نصیر الدین نصیر جو دور ہو تم تو لمحہ لمحہ عضب میں ہے اضطراب میں ہے

جو دور ہو تم تو لمحہ لمحہ ' غضب میں ہے اضطراب میں ہے
ابھی مقدر میں گردشیں ہیں' ابھی ستارا عذاب میں ہے

لڑکپن اب ہو چکا ہے رُخصت ' کوئی جہانِ شباب میں ہے
تجلیاں ہیں کہ بے مَحابا ' ہزار چہرہ نقاب میں ہے

نہیں ہے تیری مثال ساقی ' یہ دیکھا تجھ میں کمال ساقی
عجیب کیف و سرور مستی ' تری نظر کی شراب میں ہے

نظر کو ہے وہ مقام حاصل کہ ہر جگہ ہے جمالِ کامل
نہ اُن کا جلوہ نقاب میں تھا ' نہ اُن کا جلوہ نقاب میں ہے

فریب خوردہ سہی نگاہیں ' کھُلی ہیں اِن پر خِرد کی راہیں
خراب حالی کا دَور دَورہ جو تھا جہانِ خراب میں ہے

اُس انجمن کی فضا میں رہ کر ' سُکون کیوں کر رہے میسر
ابھی تو وہ آزما رہا ہے ' ابھی تو یہ دل عتاب میں ہے

بہیں جو اشکِ فراق و حسرت ' تڑپ کے رہ جائے ساری خلقت
غضب کا طوفانِ دَرد پنہاں ' ہماری چشمِ پُرآب میں ہے

تری وہ پہلی نظر کا چرچا ' تعلّق اُس سے ہے عمر بھر کا
بڑے مزے کی خلش ہے دل میں ' بڑا مزا اضطراب میں ہے

وفا کی راہوں سے ہٹ گئے وہ ' جفا کی جانب ' پلٹ گئے وہ
نصیر اب کس شُمار میں ہے ' نصیر اب کس حساب میں ہے

 
جو دور ہو تم تو لمحہ لمحہ ' غضب میں ہے اضطراب میں ہے
ابھی مقدر میں گردشیں ہیں' ابھی ستارا عذاب میں ہے

لڑکپن اب ہو چکا ہے رُخصت ' کوئی جہانِ شباب میں ہے
تجلیاں ہیں کہ بے مَحابا ' ہزار چہرہ نقاب میں ہے

نہیں ہے تیری مثال ساقی ' یہ دیکھا تجھ میں کمال ساقی
عجیب کیف و سرور مستی ' تری نظر کی شراب میں ہے

نظر کو ہے وہ مقام حاصل کہ ہر جگہ ہے جمالِ کامل
نہ اُن کا جلوہ نقاب میں تھا ' نہ اُن کا جلوہ نقاب میں ہے

فریب خوردہ سہی نگاہیں ' کھُلی ہیں اِن پر خِرد کی راہیں
خراب حالی کا دَور دَورہ جو تھا جہانِ خراب میں ہے

اُس انجمن کی فضا میں رہ کر ' سُکون کیوں کر رہے میسر
ابھی تو وہ آزما رہا ہے ' ابھی تو یہ دل عتاب میں ہے

بہیں جو اشکِ فراق و حسرت ' تڑپ کے رہ جائے ساری خلقت
غضب کا طوفانِ دَرد پنہاں ' ہماری چشمِ پُرآب میں ہے

تری وہ پہلی نظر کا چرچا ' تعلّق اُس سے ہے عمر بھر کا
بڑے مزے کی خلش ہے دل میں ' بڑا مزا اضطراب میں ہے

وفا کی راہوں سے ہٹ گئے وہ ' جفا کی جانب ' پلٹ گئے وہ
نصیر اب کس شُمار میں ہے ' نصیر اب کس حساب میں ہے​
یہ پہلے پوسٹ ہو چکی ہے
جو دُور ہو تم تو لمحہ لمحہ ، غضب میں ہے اضطراب میں ہے
 

رحیض طاہر

محفلین
جو دور ہو تم تو لمحہ لمحہ ' غضب میں ہے اضطراب میں ہے
ابھی مقدر میں گردشیں ہیں' ابھی ستارا عذاب میں ہے

لڑکپن اب ہو چکا ہے رُخصت ' کوئی جہانِ شباب میں ہے
تجلیاں ہیں کہ بے مَحابا ' ہزار چہرہ نقاب میں ہے

نہیں ہے تیری مثال ساقی ' یہ دیکھا تجھ میں کمال ساقی
عجیب کیف و سرور مستی ' تری نظر کی شراب میں ہے

نظر کو ہے وہ مقام حاصل کہ ہر جگہ ہے جمالِ کامل
نہ اُن کا جلوہ نقاب میں تھا ' نہ اُن کا جلوہ نقاب میں ہے

فریب خوردہ سہی نگاہیں ' کھُلی ہیں اِن پر خِرد کی راہیں
خراب حالی کا دَور دَورہ جو تھا جہانِ خراب میں ہے

اُس انجمن کی فضا میں رہ کر ' سُکون کیوں کر رہے میسر
ابھی تو وہ آزما رہا ہے ' ابھی تو یہ دل عتاب میں ہے

بہیں جو اشکِ فراق و حسرت ' تڑپ کے رہ جائے ساری خلقت
غضب کا طوفانِ دَرد پنہاں ' ہماری چشمِ پُرآب میں ہے

تری وہ پہلی نظر کا چرچا ' تعلّق اُس سے ہے عمر بھر کا
بڑے مزے کی خلش ہے دل میں ' بڑا مزا اضطراب میں ہے

وفا کی راہوں سے ہٹ گئے وہ ' جفا کی جانب ' پلٹ گئے وہ
نصیر اب کس شُمار میں ہے ' نصیر اب کس حساب میں ہے

لاجواب ہے جی
 
Top