حفیظ تائب جو اسمِ ذات ہویدا ہوا سرِ قرطاس

الف نظامی

لائبریرین
جو اسمِ ذات ہویدا ہوا سرِ قرطاس
ہوا خیال منور، مہک گیا احساس

اُسی کے فکر میں گم سم ہے کائناتِ وجود

اُسی کے ذکر کی صورت ہے نغمۂ انفاس

اُسی کے اذن سے ہے کاروانِ زیست رواں
اُسی کے حکم پہ غیب و شہود کی ہے اساس

اگر ہیں نعمتیں اُس کی شمار سے باہر
تو حکمتیں بھی ہیں اس کی ورائے عقل و قیاس

ہے ارتباطِ عناصر اُسی کی قدرت سے
اُسی کے لطف سے قائم ہے اعتدالِ حواس

کیے خلا میں معلق ثوابت و سیار
بغیرِ چوب کیا خیمۂ فلک کو راس

بسا ہوا وہ رگ و پے میں کائنات کے ہے
کچھ اِس طرح سے گلوں میں نہاں ہو جیسےباس

ہر ایک مومن و منکر کا ہےوہ رزق رساں
ہر ایک بیکس و درماندہ کا ہے قدر شناس

بڑھائی اُس نے زن و آدمی کی یوں توقیر
انہیں بنایا گیا ایک دوسرے کا لباس

مجھے شریک کرے کاش ایسےبندوں میں
جنہیں نہ خوف و خطر ہے کوئی نہ رنج و ہراس

اٹھا کے ہاتھ اُسی کو پکارتا ہوں میں
مقام جس کا ہے میری رگِ حیات کے پاس

کیا یہ خاص کرم اس نے نوعِ انساں پر
بنا دیا جو حبیب اپنا غمگسارِ اناس

حبیب وہ جو بنا کائنات کا نوشاہ
رسول وہ جو ہوا اس کی شان کا عکاس

حبیب وہ جو محمد بھی ہے تو احمد بھی
سکھا گیا جو خدائی کو حمد و شکر و سپاس

نبی وہ جس کے لیے محملِ زمانہ رکا
نبی وہ جس نے کیا لامکان میں اجلاس

کتاب اُس پہ اتاری تو وہ کتابِ مبیں
جو نورِ رُشد و ہدایت ہے، قاطعِ وسواس

اُسی نے مدحِ رسالت مآب کی خاطر
دیا گداز لب و لہجہ کو ، زباں کو مٹھاس

کرم ہو شاملِ حال اُس کا تو ہےاک نعمت
وگرنہ کربِ مسلسل ، طبیعتِ حساس

کوئی قریب سے کہتا ہے میں ہوں تیرے ساتھ
ہجومِ غم میں کسی وقت بھی جو دل ہو اُداس

تسلیاں مجھے ہر آن کوئی دیتا ہے
نہ کر سکیں گے ہراساں مجھے کبھی غم و یاس

عجیب ذکر الہی میں ہے اثر تائب
مٹائے زیست کی تلخی ، بجھائے روح کی پیاس
(حفیظ تائب رحمۃ اللہ علیہ)
 
Top