غزل قاضی
محفلین
جو بلند بام ِ حروف سے ، جو پرے ہے دشت ِ خیال سے
وہ کبھی کبھی مجھے جھانکتا ہے غزل کے شہر ِ جمال سے
میں کروں جو سجدہ تو کس طرف کہ مرا وہ قبلہء دید تو
کبھی شرق و غرب سے جلوہ گر ہے ،کبھی جنوب و شمال سے
ابھی رات باقی ہے قصہ خواں ، وہی قصہ پھر سے بیان کر
جو رقم ہوا تھا کرن کرن ، کسی چاند رخ کے وصال سے
میں جہاں بھی تھا ترے حسن کے کسی زاویے کا اسیر تھا
میں تو ایک پل بھی نکل سکا نہ کبھی محیط ِ جمال سے
کبھی خود کو تجھ میں سمو کے میں لکھوں چاہتوں کے مکالمے
کبھی نام اپنا نکال لوں ترے نام کی کسی فال سے
جو ترے خیال کو جاوداں ، جو مرے سُخن کو اَمر کرے
وہی ایک لمحہ تراش لوں ترے ہجر کے مہ و سال سے
مری عمر ساری گزر گئی ہے رشید جس کے طواف میں
بھرے شہر میں وہی ایک شخص ہے بےخبر مرے حال سے
(رشید قیصرانی)