جو عہد مجھ سے کیا کسی نے مگر وہ اس کو نبھا نہ پایا

الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
سید عاطف علی
-------------
مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن
-----------------
جو عہد مجھ سے کیا کسی نے مگر وہ اس کو نبھا نہ پایا
وفا نبھانا نہیں ہے آساں وہ بوجھ اس کا اٹھا نہ پایا
----------
تھا ساتھ رب کا مجھے میسّر تبھی میں حق پر ڈٹا رہا ہوں
جہان سارا مرا تھا دشمن مگر وہ مجھ کو جھکا نہ پایا
--------
ملا وہ مدّت کے بعد مجھ سے ملا تو آنسو بہا رہا تھا
جو وقت گزرا ہے ساتھ اس کے اسے کبھی بے وفا نہ پایا
------------
مرے ہے دل میں خیال تیرا تری وفائیں ہیں یاد مجھ کو
نہیں ہے بس میں تجھے بھلانا تجھے میں دل سے بھلا نہ پایا
----------
مری یہ آنکھیں بتا رہی ہیں مرے ہے دل میں جو پیار اس کا
وہ آ کے بیٹھا قریب میرے میں حال دل کا سنا نہ پایا
-----------
اداس چہرہ بتا رہا ہے جو اس پہ گزری ہے دور رہ کر
مری محبّت بسی ہے دل میں جسے وہ اب تک بھلا نہ پایا
-----------
مری جدائی نہ راس آئی وہ لگ کے سینے سے میرے رویا
کسے بتاتا وہ حال دل کا مگر وہ مجھ سے چھپا نہ پایا
-----------
وفا کے رستے میں جان دے کر اسے نبھایا ہے تم نے ارشد
ہیں لوگ سارے ہی پیار کرتے کسی کو تجھ سا فدا نہ پایا
-------------
 
جو عہد مجھ سے کیا کسی نے مگر وہ اس کو نبھا نہ پایاجو عہد مجھ سے کیا تھا اُس نے مگر اُسے جب نبھا نہ پایا
وفا نبھانا نہیں ہے آساں وہ بوجھ اس کا اٹھا نہ پایاتو مانا عہدِ وفا تھا بھاری جسے وہ ہرگز اُٹھا نہ پایا
----------
تھا ساتھ رب کا مجھے میسّر تبھی میں حق پر ڈٹا رہا ہوں تھا ساتھ رب کا مجھے میسر تبھی میں حق پر ڈٹا رہا یوں
جہان سارا مرا تھا دشمن مگر وہ مجھ کو جھکا نہ پایا ہزار چاہاجہاں نے لیکن کوئی بھی مجھ کو جھکا نہ پایا
--------
ملا وہ مدّت کے بعد مجھ سے ملا تو آنسو بہا رہا تھاملا بچھڑ کے ہےجس گھڑی تو کچھ ایسے رویا لپٹ لپٹ کر
جو وقت گزرا ہے ساتھ اس کے اسے کبھی بے وفا نہ پایاکہ حالِ ہجراں بتادیا سب وہ کچھ بھی مجھ سے چھپا نہ پایا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
جو عہد مجھ سے کیا کسی نے مگر وہ اس کو نبھا نہ پایا
وفا نبھانا نہیں ہے آساں وہ بوجھ اس کا اٹھا نہ پایا
----------
کسی نے اور اس گرامر کے اعتبار سے ٹھیک نہیں لگ رہا، 'مگر' بھی یوں لگتا ہے کہ محض وزن کو پورا کرنے کے لیے لایا گیا ہے
'وفا نبھانا' بھی مجھے محاورے کے لحاظ سے درست نہیں لگ رہا۔ 'وفا کرنا' میرا خیال ہے کہ ٹھیک ہے
بحر طویل ہے تو اس میں بھرتی کے الفاظ آ جانے کا احتمال زیادہ ہے
تھا ساتھ رب کا مجھے میسّر تبھی میں حق پر ڈٹا رہا ہوں
جہان سارا مرا تھا دشمن مگر وہ مجھ کو جھکا نہ پایا
--------
حق پر ڈٹا بھی ٹھیک ہے مگر حق پر کھڑا کے بارے میں بھی غور کریں
مصرع ثانی میں بھی تھوڑی تبدیلی کی جائے
مثلاً
جہان سارا تھا میرا دشمن مگر یہ مجھ کو جھکا...

ملا وہ مدّت کے بعد مجھ سے ملا تو آنسو بہا رہا تھا
جو وقت گزرا ہے ساتھ اس کے اسے کبھی بے وفا نہ پایا
------------
ملا کا دہرایا جانا بھلا نہیں لگ رہا
ملا جو مدت کے بعد مجھ سے تو خوب آنسو بہا رہا تھا

مگر دوسرے مصرع کا پہلے سے ربط کمزور لگ رہا ہے، بے وفا نہ پانا اور مل کر آنسو بہانے میں کوئی تعلق نظر نہیں آ رہا
مرے ہے دل میں خیال تیرا تری وفائیں ہیں یاد مجھ کو
نہیں ہے بس میں تجھے بھلانا تجھے میں دل سے بھلا نہ پایا
----------
'مرے ہے دل میں' اچھا نہیں لگ رہا، اس کو آسانی کے ساتھ
// ہے میرے دل میں.. کیا جا سکتا ہے
اسی طرح
// نہیں تھا بس میں تجھے بھلانا، سو تجھ کو ہرگز بھلا نہ پایا

مری یہ آنکھیں بتا رہی ہیں مرے ہے دل میں جو پیار اس کا
وہ آ کے بیٹھا قریب میرے میں حال دل کا سنا نہ پایا
-----------
یہاں بھی الفاظ کی ترتیب اچھی نہیں لگی
// یہ میری آنکھیں بتا رہی ہیں، ہے میرے دل میں...
// وہ آ کے بیٹھا تھا پاس میرے، میں حال دل کا..

مگر اس کے بعد بھی مفہوم کچھ نہیں نکل رہا۔ وضاحت کی کمی ہے، شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آنکھوں سے ہی سب کچھ عیاں تھا، مگر الفاظ سے یہ بات صاف ظاہر نہیں ہو رہی، کسی دوسرے طریقے سے کہنے کی ضرورت ہے
اداس چہرہ بتا رہا ہے جو اس پہ گزری ہے دور رہ کر
مری محبّت بسی ہے دل میں جسے وہ اب تک بھلا نہ پایا
-----------
اداس چہرہ کس کا ہے یہ بھی واضح کریں تو خوب ہو
مزید یہ کہ بسی کے ساتھ بھلا بھی فٹ نہیں بیٹھ رہا
یہ شعر بھی دوبارہ کہا جائے تو ٹھیک ہو سکتا ہے

مری جدائی نہ راس آئی وہ لگ کے سینے سے میرے رویا
کسے بتاتا وہ حال دل کا مگر وہ مجھ سے چھپا نہ پایا
-----------
جدائی میری نہ راس آئی..
مصرع ثانی کو بھی کسی اور انداز سے کہا جائے کہ بات واضح ہو سکے
اور کچھ ربط بھی پیدا ہو دونوں مصرعوں کے درمیان

وفا کے رستے میں جان دے کر اسے نبھایا ہے تم نے ارشد
ہیں لوگ سارے ہی پیار کرتے کسی کو تجھ سا فدا نہ پایا
نبھانا عجیب ہی لگ رہا ہے وفا کو، حق اس کا تم نے ادا کیا ہے
سے بہتر تو ہوتا ہے مگر تخلص/شاعر کا نام نہیں آ رہا
دوسرا مصرع کمزور ہے، لوگ کس سے پیار کرتے ہیں اور آپ کس پر فدا ہیں یہ معلوم نہیں پڑتا
 
عظیم
---------
اصلاح
-----------------------
جو عہد اس نے کیا وفا کا وہ کر کے اس کو نبھا نہ پایا
وفا کا رستہ بہت کٹھن ہے وہ خود کو اس پر چلا نہ پایا
-----------
تھا ساتھ رب کا مجھے میسّر تبھی میں حق پر کھڑا رہا ہوں
جہان سارا تھا میرا دشمن مگر یہ مجھ کو جھکا نہ پایا
-------
ملا جو مدّت کے بعد مجھ سے تو خوب آنسو بہا رہا تھا
مجھی سے کرتا ہے پیار اب تک وہ بات دل کی چھپا نہ پایا
-------------
ہے میرے دل میں خیال تیرا تری وفائیں ہیں یاد مجھ کو
نہیں تھا بس میں تجھے بھلانا سو تجھ کو ہرگز بھلا نہ پایا
----------
یہ میری آنکھیں بتا رہی ہیں، ہے میرے دل میں جو پیار تیرا
وہ آ کے بیٹھا تھا پاس میرے، میں حال دل کا سنا نہ پایا
--------
جو اس پہ گزری ہے دور مجھ سے یہ اس کی حالت بتا رہی تھی
مری وفائیں ہیں یاد اس کو جنہیں وہ اب تک بھلا نہ پایا
-----------
جدائی میری نہ راس آئی اداس رہنے لگا وہ اکثر
لگا کے سینے سے مجھ کو رویا وہ حال دل کا چھپا نہ پایا
-----------
وفا کے رستے میں جان دے کر دیا ہے ارشد نے درسِ الفت
یہی محبّت یہی وفا ہے مثال کوئی بھی لا نہ پایا
----------یا
کسی کی الفت میں جان مثال کوئی بھی لا نہ پایا
----------
 

عظیم

محفلین
جو عہد اس نے کیا وفا کا وہ کر کے اس کو نبھا نہ پایا
وفا کا رستہ بہت کٹھن ہے وہ خود کو اس پر چلا نہ پایا
-----------
وفا کا وعدہ کیا جو اس نے تو کر کے اس کو نبھا نہ پایا
بہت کٹھن تھی یہ راہ اس پر وہ خود کو ہرگز چلا نہ پایا

بہت مطمئن تو نہیں ہوں مگر یہ کچھ بہتر معلوم ہوتا ہے آپ کے مطلع سے، 'وفا' کا دہرایا جانا بھی نہیں ہے اور کچھ روانی بھی بہتر ہے شاید، نبھا کے بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ وعدہ یا عہد کے ساتھ ٹھیک ہے یا نہیں۔ مگر خیال ہے کہ چل سکتا ہے

تھا ساتھ رب کا مجھے میسّر تبھی میں حق پر کھڑا رہا ہوں
جہان سارا تھا میرا دشمن مگر یہ مجھ کو جھکا نہ پایا
------- 'مگر یہ مجھ کو' کی جگہ ' پہ پھر بھی مجھ کو' بہتر ہے یقیناً، دوبارہ دیکھنے پر یہ بہتری سمجھ میں آئی۔ آپ بھی اگر وقفے وقفے سے خود ہی اپنی غزلوں کو دیکھیں تو ان شاء اللہ بہت کچھ خود ہی درست کر لیں گے


ملا جو مدّت کے بعد مجھ سے تو خوب آنسو بہا رہا تھا
مجھی سے کرتا ہے پیار اب تک وہ بات دل کی چھپا نہ پایا
------------- 'مجھی' کچھ بھلا نہیں لگ رہا، ہے میری الفت ہی دل میں اب تک، یہ بات شاید چھپا.. وغیرہ کہا جا سکتا ہے


ہے میرے دل میں خیال تیرا تری وفائیں ہیں یاد مجھ کو
نہیں تھا بس میں تجھے بھلانا سو تجھ کو ہرگز بھلا نہ پایا
---------- 'تیرا اور تری' ایک ساتھ کچھ کھٹک رہا ہے، الفاظ کی ترتیب بدلی جا سکتی ہے
مثلاً
وفائیں تیری ہیں....


یہ میری آنکھیں بتا رہی ہیں، ہے میرے دل میں جو پیار تیرا
وہ آ کے بیٹھا تھا پاس میرے، میں حال دل کا سنا نہ پایا
-------- ابھی بھی ربط قائم نہیں ہوا، پہلے مصرع میں 'تیرا' اور دوسرے مصرع میں 'وہ' بھی ایک شترگربہ کی سی کیفیت پیدا کر رہا ہے
وضاحت کے معاملے میں پہلا مصرع اب بھی کمزور ہے


جو اس پہ گزری ہے دور مجھ سے یہ اس کی حالت بتا رہی تھی
مری وفائیں ہیں یاد اس کو جنہیں وہ اب تک بھلا نہ پایا
----------- دور وہ معنی پیدا نہیں کر رہا جو آپ کی مراد ہے، یعنی جدائی، دوری
'مری وفائیں' بھی 'وفائیں میری' مجھے بہتر لگتا ہے

جدائی میری نہ راس آئی اداس رہنے لگا وہ اکثر
لگا کے سینے سے مجھ کو رویا وہ حال دل کا چھپا نہ پایا
----------- روانی کی کمی ہے، الفاظ کی نشست بدلی جا سکتی ہے
// نہ راس آئی مری جدائی، اداسی اس کی بتا رہی ہے
سینے سے لگا کر رونا اور دل کا حال چھپانا دو الگ الگ باتیں لگ رہی ہیں، یعنی محض رو دینے سے دل کا حال بتانا مراد نہیں لی جا سکتی، کوئی دوسری صورت ڈھونڈیں


وفا کے رستے میں جان دے کر دیا ہے ارشد نے درسِ الفت
یہی محبّت یہی وفا ہے مثال کوئی بھی لا نہ پایا
----------یا
کسی کی الفت میں جان مثال کوئی بھی لا نہ پایا

درس الف کچھ فٹ بیٹھتا ہوا محسوس نہیں ہو رہا، اسی طرح محض 'مثال کوئی بھی لا' سے بات نہیں بنتی، 'ایسی مثال' کی ضرورت ہے
دوسرے متبادل میں تو شاید کچھ ٹائپ ہونے سے رہ گیا ہے
مقطع دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے
 
عظیم
----------
اصلاح
-------------
وفا کا وعدہ کیا جو اس نے تو کر کے اس کو نبھا نہ پایا
بہت کٹھن تھی یہ راہ اس پر وہ خود کو ہرگز چلا نہ پایا
-------------
تھا ساتھ رب کا مجھے میسّر تبھی میں حق پر کھڑا رہا ہوں
بنا تھا دشمن جہان سارا یہ پھر بھی مجھ کو جھکا نہ پایا
----------
ملا جو مدّت کے بعد مجھ سے تو خوب آنسو بہا رہا تھا
مری محبّت تھی دل میں اس کے جسے وہ مجھ سے چھپا نہ پایا
------------
تری وفائیں ہیں یاد مجھ کوہے دل میں میرے خیال تیرا
تجھے بھلانا نہیں تھا بس میں تبھی میں تجھ کو بھلا نہ پایا
------------
نہ راس آئی مری جدائی اداسی اس کی بتا تہی تھی
چھلک پڑے تھے جو اشک اس کے وہ اپنا چھپا نہ پایا
-------------
دیا ہے ارشد نے درس تم کو رہِ محبّت میں جان دے کر
وفا کے دشمن جو چاہتے تھے میں بن کے ویسا دکھا نہ پایا
-----------
 

عظیم

محفلین
تھا ساتھ رب کا مجھے میسّر تبھی میں حق پر کھڑا رہا ہوں
بنا تھا دشمن جہان سارا یہ پھر بھی مجھ کو جھکا نہ پایا
'یہ' کی جگہ 'پہ' بہتر ہے جو میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں


ملا جو مدّت کے بعد مجھ سے تو خوب آنسو بہا رہا تھا
مری محبّت تھی دل میں اس کے جسے وہ مجھ سے چھپا نہ پایا
------------
مری محبت تھی دل میں اب تک
ربط میں زیادہ مضبوط لگتا ہے


تری وفائیں ہیں یاد مجھ کوہے دل میں میرے خیال تیرا
تجھے بھلانا نہیں تھا بس میں تبھی میں تجھ کو بھلا نہ پایا
------------
پہلے مصرع کی روانی ابھی بھی اچھی نہیں لگ رہی
## وفائیں تیری.... اور، ہے دل میں تیرا خیال اب تک، بہتر رہے گا


نہ راس آئی مری جدائی اداسی اس کی بتا تہی تھی
چھلک پڑے تھے جو اشک اس کے وہ اپنا چھپا نہ پایا
-------------
مجھے 'جدائی میری' ہی روانی کے اعتبار سے اچھا لگ رہا ہے
اشکوں کا چھلکنا جیسا مفہوم "ملا تھا مدت کے بعد" والے شعر میں بھی تقریباً ایک سا ہی ہے۔ اس کو بدل لیں تو بہتر ہو
اس کے علاوہ کچھ ٹائپنگ کی بھی غلطی ہے اس مصرع میں، اس لیے مزید کچھ نہیں کہہ سکتا


دیا ہے ارشد نے درس تم کو رہِ محبّت میں جان دے کر
وفا کے دشمن جو چاہتے تھے میں بن کے ویسا دکھا نہ پایا
-----------
دو لخت لگ رہا ہے مقطع
 
Top