جون ایلیا جون ایلیا کی کتاب فرنود کے باب "رائگاں"سے اقتباس

اگر آپ کامیاب عشق کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک غیر عاشق اور عاقل قسم کا شخص
ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ہی ایک بہت گھٹیا اور عیار شخص بھی، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں یے "عشق" کے ساتھ "کرنا" کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے۔ عشق تو ہو جاتا ہے، کیا نہیں جاتا۔

بھائیو یہ ایک بحٖث طلب بات ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ عشق ہوتا نہیں کیا جاتا ہے اور چونکہ میں ایک شاعر ہوں اور عشق کے موضوع پر سب سے بڑی سند شاعر ہوتے ہیں اس لیے آپ کو میری بات ماننا پڑے گی، اگر عشق کے موضوع پر مجھے یعنی ایک شاعر کو سند نہیں مانا جائے گا تو کیا کسی آئی جی،ڈپٹی کمشنر اور ان سے اوپر جا کر کسی کمانڈر انچیف' وزیراعظم یا کسی صدر مملکت کے قول کو سند مانا جائے گا۔ یہ لوگ تو یکسر نا بجا طور پر وہ خوش نصیب ترین اور عام لوگ قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو نہ عشق کرتے ہیں اور جنہیں نہ عشق ہوتا ہے۔ ان سے تو، ان ظالموں اور قاتلوں سے تو عشق لڑایا جاتا ہے، ہر بدزوق،بے شعور، بد باطن اور دنیا دار حسینہ انہی لوگوں کو پٹانے کی فکر میں رہتی ہے۔

میں نے حسیں عورتوں کو عام طور پر بے ضمیر اور لالچی پایا ہے،کم از کم مجھے تو کسی با ضمیر اور بے غرض حسینہ سے ملنے کا آج تک موقع نہیں ملا۔میں نے کوِئی اور کارنامہ انجام دیا ہو یا نہ دیا ہو مگر ایک کارنامہ ضرور انجام دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے ان حسین لڑکیوں کو بری طرح ذلیل کیا ہے، اس لیے کہ مجھے ان سے میر تقی میر اور اپنے معصوم تریں بھائی حضرت عبدالعزیز خالد کا انتقام لینا تھا۔ مجھے امید ہے کہ میرا "خدا غیور" مجھَے اس کا اجر دے گا۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
ارے تو جون نثر نویس بھی تھے۔ میں تو انہیں شاعر ہی سمجھتا رہا۔

ہو سکے تو مزید اقتباسات بھی شریک محفل کریں۔
 

اوشو

لائبریرین
خوب لکھا جون نے۔ راجہ انور کی "جھوٹے روپ کے درشن" یاد آ گئی۔
شکریہ شاہ جی
 
Top