لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے بننے ہوئے سمر سیٹ ہاؤس میں ان دونوں اسلامی فن پاروں کی نمائش لگی ہوئی ہے۔ یہ فن پارے یا تو اللہ کی بندگی کے اظہار کے لئے تخلیق کئے گئے تھے یا پھر ظل الہی یا خدا کا سایہ کہلوانے والے بادشاہوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے۔
نمائش کا نام ’ہیون آن ارتھ: آرٹ فرام اسلامک لینڈز‘ ہے جس کے معنی ہیں: جنت ارضی: اسلامی دنیا کا فن۔ یہاں رکھی ہوئی نوادرات کا تعلق دا سٹیٹ ہرمیٹیج میوزیم، سینٹ پیٹرز برگ اور خلیلی کلکشن لندن سے ہے۔ یہ نمائش بائیس اگست تک جاری رہے گی۔
یہاں تقریباً ایک سو تینتیس فن پارے رکھے گئے ہیں جن میں غلاف کعبہ کی اوپری پٹی، خط کوفی میں قرآن کے قدیم نسخے کا ایک ورق، دکن میں سونے کے پانی سے سجایا گیا قرآن، اسلامی ملکوں میں بنائے گئے خوبصورت برتن، دھات کی بنی پرانی اشیاء، ملبوسات اور تصویریں شامل ہیں۔
ان اشیاء کا زمانہ آٹھویں سے انیسویں صدی تک بارہ سو سال پر پھیلا ہوا ہے اور کسی نہ کسی اعتبار سے یہ مسلمانوں کا ورثہ ہیں۔
نمائش کی منتظم عائشہ جنگ نے بتایا کہ نمائش کو دیکھنے بڑی تعداد میں لوگ آ رہے ہیں۔ ’اب تک آرٹ کے پندرہ ہزار سے زیادہ مداح یہاں آئے ہیں۔ ان میں مسلمان بھی ہیں اور غیر مسلم بھی۔ اور میرے خیال میں اس نمائش کی سب سے خاص بات یہاں آنے والے غیر مسلموں کی اسلام میں دلچسپی ہے۔ مثال کے طور پر لوگ میوزیم کی دکان میں اسلام کے بارے میں موجود کتابیں اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دھڑا دھڑ لے رہے ہیں۔‘
نگینوں اور سچے موتیوں سے سجی چوکی مغلیہ دور سے تعلق رکھتی ہے
یہاں آرٹ کے عام مداحوں کے علاوہ اس فن کی باریکیوں کو سمجھنے اور سمجھانے والے بھی نظر آئے۔ مقامی سکول میں آرٹ کی ایک ٹیچر سارا ریکارڈ کا کہنا تھا کہ وہ دوسرے ٹیچرز کے لئے نمائش میں موجود فن پاروں میں استعمال ہونے والی تیکنیک پر مبنی ایک کورس ترتیب دے رہی ہیں۔ سارا کا کہنا تھا: ’یہاں مختلف ملکوں اور ادوار سے مختلف اشیاء رکھی گئی ہیں۔ میرے خیال میں یہاں سب کے لئے کچھ نہ کچھ ہے۔‘
مگر شاید کچھ لوگ سارا کی بات سے اتفاق نہ کریں۔ لندن میں ایک دن گزارنے کے لئے آئے ہوئے روئے کیڈمین کو یہاں آکر خاصی مایوسی ہوئی تھی: ’ مجھے زیادہ تر چیزیں پھیکی لگیں۔ وہ چمک دمک نظر نہیں آئی جس کی مجھے توقع تھی۔ شاید یہ فن کا وہ شعبہ ہے جو میرے لئے کشش نہیں رکھتا۔ میری دلچسپی مغربی آرٹ میں بہت زیادہ ہے۔ میں اسلام کے بارے میں جاننا چاہتا تھا اور میرا خیال تھا کہ یہاں مجھے یہ موقع مل جائے گا۔‘
نمائش کی منتظم سے میں نے پوچھا کہ مسلم دنیا کی نوادرات کی نمائش کے لئے یہ ہی وقت کیوں چنا گیا۔ عائشہ کہتی ہیں: ’میرے خیال میں یہ محض اتفاق نہیں کہ یہ نمائش اس وقت ہورہی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ دنیا بھر میں اہم عجائب گھر اسلام اور اسلامی دنیا سے متعلق فن پاروں کی نمائشیں لگا رہے ہیں۔ اور اس کا سبب عالمی صورتحال ہے۔ لوگوں میں اسلام کے بارے میں دلچسپی اور تشویش دونوں ہی بڑھ رہی ہیں اس لئے وہ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
لیلیٰ کے عشق میں مبتلا ہوکر صحرا میں نکل جانے والے مجنوں کی تصویری کہانی لیے ہوئے ایرانی پوشاک، ہرات کے ایک تاجر کی منقش بالٹی، جواہرات اور سچے موتیوں سے مرصع وہ برتن جو نادرشاہ نے دلی پر حملے کے وقت مغلوں سے لوُٹے اور پھر تحفہ میں روسی ملکہ کو بھجوائے تھے (یہ اور بات ہے کہ یہ تحائف پہنچنے سے پہلے ملکہ اس دارفانی سے کوچ کر گئیں) اس طرح کی اور بہت سی چیزیں یہاں آنے والوں کو اپنے تخلیق کاروں کی تعریف پر مجبور کرتی ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/story/2004/06/040608_islamicartexhibition_art.shtml
نمائش کا نام ’ہیون آن ارتھ: آرٹ فرام اسلامک لینڈز‘ ہے جس کے معنی ہیں: جنت ارضی: اسلامی دنیا کا فن۔ یہاں رکھی ہوئی نوادرات کا تعلق دا سٹیٹ ہرمیٹیج میوزیم، سینٹ پیٹرز برگ اور خلیلی کلکشن لندن سے ہے۔ یہ نمائش بائیس اگست تک جاری رہے گی۔
یہاں تقریباً ایک سو تینتیس فن پارے رکھے گئے ہیں جن میں غلاف کعبہ کی اوپری پٹی، خط کوفی میں قرآن کے قدیم نسخے کا ایک ورق، دکن میں سونے کے پانی سے سجایا گیا قرآن، اسلامی ملکوں میں بنائے گئے خوبصورت برتن، دھات کی بنی پرانی اشیاء، ملبوسات اور تصویریں شامل ہیں۔
ان اشیاء کا زمانہ آٹھویں سے انیسویں صدی تک بارہ سو سال پر پھیلا ہوا ہے اور کسی نہ کسی اعتبار سے یہ مسلمانوں کا ورثہ ہیں۔
نمائش کی منتظم عائشہ جنگ نے بتایا کہ نمائش کو دیکھنے بڑی تعداد میں لوگ آ رہے ہیں۔ ’اب تک آرٹ کے پندرہ ہزار سے زیادہ مداح یہاں آئے ہیں۔ ان میں مسلمان بھی ہیں اور غیر مسلم بھی۔ اور میرے خیال میں اس نمائش کی سب سے خاص بات یہاں آنے والے غیر مسلموں کی اسلام میں دلچسپی ہے۔ مثال کے طور پر لوگ میوزیم کی دکان میں اسلام کے بارے میں موجود کتابیں اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دھڑا دھڑ لے رہے ہیں۔‘
نگینوں اور سچے موتیوں سے سجی چوکی مغلیہ دور سے تعلق رکھتی ہے
یہاں آرٹ کے عام مداحوں کے علاوہ اس فن کی باریکیوں کو سمجھنے اور سمجھانے والے بھی نظر آئے۔ مقامی سکول میں آرٹ کی ایک ٹیچر سارا ریکارڈ کا کہنا تھا کہ وہ دوسرے ٹیچرز کے لئے نمائش میں موجود فن پاروں میں استعمال ہونے والی تیکنیک پر مبنی ایک کورس ترتیب دے رہی ہیں۔ سارا کا کہنا تھا: ’یہاں مختلف ملکوں اور ادوار سے مختلف اشیاء رکھی گئی ہیں۔ میرے خیال میں یہاں سب کے لئے کچھ نہ کچھ ہے۔‘
مگر شاید کچھ لوگ سارا کی بات سے اتفاق نہ کریں۔ لندن میں ایک دن گزارنے کے لئے آئے ہوئے روئے کیڈمین کو یہاں آکر خاصی مایوسی ہوئی تھی: ’ مجھے زیادہ تر چیزیں پھیکی لگیں۔ وہ چمک دمک نظر نہیں آئی جس کی مجھے توقع تھی۔ شاید یہ فن کا وہ شعبہ ہے جو میرے لئے کشش نہیں رکھتا۔ میری دلچسپی مغربی آرٹ میں بہت زیادہ ہے۔ میں اسلام کے بارے میں جاننا چاہتا تھا اور میرا خیال تھا کہ یہاں مجھے یہ موقع مل جائے گا۔‘
نمائش کی منتظم سے میں نے پوچھا کہ مسلم دنیا کی نوادرات کی نمائش کے لئے یہ ہی وقت کیوں چنا گیا۔ عائشہ کہتی ہیں: ’میرے خیال میں یہ محض اتفاق نہیں کہ یہ نمائش اس وقت ہورہی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ دنیا بھر میں اہم عجائب گھر اسلام اور اسلامی دنیا سے متعلق فن پاروں کی نمائشیں لگا رہے ہیں۔ اور اس کا سبب عالمی صورتحال ہے۔ لوگوں میں اسلام کے بارے میں دلچسپی اور تشویش دونوں ہی بڑھ رہی ہیں اس لئے وہ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
لیلیٰ کے عشق میں مبتلا ہوکر صحرا میں نکل جانے والے مجنوں کی تصویری کہانی لیے ہوئے ایرانی پوشاک، ہرات کے ایک تاجر کی منقش بالٹی، جواہرات اور سچے موتیوں سے مرصع وہ برتن جو نادرشاہ نے دلی پر حملے کے وقت مغلوں سے لوُٹے اور پھر تحفہ میں روسی ملکہ کو بھجوائے تھے (یہ اور بات ہے کہ یہ تحائف پہنچنے سے پہلے ملکہ اس دارفانی سے کوچ کر گئیں) اس طرح کی اور بہت سی چیزیں یہاں آنے والوں کو اپنے تخلیق کاروں کی تعریف پر مجبور کرتی ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/story/2004/06/040608_islamicartexhibition_art.shtml