل میں دوبارہ لے آئے۔ غزل کا روایتی مطلب بے شک ’عورتوں سے باتیں کرنا‘ ہو، لیکن عالمی تحاریک، ترقی پسندی، جدیدیت، وجودیت اور کئی طرح کے ازموں کے زیرِ اثر جون ایلیا کی نسل کے بیشتر شاعروں کے ہاں ذات و کائنات کے دوسرے مسائل حاوی ہو گئے۔

جون نے اس کسی حد تک نظرانداز شدہ رومانوی مضامین کو دوبارہ اپنی غزل کا موضوع ضرور بنایا لیکن وہ روایت کے رنگ کے رنگ میں نہیں رنگے، بلکہ انھوں اس قدیم موضوع کو ایسے منفرد انداز سے برتا کہ ان کی آواز پرانی ہونے کے ساتھ ہی ساتھ بیک وقت نئی بھی ہے۔

جون ایلیا 14 دسمبر 1931 کو امروہہ کے ایک علمی اور ادبی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے بھائی رئیس امروہوی بھی نمایاں شاعر تھے اور انھوں نے جنگ اخبار میں روزانہ قطعہ لکھ کر شہرت حاصل کی۔

جون کے ایک اور بھائی سید محمد تقی تھے جو نامور صحافی گزرے ہیں۔ اس کے علاوہ جون کے بھانجے صادقین تھے، جو ممتاز مصور اور خطاط ہونے کے ساتھ رباعی کے عمدہ شاعر بھی تھے۔

جون ایلیا کو اقدار شکن، نراجی اور باغی کہا جاتا ہے۔ ان کا حلیہ، طرزِ زندگی، حد سے بڑھی ہوئی شراب نوشی، اور زندگی سے لاابالی رویے بھی اس کی غمازی ہوتی تھی۔ لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس طرزِ زندگی کو اپنے فن کی شکل میں ایسے پیش کیا شخص اور شاعر مل گئے اور کہ من تو شدی و تو من شدی والی کیفیت پیدا ہو گئی۔

تم بنو رنگ، تم بنو خوش بُو
ہم تو اپنے سخن میں‌ ڈھلتے ہیں

اور اس سخن میں وہ یوں ڈھلے کہ جیسا باغیانہ رویہ انھوں نے دنیا سے اپنایا تھا وہ محبوب سے بھی اختیار کر لیا:

مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا؟

یہ روایتی غزل کے شاعر کا مفعولی، شکست خوردہ لہجہ نہیں ہے۔ یہ وہ عاشق نہیں ہے جو محبوب کے سامنے بچھ بچھ جاتا ہے اور اس کے ایک اشارے پر دل، کلیجہ اور جگر نکال کر سامنے دھر دیتا ہے۔ بلکہ اسے محبوب سے ’دھول دھپا‘ کرنے کے لیے ’عذرِ مستی‘ کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی:

اے خوش خرام پاؤں کے چھالے تو گن ذرا
تجھ کو کہاں کہاں نہ گھماتا رہا ہوں میں

یہ شعر اور کون کہہ سکتا تھا؟

یاسمن، اس کی خاص محرمِ راز
یاد آیا کرے گی اب تو بھی!

محبوب کے ساتھ ان کا بے باکانہ اردو میں بے حد نرالا ہے۔ یہ بے باکی بعض اوقات جارحیت تک میں بدل جاتی ہے۔

اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منھ نوچ لے کوئی

اور اس شعر کا کھلا کھلا ہرجائی پن ملاحظہ ہو:

شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ھوئی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ھوں میں

یہ اشعار نہ صرف اپنے مضمون بلکہ انداز اور اسلوب کے لحاظ سے بھی چونکا دینے والے ہیں۔

جون نے جو بے تکلفانہ اور لاگ لپٹ سے پاک انداز محبوب سے اپنا رکھا تھا، وہ دوسرے موضوعات کو بھی اسی لاٹھی سے ہانکتے ہیں:

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا؟

اسی غزل کا ایک اور شعر ضرب المثل بن گیا ہے، یا اگر نہیں بنا تو جلد ہی بن جانا چاہیے:

مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا؟

جون نے اپنی زندگی بے حد بے پروائی سے گزاری۔ وہ خود کہتے ہیں:

نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم؟

شاید اسی لیے انھوں نے مجرمانہ حد تک اپنی شاعری کی نشر و اشاعت سے پہلو تہی کی۔ لیکن اس کے باوجود دنیا ان کی پروا کرنے پر مجبور ہے اس لیے آج انھیں رزقِ خاک بنے ہوئے دس برس گزر گئے لیکن اردو دنیا ان کی یاد کو اب بھی سینے سے لگائے
(مضمون۔ بی بی سی اردو)
 
952243867.jpg
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جون ایلیا 14 دسمبر 1931 کو امروہہ کے ایک علمی اور ادبی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے بھائی رئیس امروہوی بھی نمایاں شاعر تھے اور انھوں نے جنگ اخبار میں روزانہ قطعہ لکھ کر شہرت حاصل کی۔
"نفسیات و مابعد نفسیات" کے موضوع پر ڈھائی سو ہفتے تک مضمونچے لکھنے والا۔۔۔ جنسیات کے اوپر ایک مفصل کتاب لکھنے والا، "من عرف نفسہ" جیسا ادارہ چلانے والا۔۔۔۔ اور بی بی سی کے ایک گمنام کالم نگار کے لیے ٹھہرا جنگ میں قطعہ لکھ کر شہرت حاصل کرنے والا۔۔۔۔ منہ کا ذائقہ ایسا کڑوا ہوا کہ بس۔۔۔۔

اور رہی بات جون ایلیا کی۔۔۔ تو یہ ایک کالم سا تھا۔۔۔ جس کو لکھ کر چھاپ کر رسم نبھا دی گئی۔۔۔ مگر چلو یاد تو رکھا۔ وگرنہ جہاں ستارے اب مراثیوں کا گنا جاتا ہے۔ وہاں ایسے کسی ادبی و علمی شخصیت کو یاد رکھنا بھی بعید از قیاس ہی معلوم ہوتا ہے۔
ویسے اگر احباب نے جون ایلیا پر کچھ پڑھنا ہے۔ تو میں محترم راشد اشرف صاحب کا جون پر لکھا مضموں پڑھنے کا کہوں گا۔

جون کے یوم ولادت پر جون کی ایک خوبصورت غزل آپ کی بصارتوں کی نذر

شام تھی اور برگ و گُل شَل تھے مگر صبا بھی تھی
ایک عجیب سکوت تھا ایک عجب صدا بھی تھی

ایک ملال کا سا حال محو تھا اپنے حال میں
رقص و نوا تھے بے طرف محفلِ شب بپا بھی تھی

سامعۂ صدائے جاں بے سروکار تھا کہ تھا
ایک گماں کی داستاں برلبِ نیم وا بھی تھی

کیا مہ و سالِ ماجرا، ایک پلک تھی جو میاں
بات کی ابتدا بھی تھی بات کی انتہا بھی تھی

ایک سرودِ روشنی نیمۂ شب کا خواب تھا
ایک خموش تیرگی سانحہ آشنا بھی تھی

دل تیرا پیشۂ گلہ کام خراب کر گیا
ورنہ تو ایک رنج کی حالتِ بے گلہ بھی تھی

دل کے معاملے جو تھے ان میں سے ایک یہ بھی ہے
اک ہوس تھی دل میں جو دل سے گریز پا بھی تھی

بال و پرِ خیال کو اب نہیں سمت وسُو نصیب
پہلے تھی ایک عجب فضا اور جو پُر فضا بھی تھی

خشک ہے چشمۂ سارِ جاں زرد ہے سبزہ زارِدل
اب تو یہ سوچیے کہ یاں پہلے کبھی ہوا بھی تھی
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
عاشقاں ! جشن - ایلیا آیا
شاعری ! تیرا دیوتا آیا

شاعراں ! کورنش بجا لاؤ
میر و غالب کا دلربا آیا

اہل - دانش ! سلام پیش کرو
نازش - علم و فلسفہ آیا

فارھہ ! (اے دروغ گو لڑکی )
تیرا مظلوم و مبتلا آیا

صد مبارک ! ہزار تسلیمات
اہل - حالت کا حالیہ آیا

جون آیا ؟؟ نہیں نہیں صاحب
یہ تو قدرت کا فیصلہ آیا ..!

اپنی تعظیم کر ! ترے لب پر
مصرع - جون ایلیا آیا ..!

کیا عجب ہے کہ وہ جو تھا ہی نہیں
لے کے "ہونے" کا معجزہ آیا ..!!

آسماں پر نہ تھا کوئی اس کا
سو زمیں پر وہ برملا آیا ..

صاحب - کیفیت بہت ہیں ،مگر
لطف آیا تو جون کا آیا ..!

مرقد - جون پر گیا تھا تو ؟
فاتحہ پڑھ کے ہی چلا آیا ؟؟؟

"حاصل - کن ہے یہ جہان _ خراب "
مصرع پڑھتے ہی پیار سا آیا...!

بر سر _ ارض - شاعری زریون
جون ایسا نہ دوسرا آیا ..!

علی زریون​
 

عبدالحسیب

محفلین
یاد تھے یاد گار تھے ہم تو!!
بے شک جون اپنی مثال آپ تھے۔ رومانیات کو ایک نئی زندگی تو جون نے بخشی ہی لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جون پہلا شاعر(کم از کم میرے ناقص علم میں!) ہے جس نے مابعدِ عشق کی کیفیات کو موضوع سخن بنایا اور وہ بھی اس سادگی کے ساتھ،،

کہتے ہیں انتہائے عشق جسے
ایک فقط کھیل ہے مروت کا

عشق کی حالت کچھ بھی نہیں تھی، بات بڑھانے کا فن تھا
لمحے لافانی ٹھہرے تھے،قطروں کی طغیانی تھی

ترکِ الفت ہے کس قدر آسان!
آج تو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں!!


اور یہ شعر جو ردِ غم کا شاہکار ہے،

ہر ایک حالت کے بیری ہیں یہ لمحے
تو کسی غم کے بھروسے پر نہ رہیؤ

بھئی جون کے انداز ہی نرالے ہیں،،،،واقعی،،، "مصرعہ یہ جون کا ہے اسے مت اُٹھایئے" :) :)
 
آخری تدوین:
Top