جوہر اخلاق کی پروف خوانی

جوہر اخلاق کی پروف خوانی کی پیشرفت اس دھاگے میں پیش کی جائے گی۔ اہم روابط مندرجہ ذیل ہیں۔

محفل پر متن دھاگہ - جوہرِ اخلاق

ریختہ کا لنک
Jauhar-e-Akhlaq by James Francis karkaran | Rekhta

گوگل ڈاکس ربط
جوہر اخلاق پروف اول (گوگل ڈاکس)

گوگل ڈاکس میں صفحات کے نمبر ریختہ کے صفحات کے مطابق ہیں۔ کتاب صفحہ 15 سے ریختہ 25 شروع ہو رہا ہے جہاں سے کتاب لکھی گئی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
شمشاد آپ ریختہ صفحات 66 سے 78 تک لے لیں (کتاب کے آخر تک)۔
میں نے پروف ریڈینگ مکمل کر لی ہے۔ گوگل ڈاکس پر بھی اپڈیٹ کر دیا ہے اور یہاں بھی پوسٹ کر رہا ہوں۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

صفحہ 66

آتے ہیں۔ ایک لمحے کے بعد کتے بھی نظر آئے اور ہرن بھی چوکڑی بھرتا ہوا سامنے کے میدان کو طے کر کے جنگل کی طرف چلا اور کتوں کو کہیں کا کہیں پیچھے چھوڑا، مگر جوں ہی جنگل میں گھسا اور چاہا کہ ایک جھوڑی (جھاڑی) کے اندر سے نکل جاوے کہ اس کے سینگ کانٹوں میں اُلجھ گئے اور ایسے بے طور پھنسے کے چھڑا نہ سکا۔ اس عرصے میں کتوں نے پہنچ کر اس کو شکار کیا۔ دم واپسیں ہرن یہ کہنے لگا کہ افسوس! دوستوں کو میں نے دشمن سمجھا اور دشمنوں کو دوست۔ میں اپنی شاخوں 1 پر فریفتہ ہوا تھا مگر انھیں نے مجھے بلا میں گرفتار کیا، اور اپنے پاؤں کی طرف حقات سے دیکھا کرتا تھا، سو ان کے سبب سے میں سارا میدان طے کر آیا۔ اگر انھیں پر بھروسا کرتا تو اس وقت کتنی دور نکل جاتا۔


حاصل

غریب اور عاجز ترا دوست اگر
ترے کام آئے برے وقت پر
وہ بہتر ہے اس یار سے اے پسر
جو خود کام ہے گرچہ ہو مال ور
اٹھا ایسے کی دوستی سے تو ہاتھ
مصیبت میں جو چھوڑ دے تیرا ساتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) سینگ
-------------------------------------------------------------

صفحہ 67

سینتالیسویں نقل

ایک سانپ نے کسی صورت سے لوھار کی دکان میں گھس کر ایک ریتی کو ایسا چاٹنا شروع کیا کہ اپنی زبان کو لہو لہان کر ڈالا۔ جب اس موذی نے خون کو دیکھا، یہ سمجھ کر خوش ہوا کہ میں نے ریتی کا خون پیا؛ اس تصور میں زیادہ زور سے ریتی کو چاٹنے لگا، یہاں تک کہ مارے درد کے بے تاب ہو گیا۔ تب وہ ریتی کو دانت سے کاٹنے لگا مگر اس کے سب دانت ایک ایک کر کے ٹوٹ گئے۔ آخر جب کہ قریب الہلاکت ہوا، لاچار ہو کر اس کو ریتی سے ہاتھ اٹھانا پڑا۔

حاصل

لڑائی سے پہلے تجھ کو ضرور
کہ معلوم کر اپنے دشمن کا زور
برابر ہو گر تاب و طاقت میں تو
تو لڑنے میں اس سے نہ ہٹنا کبھو
اگر اس کی سی تجھ میں طاقت نہیں
تو ہر گز نہ چھیڑ اس کو اے ہم نشیں

چوالیسویں نقل

بھیڑ اور بھیڑیوں میں ایک دفعہ لڑائی ھوئی۔ جب تک کہ
----------------------------------------------------------

صفحہ 68

کتوں نے بھیڑ کا ساتھ دیا، بھیڑیں بھیڑیوں پر غالت رہیں؛ جب کہ ان موذیوں نے یہ دیکھا انھوں نے دام فریب کو بچھا کر بے چاری سیدھی بھیڑوں کے پاس ایلچی بھیج کر صلح کی درخواست کی اور کہلا بھیجا کہ اب اس جنگ و جدال سے ہاتھ اٹھایا چاہیے اور جب تک کہ دونوں طرف سے صلح کے مراتب طے ہوں، رسم و دستور کے موافق تمھارے کتے ہمارے کنے 1 اور ہمارے بچے تمھارے یہاں اول 2 رکھے جاویں۔ اس بات کو بےچاری سادہ لوح بھیڑوں نے منظور کر کے اپنے کتے وہاں بھیج دیے اور بھیڑیوں کے بچے اپنے یہاں منگوا لیے۔ صلح نامہ ہنوز لکھا بھی نہیں گیا تھا کہ بھیڑیوں کے بچوں نے اپنے ماں باپ کی جدائی کے سبب سے چلّانا اور غل مچانا شروع کیا۔ اس بات سے آزردہ ہو کر ان کے ماں باپ نے شور کیا کہ دیکھو دیکھو بھیڑوں نے دغا کی اور ہمارے بچوں کو ستایا۔ یہ کہتے ہوے سب کے سب ان شامت زدہ بھیڑوں پر آ گرے۔ چوں کہ اس دفعہ کتے اُدھر کی طرف نہ تھے جو ان کا مقابلہ کرتے، اُن جفاکاروں نے جس جس طرح چاہا غریب لاچار بھیڑوں کو زیر کیا اور ان نادانوں نے کہ دور اندیشی کی راہ کو چھوڑ کر اپنے کو بے دست و پا کر ڈالا تھا، اپنی نادانی کی خوب ہی سزا پائی۔

حاصل

کرے صلح کا قصد موذی سے جو
وہ آفت میں ہے ڈالتا آپ کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) پاس
(2) اول۔ ضمانت۔ گروی، رہن
اول Ol. Personal hail or security, surety; pledge, pawn; hostage (Platts).
-------------------------------------------------------

صفحہ 69

نہ دے اپنا ہتیار موذی کو تو
کہ بے دست و پا ہو گا اے نیک خو
خدا نے کیا ہم سے جس کو جدا
کہاں میل ہو اس سے اے با وفا
جو باطن میں رکھتا ہو بغض و عناد
نہ کر صلح پر اس کی تو اعتماد

پینتالیسویں نقل

ایک بڑھئی نے جنگل سے یہ درخواست کی کہ مجھے فقط اتنی لکڑی عنایت ہو کہ اپنے بسولے کا دستہ بناؤں۔ جنگل نے اس درخواست کو چھوٹی سی بات اور ناچیز جان کر دستہ بنانے کے موافق لکڑی اسے دی، مگر جب درختوں نے دیکھا کہ اسی دستے کی مدد سے سارا جنگل کٹا جاتا ھے، انھوں نے کہا کہ اب اس کا علاج نہیں کیوں کہ اپنی حماقت سے ہم اس بلا میں گرفتار ہوے۔

حاصل

اگر اپنی نادانیوں سے کبھی
مصیبت میں پڑتا ہے ناداں کوئی
پشیمانیوں کا پہنتا ہے تاج
کہ اپنے کیے کا نہیں کچھ علاج
ہر اک کام میں جو کہ ہے ہوشیار
سمجھتا ہے پہلے ہی پایان کا
------------------------------------------------------------------

صفحہ 70

سمجھ لے کہ بے راہ جو جائے گا
وہ ہر کام میں ٹھوکریں کھائے گا

چھیالیسویں نقل

کسی زمانے میں جسم کے سارے عضو پیٹ سے لڑ پڑے اور ان سرکشوں کے سردار ہاتھ اور پاؤں تھے۔ وہ کہنے لگے کہ یہ بڑا ظلم ہے کہ ہم سب شب و روز پیٹ کی غلامی کیا کریں اور اسی کو کھلانے اور پلانے اور آسودہ رکھنے میں اوقات بسر کریں اور یہ نابکار کچھ بھی کام نہ کرے اور کھا پی کے نوابوں کی طرح پڑا رہے اور ہم سب ہر وقت اسی کی فرماں برداری کریں، بلکہ دعوتوں اور ضیافتوں میں اس کو لیے لیے پھریں؛ علاوہ اس کے یہ عجیب نا انصافی ہے کہ جب یہ حضرت بیمار ہوتے ھیں تو ہم سب بھی ان کے ساتھ قید میں رھتے ہیں اور اس حالت میں بھی ان کی فرمایشیں بجا لاتے ہیں اور ان کے رنج و درد کو خواہی نخواہی آپس میں بانٹ لیتے ہیں، اور ہمیشہ یہ میاں صاحب کچھ نہ کچھ گڑبڑی آپ ہی پیدا کیا کرتے ہیں۔ یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ ہاتھ پاؤں خواہ مخواہ ان کے رنج و مصیبت کے شریک ہوں۔ حاصل کلام ہاتھ پاؤں نے کہا کہ اب ہم لوگوں کو یہ تابعداری اور جاں فشانی منظور نہیں۔ آئندہ کے لیے میاں پیٹ اپنے حق میں جو مناسب جانیں وہ کریں۔ اس کے بعد منہ نے کہا کہ بے اجازت ہاتھ کی اپنی راہ سے کسی چیز کو پیٹ کی طرف گزرنے نہیں دیں گے۔ اور دانتوں نے جواب صاف دیا کہ ہمارا کام چکی کا ہے، جب

صفحہ 71

تک کے (که) هاتھ هم تک کچھ نہیں پہنچاوے گا هم اپنے کو پیس کر پیٹ کو نہیں کھلاویں گے ۔ غرض اسی طرح سب عضو نے با هم هو کر پیٹ کے جلانے کی ترکیبیں کیں ، مگر بعد چند روز کے سبھوں نے دیکھا کہ سب کے حسن اور قوت میں کچھ کچھ خلل واقع هونے لگا ۔ هاتھوں كا زور کم هوليا اور چستی اور چالاکی جاتی رہی اور پاؤں کو کھڑے هونے کی طاقت باقي نه رهی - جب سارے اعضا پر اس ناتوانی کا سبب ظاهر هوا ، تب اپنی حماقت اور

خر دماغی پر نفرین بھیج کر انھوں نے چاها که به دستور سابق اپنی اپنی خدمت میں سر گرم ہوں مگر بن نه پڑی ، اس لیے که آس وقت تک پیٹ کو بھوک اور پیاس کے سبب سے ایسا صدمة عظيم پہنچ چکا تھا که ہاتھ اور پاؤں کی مدد سے کچھ فائده نه ہوا ،

سب کا قصہ ایک بار هي فيصل ہوگیا

حاصل

نہیں اس میں اے دوست کچھ ریب و شک
ہے آبادیء ملک اس دم تلک
که هر قوم کے لوگ اے نام دار
رہیں اپنے پیشے میں سر گرم کار
مگر جب کسی مملکت میں کوئی
تکبّر سے کرتا ہے گردن کشی
وہ اس ملک میں ہے خلل ڈالتا
خبر اپنی أس کو نہیں مطلقاً
که اس کی خرابی بھی ھے اس کے ساتھ
جلا وه، دیا آگ میں جس نے ہاتھ

صفحہ 72

سینتالیسویں نقل

ایک چڑیا کسی تیار کھیت میں جا کر اپنے بچے رکھتی تھی اور جب دانا چگنے کے لیے گھونسلے سے نکل جایا کرتی ، بچوں کو کہہ جایا کرتی که جو کچھ دیکھنا سننا مجھ سے کہہ دینا ۔ ایک روز جب وہ پھر کے آئی ، بچوں نے کها کہ کھیت والا آج اس طرف آیا تھا اور کھیت کاٹنے کے لیے ٹولیے محلے والوں کو بلا گیا ہے ۔ یہ سن کر چڑیا نے کہا : ”خیر کچھ اندیشه نهیں هے۔ دوسرے روز بچوں نے اپنی ماں سے کہا کہ آج پھر وہ آن کر اپنے دوستوں کو کھیت کاٹنے کے لیے تاکید کر گیا ہے ۔ چڑیا بولی کہ اے بچو! ڈرو مت، ابھی کچھ خوف نهیں هے ۔ جب که تیسرے روز ان بچوں نے کہا امّا (اماں) جان ! کھیت والا اپنے بیٹے کو کل صبح کے وقت لے کے آوے گا اور آپ کھیت کو کاٹ کے لے جائے گا ۔ تب وہ بولی که اب اپنا بھی کچھ ٹھکانا رهنے سہنے کا کیا چاهیے کیوں که جب تلک پڑوسیوں اور دوستوں کی مدد پر کھیت کا کاٹنا موقوف تھا تب تک کچھ اندیشه نه تھا مگر جب مالک اپنا کام آپ کرنے کو مستعد هوا هے تو بے شک وہ کام ہوگا ۔

حاصل

جو چاهے که هو اپنا انجام کار
نه چهوڑے کسی اور پر زینهار
(۱) پڑوسی - دوست -

صفحہ 73

اگر چاہے لے اور سے اپنا کام
نگہباں ہو آپ اس کا اے نیک نام

اڑتالیسویں نقل

ایک شیر بہت بیمار ہوا۔ جنگل کے سب جانور اُس کی عیادت کو آئے مگرگیدڑ نہ آیا۔ شیر نے اُس کو شقہ بھیج کر اپنی بیماری کے حال سے آگاہ کیا اور اشتیاق ملاقات ظاہر کیا ۔ اس کے جواب میں گیدڑ نے عرضی کی؛ اُس عرضی میں شیر کی صحت کے لیے خدا سے دعا مانگی مگر اپنے حاضر ہونے کے باب میں کچھ عذر کیا اور کہا کہ خانزادہ 1کو اس بات سے بہت تعجب ہے کہ اکثر رعیتوں کے پاؤں کا نشان حضور کی دولت سرا کے اندر ہی جانے پر دلالت کرتا ہے مگر کسی نقشِ پا کا رخ باہر کی طرف نہیں معلوم ہوتا۔ اس لیے غلام دور ہی سے دعا کیا کرتا ہے۔

حاصل

یہ ہشیار کو چاہیے ہے ضرور
کہ اپنے کو رکھے وہ دشمن سے دور
تو رہ ایسا ہشیار اے ہم نفس!
کہ دشمن کا تجھ پر نہ ہو دست رس
نصیحت مری سن لے اے نیک خو!
کہ دشمن کے دم میں نہ انا کبھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) خانہ زاد: غلام – غلام کا بیٹا۔

صفحہ 74

انچاسویں نقل

ایک بنیلا1سور کہیں پانی میں پڑا لوٹ رہا تھا۔ ایک گھوڑے نے وہاں آ کر پانی پینے کا رادہ کیا۔ اس بات پر دونوں میں نزاع ہوئی۔ گھوڑا کسی آدمی کے پاس گیا اور سور سے بدلا لینے کے ارادے سے اُس کو اپنا شریک کیا۔ وہ شخص پانچوں ہتھیار سے درست ہو کر گھوڑے پر سوار ہوا اور سور کو مار کر گھوڑے کو بہت خوش کیا، مگر جب گھوڑے نے شکر گزاری کر کے ارادہ جنگل کا کیا، اُس مرد نے روکا اور کہا کہ بھائی شاید اگر ہمیں بھی کہیں ایسی ضرورت ہو تو ہم تمہیں کہاں ڈھونڈتے پھریں گے؟ آپ اصطبل میں رہیے اور بخوبی دانا گھاس کھائیے۔ تب گھوڑے نے معلوم کیا کہ اُس کی آزادگی گئی اور مخلصی مشکل نظر آنے لگی۔ اس نے بدلہ کیا لیا، اپنا ہی حال مبدل کر دیا۔

حاصل

بہت لوگ ایسے بھی ہیں بے شعور
کہ تھوڑی سی آفت کے کرنے کو دور
بڑی آفتیں کرتے ہیں اختیار
سمجھتے نہیں اُس کا پایان کار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)بنیلا - جنگلی؛ (baneta, banila. Pertaining to the forest; sylvan wild, sage (PlattsP.


صفحہ 75

نصيحت مری سن لے اے نیک خو
بڑی آفتوں اے بچا آپ کو
اور ایسے بھی ہیں لوگ جو پائے نام
کہ پاداش لینے کو اور انتقام
وہ سب زندگی اپنی اے مہرباں
مصیبت میں ہیں کاٹتے بے گماں
ذری خوشی کے لیے یار تو
بڑی ناخوشی میں نہ پڑنا کبھو

پچاسویں نقل

دو لڑکے کسی قصاب کی دکان میں گئے۔ ایک نے ایک ٹکڑا گوشت کا چرا کر دوسرے کے حوالے کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد قصاب نے دیکھا کہ گوشت کا ایک ٹکڑا غائب ہے۔ اُس نے دونوں کو چوری لگائی۔ جس نے چرایا تھا اس نے لاکھوں قسمیں کھائیں کہ میرے پاس نہیں ہے اور جس کے پاس گوشت تھا اس نے سوگند کھائی کہ میں نے نہیں چرایا۔ قصاب نے کہا کہ ایسی حیلہ سازیوں سے انسان کو البتہ فریب دو گے اور آدمی کی آنکھوں میں خاک ڈالو گے مگر اُس کی آنکھ تو دیکھتی ہے کہ جو اوپر بیٹھا ہوا تمہارا تماشا دیکھ رہا ہے۔

حاصل

یہ حاصل ہے اس نقل کا اے پسر
کہ بالفرض مکّاریوں سے اگر

76
نہ معلوم ہو تیرا سب مکر و زُور
خدا کو تو ہے علم اُس کا ضرور
اگر خوف عقبیٰ کا رکھتا ہے تو
نصیحت مری بھولنا مت کبھو
نہ وہ کام کر خلق میں زینہار
کہ ہو جس میں خالق سے تو شرم سار

قطعہ

شکر اللہ کا ہو چكا مطبوع
نسخۂ نغز جوہرِ اخلاق
چاہیے اس کو نیز تیشۂ فکر
کہ یہ ہے کانِ گوہرِ اخلاق
سمجھے وہ اس کو جس کے ہاتھ میں ہو
تیغِ تسخیرِ کشورِ اخلاق
ہم نے کھولا ھے عاقلوں کے لیے
در گنجینۂ زرِ اخلاق
جس کو تہذیبِ نفس ہے درکار
ہے وہ جو یائے زیورِ اخلاق

جس


77
مئے معنی سے ہو گا وہ سر خوش
جو پیے گا یہ ساغر اخلاق
ہم نے دکھلایا آنکھ والوں کو
جلوہ مہرِ انورِ اخلاق
ہو مفید جہانیاں یہ کتاب
رہے جب تک کہ دفترِ اخلاق

جوہر اخلاق

یونی اسپ کی نقلیات کا ترجمہ اردو زبان میں دلی اور لکھنو کے خاص لوگوں کے محاورےمیں جس کو احقر العباد جیمز فرانسس کارکرن نے ترجمہ کرکے اور شاہ الفت حسین موسوی کی نظر سے گذران کے جناب مستطاب ، سخن پرور ، عدل گستر، حاکم عدالت دیوانی صدر کلکتہ ، رابرٹ ہالڈن راٹری بہادرمدام دولتہ کی خدمت میں نذر دینے کو مدرسہ عالیہ میں سنہ 1845ء میں چھپوایا :

حق سے امید ہے کہ تا دم صور
قدر دان سخن رہیں مسرور
کہ یہ ہیں آبیارِ باغ سخن
ان سے ہے نو بہار باغ سخن

78

ہیں بھرے وصف نیک خوئی سے
پاک ہیں عیب عیب جوئی سے
لاکھ عیبوں کو جی سے دھوتے ہیں
اک ہنر پا کے شاد ہوتے ہیں
اس جہاں کو قیام ہو جب تک
رہیں قائم جہاں میں یہ تب تک
 
میں نے پروف ریڈینگ مکمل کر لی ہے۔ گوگل ڈاکس پر بھی اپڈیٹ کر دیا ہے اور یہاں بھی پوسٹ کر رہا ہوں۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

صفحہ 66

آتے ہیں۔ ایک لمحے کے بعد کتے بھی نظر آئے اور ہرن بھی چوکڑی بھرتا ہوا سامنے کے میدان کو طے کر کے جنگل کی طرف چلا اور کتوں کو کہیں کا کہیں پیچھے چھوڑا، مگر جوں ہی جنگل میں گھسا اور چاہا کہ ایک جھوڑی (جھاڑی) کے اندر سے نکل جاوے کہ اس کے سینگ کانٹوں میں اُلجھ گئے اور ایسے بے طور پھنسے کے چھڑا نہ سکا۔ اس عرصے میں کتوں نے پہنچ کر اس کو شکار کیا۔ دم واپسیں ہرن یہ کہنے لگا کہ افسوس! دوستوں کو میں نے دشمن سمجھا اور دشمنوں کو دوست۔ میں اپنی شاخوں 1 پر فریفتہ ہوا تھا مگر انھیں نے مجھے بلا میں گرفتار کیا، اور اپنے پاؤں کی طرف حقات سے دیکھا کرتا تھا، سو ان کے سبب سے میں سارا میدان طے کر آیا۔ اگر انھیں پر بھروسا کرتا تو اس وقت کتنی دور نکل جاتا۔


حاصل

غریب اور عاجز ترا دوست اگر
ترے کام آئے برے وقت پر
وہ بہتر ہے اس یار سے اے پسر
جو خود کام ہے گرچہ ہو مال ور
اٹھا ایسے کی دوستی سے تو ہاتھ
مصیبت میں جو چھوڑ دے تیرا ساتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) سینگ
-------------------------------------------------------------

صفحہ 67

سینتالیسویں نقل

ایک سانپ نے کسی صورت سے لوھار کی دکان میں گھس کر ایک ریتی کو ایسا چاٹنا شروع کیا کہ اپنی زبان کو لہو لہان کر ڈالا۔ جب اس موذی نے خون کو دیکھا، یہ سمجھ کر خوش ہوا کہ میں نے ریتی کا خون پیا؛ اس تصور میں زیادہ زور سے ریتی کو چاٹنے لگا، یہاں تک کہ مارے درد کے بے تاب ہو گیا۔ تب وہ ریتی کو دانت سے کاٹنے لگا مگر اس کے سب دانت ایک ایک کر کے ٹوٹ گئے۔ آخر جب کہ قریب الہلاکت ہوا، لاچار ہو کر اس کو ریتی سے ہاتھ اٹھانا پڑا۔

حاصل

لڑائی سے پہلے تجھ کو ضرور
کہ معلوم کر اپنے دشمن کا زور
برابر ہو گر تاب و طاقت میں تو
تو لڑنے میں اس سے نہ ہٹنا کبھو
اگر اس کی سی تجھ میں طاقت نہیں
تو ہر گز نہ چھیڑ اس کو اے ہم نشیں

چوالیسویں نقل

بھیڑ اور بھیڑیوں میں ایک دفعہ لڑائی ھوئی۔ جب تک کہ
----------------------------------------------------------

صفحہ 68

کتوں نے بھیڑ کا ساتھ دیا، بھیڑیں بھیڑیوں پر غالت رہیں؛ جب کہ ان موذیوں نے یہ دیکھا انھوں نے دام فریب کو بچھا کر بے چاری سیدھی بھیڑوں کے پاس ایلچی بھیج کر صلح کی درخواست کی اور کہلا بھیجا کہ اب اس جنگ و جدال سے ہاتھ اٹھایا چاہیے اور جب تک کہ دونوں طرف سے صلح کے مراتب طے ہوں، رسم و دستور کے موافق تمھارے کتے ہمارے کنے 1 اور ہمارے بچے تمھارے یہاں اول 2 رکھے جاویں۔ اس بات کو بےچاری سادہ لوح بھیڑوں نے منظور کر کے اپنے کتے وہاں بھیج دیے اور بھیڑیوں کے بچے اپنے یہاں منگوا لیے۔ صلح نامہ ہنوز لکھا بھی نہیں گیا تھا کہ بھیڑیوں کے بچوں نے اپنے ماں باپ کی جدائی کے سبب سے چلّانا اور غل مچانا شروع کیا۔ اس بات سے آزردہ ہو کر ان کے ماں باپ نے شور کیا کہ دیکھو دیکھو بھیڑوں نے دغا کی اور ہمارے بچوں کو ستایا۔ یہ کہتے ہوے سب کے سب ان شامت زدہ بھیڑوں پر آ گرے۔ چوں کہ اس دفعہ کتے اُدھر کی طرف نہ تھے جو ان کا مقابلہ کرتے، اُن جفاکاروں نے جس جس طرح چاہا غریب لاچار بھیڑوں کو زیر کیا اور ان نادانوں نے کہ دور اندیشی کی راہ کو چھوڑ کر اپنے کو بے دست و پا کر ڈالا تھا، اپنی نادانی کی خوب ہی سزا پائی۔

حاصل

کرے صلح کا قصد موذی سے جو
وہ آفت میں ہے ڈالتا آپ کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) پاس
(2) اول۔ ضمانت۔ گروی، رہن
اول Ol. Personal hail or security, surety; pledge, pawn; hostage (Platts).
-------------------------------------------------------

صفحہ 69

نہ دے اپنا ہتیار موذی کو تو
کہ بے دست و پا ہو گا اے نیک خو
خدا نے کیا ہم سے جس کو جدا
کہاں میل ہو اس سے اے با وفا
جو باطن میں رکھتا ہو بغض و عناد
نہ کر صلح پر اس کی تو اعتماد

پینتالیسویں نقل

ایک بڑھئی نے جنگل سے یہ درخواست کی کہ مجھے فقط اتنی لکڑی عنایت ہو کہ اپنے بسولے کا دستہ بناؤں۔ جنگل نے اس درخواست کو چھوٹی سی بات اور ناچیز جان کر دستہ بنانے کے موافق لکڑی اسے دی، مگر جب درختوں نے دیکھا کہ اسی دستے کی مدد سے سارا جنگل کٹا جاتا ھے، انھوں نے کہا کہ اب اس کا علاج نہیں کیوں کہ اپنی حماقت سے ہم اس بلا میں گرفتار ہوے۔

حاصل

اگر اپنی نادانیوں سے کبھی
مصیبت میں پڑتا ہے ناداں کوئی
پشیمانیوں کا پہنتا ہے تاج
کہ اپنے کیے کا نہیں کچھ علاج
ہر اک کام میں جو کہ ہے ہوشیار
سمجھتا ہے پہلے ہی پایان کا
------------------------------------------------------------------

صفحہ 70

سمجھ لے کہ بے راہ جو جائے گا
وہ ہر کام میں ٹھوکریں کھائے گا

چھیالیسویں نقل

کسی زمانے میں جسم کے سارے عضو پیٹ سے لڑ پڑے اور ان سرکشوں کے سردار ہاتھ اور پاؤں تھے۔ وہ کہنے لگے کہ یہ بڑا ظلم ہے کہ ہم سب شب و روز پیٹ کی غلامی کیا کریں اور اسی کو کھلانے اور پلانے اور آسودہ رکھنے میں اوقات بسر کریں اور یہ نابکار کچھ بھی کام نہ کرے اور کھا پی کے نوابوں کی طرح پڑا رہے اور ہم سب ہر وقت اسی کی فرماں برداری کریں، بلکہ دعوتوں اور ضیافتوں میں اس کو لیے لیے پھریں؛ علاوہ اس کے یہ عجیب نا انصافی ہے کہ جب یہ حضرت بیمار ہوتے ھیں تو ہم سب بھی ان کے ساتھ قید میں رھتے ہیں اور اس حالت میں بھی ان کی فرمایشیں بجا لاتے ہیں اور ان کے رنج و درد کو خواہی نخواہی آپس میں بانٹ لیتے ہیں، اور ہمیشہ یہ میاں صاحب کچھ نہ کچھ گڑبڑی آپ ہی پیدا کیا کرتے ہیں۔ یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ ہاتھ پاؤں خواہ مخواہ ان کے رنج و مصیبت کے شریک ہوں۔ حاصل کلام ہاتھ پاؤں نے کہا کہ اب ہم لوگوں کو یہ تابعداری اور جاں فشانی منظور نہیں۔ آئندہ کے لیے میاں پیٹ اپنے حق میں جو مناسب جانیں وہ کریں۔ اس کے بعد منہ نے کہا کہ بے اجازت ہاتھ کی اپنی راہ سے کسی چیز کو پیٹ کی طرف گزرنے نہیں دیں گے۔ اور دانتوں نے جواب صاف دیا کہ ہمارا کام چکی کا ہے، جب

صفحہ 71

تک کے (که) هاتھ هم تک کچھ نہیں پہنچاوے گا هم اپنے کو پیس کر پیٹ کو نہیں کھلاویں گے ۔ غرض اسی طرح سب عضو نے با هم هو کر پیٹ کے جلانے کی ترکیبیں کیں ، مگر بعد چند روز کے سبھوں نے دیکھا کہ سب کے حسن اور قوت میں کچھ کچھ خلل واقع هونے لگا ۔ هاتھوں كا زور کم هوليا اور چستی اور چالاکی جاتی رہی اور پاؤں کو کھڑے هونے کی طاقت باقي نه رهی - جب سارے اعضا پر اس ناتوانی کا سبب ظاهر هوا ، تب اپنی حماقت اور

خر دماغی پر نفرین بھیج کر انھوں نے چاها که به دستور سابق اپنی اپنی خدمت میں سر گرم ہوں مگر بن نه پڑی ، اس لیے که آس وقت تک پیٹ کو بھوک اور پیاس کے سبب سے ایسا صدمة عظيم پہنچ چکا تھا که ہاتھ اور پاؤں کی مدد سے کچھ فائده نه ہوا ،

سب کا قصہ ایک بار هي فيصل ہوگیا

حاصل

نہیں اس میں اے دوست کچھ ریب و شک
ہے آبادیء ملک اس دم تلک
که هر قوم کے لوگ اے نام دار
رہیں اپنے پیشے میں سر گرم کار
مگر جب کسی مملکت میں کوئی
تکبّر سے کرتا ہے گردن کشی
وہ اس ملک میں ہے خلل ڈالتا
خبر اپنی أس کو نہیں مطلقاً
که اس کی خرابی بھی ھے اس کے ساتھ
جلا وه، دیا آگ میں جس نے ہاتھ

صفحہ 72

سینتالیسویں نقل

ایک چڑیا کسی تیار کھیت میں جا کر اپنے بچے رکھتی تھی اور جب دانا چگنے کے لیے گھونسلے سے نکل جایا کرتی ، بچوں کو کہہ جایا کرتی که جو کچھ دیکھنا سننا مجھ سے کہہ دینا ۔ ایک روز جب وہ پھر کے آئی ، بچوں نے کها کہ کھیت والا آج اس طرف آیا تھا اور کھیت کاٹنے کے لیے ٹولیے محلے والوں کو بلا گیا ہے ۔ یہ سن کر چڑیا نے کہا : ”خیر کچھ اندیشه نهیں هے۔ دوسرے روز بچوں نے اپنی ماں سے کہا کہ آج پھر وہ آن کر اپنے دوستوں کو کھیت کاٹنے کے لیے تاکید کر گیا ہے ۔ چڑیا بولی کہ اے بچو! ڈرو مت، ابھی کچھ خوف نهیں هے ۔ جب که تیسرے روز ان بچوں نے کہا امّا (اماں) جان ! کھیت والا اپنے بیٹے کو کل صبح کے وقت لے کے آوے گا اور آپ کھیت کو کاٹ کے لے جائے گا ۔ تب وہ بولی که اب اپنا بھی کچھ ٹھکانا رهنے سہنے کا کیا چاهیے کیوں که جب تلک پڑوسیوں اور دوستوں کی مدد پر کھیت کا کاٹنا موقوف تھا تب تک کچھ اندیشه نه تھا مگر جب مالک اپنا کام آپ کرنے کو مستعد هوا هے تو بے شک وہ کام ہوگا ۔

حاصل

جو چاهے که هو اپنا انجام کار
نه چهوڑے کسی اور پر زینهار
(۱) پڑوسی - دوست -

صفحہ 73

اگر چاہے لے اور سے اپنا کام
نگہباں ہو آپ اس کا اے نیک نام

اڑتالیسویں نقل

ایک شیر بہت بیمار ہوا۔ جنگل کے سب جانور اُس کی عیادت کو آئے مگرگیدڑ نہ آیا۔ شیر نے اُس کو شقہ بھیج کر اپنی بیماری کے حال سے آگاہ کیا اور اشتیاق ملاقات ظاہر کیا ۔ اس کے جواب میں گیدڑ نے عرضی کی؛ اُس عرضی میں شیر کی صحت کے لیے خدا سے دعا مانگی مگر اپنے حاضر ہونے کے باب میں کچھ عذر کیا اور کہا کہ خانزادہ 1کو اس بات سے بہت تعجب ہے کہ اکثر رعیتوں کے پاؤں کا نشان حضور کی دولت سرا کے اندر ہی جانے پر دلالت کرتا ہے مگر کسی نقشِ پا کا رخ باہر کی طرف نہیں معلوم ہوتا۔ اس لیے غلام دور ہی سے دعا کیا کرتا ہے۔

حاصل

یہ ہشیار کو چاہیے ہے ضرور
کہ اپنے کو رکھے وہ دشمن سے دور
تو رہ ایسا ہشیار اے ہم نفس!
کہ دشمن کا تجھ پر نہ ہو دست رس
نصیحت مری سن لے اے نیک خو!
کہ دشمن کے دم میں نہ انا کبھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) خانہ زاد: غلام – غلام کا بیٹا۔

صفحہ 74

انچاسویں نقل

ایک بنیلا1سور کہیں پانی میں پڑا لوٹ رہا تھا۔ ایک گھوڑے نے وہاں آ کر پانی پینے کا رادہ کیا۔ اس بات پر دونوں میں نزاع ہوئی۔ گھوڑا کسی آدمی کے پاس گیا اور سور سے بدلا لینے کے ارادے سے اُس کو اپنا شریک کیا۔ وہ شخص پانچوں ہتھیار سے درست ہو کر گھوڑے پر سوار ہوا اور سور کو مار کر گھوڑے کو بہت خوش کیا، مگر جب گھوڑے نے شکر گزاری کر کے ارادہ جنگل کا کیا، اُس مرد نے روکا اور کہا کہ بھائی شاید اگر ہمیں بھی کہیں ایسی ضرورت ہو تو ہم تمہیں کہاں ڈھونڈتے پھریں گے؟ آپ اصطبل میں رہیے اور بخوبی دانا گھاس کھائیے۔ تب گھوڑے نے معلوم کیا کہ اُس کی آزادگی گئی اور مخلصی مشکل نظر آنے لگی۔ اس نے بدلہ کیا لیا، اپنا ہی حال مبدل کر دیا۔

حاصل

بہت لوگ ایسے بھی ہیں بے شعور
کہ تھوڑی سی آفت کے کرنے کو دور
بڑی آفتیں کرتے ہیں اختیار
سمجھتے نہیں اُس کا پایان کار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)بنیلا - جنگلی؛ (baneta, banila. Pertaining to the forest; sylvan wild, sage (PlattsP.


صفحہ 75

نصيحت مری سن لے اے نیک خو
بڑی آفتوں اے بچا آپ کو
اور ایسے بھی ہیں لوگ جو پائے نام
کہ پاداش لینے کو اور انتقام
وہ سب زندگی اپنی اے مہرباں
مصیبت میں ہیں کاٹتے بے گماں
ذری خوشی کے لیے یار تو
بڑی ناخوشی میں نہ پڑنا کبھو

پچاسویں نقل

دو لڑکے کسی قصاب کی دکان میں گئے۔ ایک نے ایک ٹکڑا گوشت کا چرا کر دوسرے کے حوالے کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد قصاب نے دیکھا کہ گوشت کا ایک ٹکڑا غائب ہے۔ اُس نے دونوں کو چوری لگائی۔ جس نے چرایا تھا اس نے لاکھوں قسمیں کھائیں کہ میرے پاس نہیں ہے اور جس کے پاس گوشت تھا اس نے سوگند کھائی کہ میں نے نہیں چرایا۔ قصاب نے کہا کہ ایسی حیلہ سازیوں سے انسان کو البتہ فریب دو گے اور آدمی کی آنکھوں میں خاک ڈالو گے مگر اُس کی آنکھ تو دیکھتی ہے کہ جو اوپر بیٹھا ہوا تمہارا تماشا دیکھ رہا ہے۔

حاصل

یہ حاصل ہے اس نقل کا اے پسر
کہ بالفرض مکّاریوں سے اگر

76
نہ معلوم ہو تیرا سب مکر و زُور
خدا کو تو ہے علم اُس کا ضرور
اگر خوف عقبیٰ کا رکھتا ہے تو
نصیحت مری بھولنا مت کبھو
نہ وہ کام کر خلق میں زینہار
کہ ہو جس میں خالق سے تو شرم سار

قطعہ

شکر اللہ کا ہو چكا مطبوع
نسخۂ نغز جوہرِ اخلاق
چاہیے اس کو نیز تیشۂ فکر
کہ یہ ہے کانِ گوہرِ اخلاق
سمجھے وہ اس کو جس کے ہاتھ میں ہو
تیغِ تسخیرِ کشورِ اخلاق
ہم نے کھولا ھے عاقلوں کے لیے
در گنجینۂ زرِ اخلاق
جس کو تہذیبِ نفس ہے درکار
ہے وہ جو یائے زیورِ اخلاق

جس


77
مئے معنی سے ہو گا وہ سر خوش
جو پیے گا یہ ساغر اخلاق
ہم نے دکھلایا آنکھ والوں کو
جلوہ مہرِ انورِ اخلاق
ہو مفید جہانیاں یہ کتاب
رہے جب تک کہ دفترِ اخلاق

جوہر اخلاق

یونی اسپ کی نقلیات کا ترجمہ اردو زبان میں دلی اور لکھنو کے خاص لوگوں کے محاورےمیں جس کو احقر العباد جیمز فرانسس کارکرن نے ترجمہ کرکے اور شاہ الفت حسین موسوی کی نظر سے گذران کے جناب مستطاب ، سخن پرور ، عدل گستر، حاکم عدالت دیوانی صدر کلکتہ ، رابرٹ ہالڈن راٹری بہادرمدام دولتہ کی خدمت میں نذر دینے کو مدرسہ عالیہ میں سنہ 1845ء میں چھپوایا :

حق سے امید ہے کہ تا دم صور
قدر دان سخن رہیں مسرور
کہ یہ ہیں آبیارِ باغ سخن
ان سے ہے نو بہار باغ سخن

78

ہیں بھرے وصف نیک خوئی سے
پاک ہیں عیب عیب جوئی سے
لاکھ عیبوں کو جی سے دھوتے ہیں
اک ہنر پا کے شاد ہوتے ہیں
اس جہاں کو قیام ہو جب تک
رہیں قائم جہاں میں یہ تب تک
شمشاد، گوگل ڈاکس پر اپڈیٹ کافی ہے کیونکہ وہیں سے اگلا مرحلہ شروع ہو گا۔ گفتگو کے دھاگوں میں کام کی پیشرفت پر ہی نظر رکھتے ہیں تاکہ آسانی رہے۔
 
پروف صفحات کی تقسیم

قرۃالعین اعوان ۔۔۔۔۔۔ ریختہ صفحات ۔۔۔۔۔۔ 25-40 مکمل
سید عاطف علی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریختہ صفحات ۔۔۔۔۔۔۔ 41 -55
سیما علی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریختہ صفحات ۔۔۔۔۔۔۔ 56-65
شمشاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریختہ صفحات ۔۔۔۔۔۔۔ 66-78 مکمل
بہترین قرۃالعین اعوان ۔ بہت پھرتی سے پروف خوانی کی ہے۔
 
Top