سردار محمد نعیم
محفلین
جو دور ہو تم تو لمحہ لمحہ ' غضب میں ہے اضطراب میں ہے
ابھی مقدر میں گردشیں ہیں' ابھی ستارا عذاب میں ہے
لڑکپن اب ہو چکا ہے رُخصت ' کوئی جہانِ شباب میں ہے
تجلیاں ہیں کہ بے مَحابا ' ہزار چہرہ نقاب میں ہے
نہیں ہے تیری مثال ساقی ' یہ دیکھا تجھ میں کمال ساقی
عجیب کیف و سرور مستی ' تری نظر کی شراب میں ہے
نظر کو ہے وہ مقام حاصل کہ ہر جگہ ہے جمالِ کامل
نہ اُن کا جلوہ نقاب میں تھا ' نہ اُن کا جلوہ نقاب میں ہے
فریب خوردہ سہی نگاہیں ' کھُلی ہیں اِن پر خِرد کی راہیں
خراب حالی کا دَور دَورہ جو تھا جہانِ خراب میں ہے
اُس انجمن کی فضا میں رہ کر ' سُکون کیوں کر رہے میسر
ابھی تو وہ آزما رہا ہے ' ابھی تو یہ دل عتاب میں ہے
بہیں جو اشکِ فراق و حسرت ' تڑپ کے رہ جائے ساری خلقت
غضب کا طوفانِ دَرد پنہاں ' ہماری چشمِ پُرآب میں ہے
تری وہ پہلی نظر کا چرچا ' تعلّق اُس سے ہے عمر بھر کا
بڑے مزے کی خلش ہے دل میں ' بڑا مزا اضطراب میں ہے
وفا کی راہوں سے ہٹ گئے وہ ' جفا کی جانب ' پلٹ گئے وہ
نصیر اب کس شُمار میں ہے ' نصیر اب کس حساب میں ہے
ابھی مقدر میں گردشیں ہیں' ابھی ستارا عذاب میں ہے
لڑکپن اب ہو چکا ہے رُخصت ' کوئی جہانِ شباب میں ہے
تجلیاں ہیں کہ بے مَحابا ' ہزار چہرہ نقاب میں ہے
نہیں ہے تیری مثال ساقی ' یہ دیکھا تجھ میں کمال ساقی
عجیب کیف و سرور مستی ' تری نظر کی شراب میں ہے
نظر کو ہے وہ مقام حاصل کہ ہر جگہ ہے جمالِ کامل
نہ اُن کا جلوہ نقاب میں تھا ' نہ اُن کا جلوہ نقاب میں ہے
فریب خوردہ سہی نگاہیں ' کھُلی ہیں اِن پر خِرد کی راہیں
خراب حالی کا دَور دَورہ جو تھا جہانِ خراب میں ہے
اُس انجمن کی فضا میں رہ کر ' سُکون کیوں کر رہے میسر
ابھی تو وہ آزما رہا ہے ' ابھی تو یہ دل عتاب میں ہے
بہیں جو اشکِ فراق و حسرت ' تڑپ کے رہ جائے ساری خلقت
غضب کا طوفانِ دَرد پنہاں ' ہماری چشمِ پُرآب میں ہے
تری وہ پہلی نظر کا چرچا ' تعلّق اُس سے ہے عمر بھر کا
بڑے مزے کی خلش ہے دل میں ' بڑا مزا اضطراب میں ہے
وفا کی راہوں سے ہٹ گئے وہ ' جفا کی جانب ' پلٹ گئے وہ
نصیر اب کس شُمار میں ہے ' نصیر اب کس حساب میں ہے