جو نگاہِ ناز میں تھا جچا ، ترا بانک پن وہ کِدھر گیا

اصلاح


  • Total voters
    1

ابن رضا

لائبریرین
برائے اصلاح

دلِ مضطرب تجھے کیا ہُوا ، ہے اداس اور بجھا بجھا
جو نگاہِ ناز میں تھا جچا ، ترا بانک پن وہ کِدھر گیا

تری خامشی میں سوال ہے، ترا ضبط بھی تو کمال ہے
ہُوا کچھ توَ ہے کہ نِڈھال ہے، ترا ساز، سوز میں کیوں ڈھلا

یوں گھڑی گھڑی نہ ستا مجھے، جو بُرا لگا ہے بتا مجھے
کوئی زخم ہے تو دِکھا مجھے، تو نہ ضبط میرا یوں آزما

جہاں رک گیا مرا هم قدم ، وہیں آن پہنچے تھے رنج و غم
اُسی موڑ پر ہوئی آنکھ نم، نہیں بھُولتا ہے یہ حادثہ

وہ جو زندگی کی اَساس تھا، وہ جو ایک شخص ہی راس تھا
مِری آس تھا مِرے پاس تھا، کہیں کھو گیا، کہیں جا بسا

وہ تَو ہو گیا کسی اور کا، تو ہے جس کے سوز میں گُھل رہا
تجھے چھوڑ کر جو چلا گیا، وہ نہ مل سکے گا کبھی رضاؔ


بڑا خار دار ہےراستہ ،ملے ہر قدم نیا سانحہ
ابھی وقت ہے مری مان جا ، کہیں جاں نہ لے لے یہ عارضہ



تقطیع یہاں ملاحظہ کریں۔
ابنِ رضا کی تُک بندیاں

ٹیگ: اساتذہ کرام جناب الف عین صاحب و جناب محمد یعقوب آسی صاحب و برادران
 
آخری تدوین:
”منقسم“ اور ”پرکٹھن“ میں غور کرلیجیے گا۔
اول الذکر میں ماقبلِ آخر مکسور ہونے کی وجہ سے اور ثانی الذکر میں ”پر“ فارسی کو ”کٹھن“ غیر عربی و فارسی کے ساتھ جوڑنے کی وجہ سے۔
 

ساقی۔

محفلین
تری خامشی میں سوال ہے، ترا ضبط بھی تو کمال ہے
ہُوا کچھ توَ ہے کہ نِڈھال ہے، ترا حال یہ نہیں بے وجہ

وہ جو زندگی کی اَساس تھا، وہ جو ایک شخص ہی راس تھا
مِری آس تھا مِرے پاس تھا، کہیں کھو گیا، کہیں جا بسا

واہ ۔ بہت خوب۔زبردست
 

سید عاطف علی

لائبریرین
”منقسم“ اور ”پرکٹھن“ میں غور کرلیجیے گا۔
اول الذکر میں ماقبلِ آخر مکسور ہونے کی وجہ سے اور ثانی الذکر میں ”پر“ فارسی کو ”کٹھن“ غیر عربی و فارسی کے ساتھ جوڑنے کی وجہ سے۔
یہاں کٹھن کو دشواری کے معنی میں لیا گیا ہے۔ جو درست نہیں ۔کٹھن دراصل دشوار یا تکلیف دہ کے معنی میں استعمال ہوگا اس لیے پر لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہے چنانچہ پر کے جوڑ کا در حقیقت محل ہی نہیں۔
دوسرے بے وجہ کو فاعلن پر باندھا جانا کچھ ٹھیک نہیں محسوس ہو رہا ۔بے وجہ کو مفعول ہونا چاہیے۔
باقی بحر کے حساب سے نشست و برخواست پر مجموعی طور پر زیادہ رواں ہو نا چاہیے۔
کاوش بہر حال اچھی ہے۔رضا بھائی۔
 

ابن رضا

لائبریرین
”منقسم“ اور ”پرکٹھن“ میں غور کرلیجیے گا۔
اول الذکر میں ماقبلِ آخر مکسور ہونے کی وجہ سے اور ثانی الذکر میں ”پر“ فارسی کو ”کٹھن“ غیر عربی و فارسی کے ساتھ جوڑنے کی وجہ سے۔
پسند آوری کا شکریه. اسامه بھائی منقسم کی س مفتوح پڑھی هے دوباره تصدیق کر لیتا هوں
 

الف عین

لائبریرین
دلِ مضطرب تجھے کیا ہُوا ، ہے بجھی بجھی تری ہر ادا
جو نگاہِ ناز کا نور تھا ، ترا بانک پن وہ کِدھر گیا
÷÷ادا اور بجھی بھجی؟ خطاب کس سے ہے، نگاہ ناز کا نور سے تعلق؟ سمجھ میں نہیں آیا

تری خامشی میں سوال ہے، ترا ضبط بھی تو کمال ہے
ہُوا کچھ توَ ہے کہ نِڈھال ہے، ترا حال یہ نہیں بے وجہ
۔۔قافیہ غلط ہے۔ وجہ بر وزن فعو نہیں، فعل ہے یعنی ج پر جزم۔

یوں گھڑی گھڑی نہ ستا مجھے، جو بُرا لگا ہے بتا مجھے
کوئی زخم ہے تو دِکھا مجھے، تو نہ ضبط میرا یوں آزما
÷÷÷درست

جہاں راستے ہوئے منقسم ، وہیں آن پہنچے تھے رنج و غم
اُسی موڑ پر ہوئی آنکھ نم، نہیں بھُولتا ہے یہ حادثہ
منقسم کی بات ہو چکی۔ یہاں کیونکہ تین ٹکڑوں میں قوافی کا التزام ہے، اس لئے اچھا نہیں لگتا۔ ویسے کوئی ایسا لفظ بھی لا سکتے ہو جہاں قافئے کا اشتباہ ہی نہ ہو۔ ویسے راستے الگ الگ ہونے کو راستہ منقسم کہنا بھی ذرا سوال اٹھاتا ہے۔

وہ جو زندگی کی اَساس تھا، وہ جو ایک شخص ہی راس تھا
مِری آس تھا مِرے پاس تھا، کہیں کھو گیا، کہیں جا بسا
÷÷درست

وہ تَو ہو گیا کسی اور کا، تو ہے جس کے سوز میں گُھل رہا
تجھے چھوڑ کر جو چلا گیا، وہ نہ مل سکے گا کبھی رضاؔ
÷÷درست

نہ فریب میں تو کسی کے آ، بڑا پُرکٹھن ہے یہ راستہ
ابھی وقت ہے مری مان جا ، کہیں جاں نہ لے لے یہ عارضہ
کٹھن کے ساتھ پر کی بات ہو چکی، لیکن کٹھن خود ہی صفت ہے۔ کٹھنائی اسم ہے۔ کہ بڑا کٹھن ہے یہ راستہ کیا جا سکتا ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
تری خامشی میں سوال ہے، ترا ضبط بھی تو کمال ہے
ہُوا کچھ توَ ہے کہ نِڈھال ہے، ترا حال یہ نہیں بے وجہ

وہ جو زندگی کی اَساس تھا، وہ جو ایک شخص ہی راس تھا
مِری آس تھا مِرے پاس تھا، کہیں کھو گیا، کہیں جا بسا

واہ ۔ بہت خوب۔زبردست
پسند آوری کا شکریه
 

ابن رضا

لائبریرین
یہاں کٹھن کو دشواری کے معنی میں لیا گیا ہے۔ جو درست نہیں ۔کٹھن دراصل دشوار یا تکلیف دہ کے معنی میں استعمال ہوگا اس لیے پر لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہے چنانچہ پر کے جوڑ کا در حقیقت محل ہی نہیں۔
دوسرے بے وجہ کو فاعلن پر باندھا جانا کچھ ٹھیک نہیں محسوس ہو رہا ۔بے وجہ کو مفعول ہونا چاہیے۔
باقی بحر کے حساب سے نشست و برخواست پر مجموعی طور پر زیادہ رواں ہو نا چاہیے۔
کاوش بہر حال اچھی ہے۔رضا بھائی۔
تشکر جناب. مزید غور کرتا هوں
 

ابن رضا

لائبریرین
دلِ مضطرب تجھے کیا ہُوا ، ہے بجھی بجھی تری ہر ادا
جو نگاہِ ناز کا نور تھا ، ترا بانک پن وہ کِدھر گیا
÷÷ادا اور بجھی بھجی؟ خطاب کس سے ہے، نگاہ ناز کا نور سے تعلق؟ سمجھ میں نہیں آیا

تری خامشی میں سوال ہے، ترا ضبط بھی تو کمال ہے
ہُوا کچھ توَ ہے کہ نِڈھال ہے، ترا حال یہ نہیں بے وجہ
۔۔قافیہ غلط ہے۔ وجہ بر وزن فعو نہیں، فعل ہے یعنی ج پر جزم۔

یوں گھڑی گھڑی نہ ستا مجھے، جو بُرا لگا ہے بتا مجھے
کوئی زخم ہے تو دِکھا مجھے، تو نہ ضبط میرا یوں آزما
÷÷÷درست

جہاں راستے ہوئے منقسم ، وہیں آن پہنچے تھے رنج و غم
اُسی موڑ پر ہوئی آنکھ نم، نہیں بھُولتا ہے یہ حادثہ
منقسم کی بات ہو چکی۔ یہاں کیونکہ تین ٹکڑوں میں قوافی کا التزام ہے، اس لئے اچھا نہیں لگتا۔ ویسے کوئی ایسا لفظ بھی لا سکتے ہو جہاں قافئے کا اشتباہ ہی نہ ہو۔ ویسے راستے الگ الگ ہونے کو راستہ منقسم کہنا بھی ذرا سوال اٹھاتا ہے۔

وہ جو زندگی کی اَساس تھا، وہ جو ایک شخص ہی راس تھا
مِری آس تھا مِرے پاس تھا، کہیں کھو گیا، کہیں جا بسا
÷÷درست

وہ تَو ہو گیا کسی اور کا، تو ہے جس کے سوز میں گُھل رہا
تجھے چھوڑ کر جو چلا گیا، وہ نہ مل سکے گا کبھی رضاؔ
÷÷درست

نہ فریب میں تو کسی کے آ، بڑا پُرکٹھن ہے یہ راستہ
ابھی وقت ہے مری مان جا ، کہیں جاں نہ لے لے یہ عارضہ
کٹھن کے ساتھ پر کی بات ہو چکی، لیکن کٹھن خود ہی صفت ہے۔ کٹھنائی اسم ہے۔ کہ بڑا کٹھن ہے یہ راستہ کیا جا سکتا ہے۔
تشکراستاد محترم. خوب نکته آفرینی هے. باردگر زحمت دیتا هوں.
 

ابن رضا

لائبریرین
دلِ مضطرب تجھے کیا ہُوا ، ہے بجھی بجھی تری ہر ادا
جو نگاہِ ناز کا نور تھا ، ترا بانک پن وہ کِدھر گیا
÷÷ادا اور بجھی بھجی؟ خطاب کس سے ہے، نگاہ ناز کا نور سے تعلق؟ سمجھ میں نہیں آیا

تری خامشی میں سوال ہے، ترا ضبط بھی تو کمال ہے
ہُوا کچھ توَ ہے کہ نِڈھال ہے، ترا حال یہ نہیں بے وجہ
۔۔قافیہ غلط ہے۔ وجہ بر وزن فعو نہیں، فعل ہے یعنی ج پر جزم۔

یوں گھڑی گھڑی نہ ستا مجھے، جو بُرا لگا ہے بتا مجھے
کوئی زخم ہے تو دِکھا مجھے، تو نہ ضبط میرا یوں آزما
÷÷÷درست

جہاں راستے ہوئے منقسم ، وہیں آن پہنچے تھے رنج و غم
اُسی موڑ پر ہوئی آنکھ نم، نہیں بھُولتا ہے یہ حادثہ
منقسم کی بات ہو چکی۔ یہاں کیونکہ تین ٹکڑوں میں قوافی کا التزام ہے، اس لئے اچھا نہیں لگتا۔ ویسے کوئی ایسا لفظ بھی لا سکتے ہو جہاں قافئے کا اشتباہ ہی نہ ہو۔ ویسے راستے الگ الگ ہونے کو راستہ منقسم کہنا بھی ذرا سوال اٹھاتا ہے۔

وہ جو زندگی کی اَساس تھا، وہ جو ایک شخص ہی راس تھا
مِری آس تھا مِرے پاس تھا، کہیں کھو گیا، کہیں جا بسا
÷÷درست

وہ تَو ہو گیا کسی اور کا، تو ہے جس کے سوز میں گُھل رہا
تجھے چھوڑ کر جو چلا گیا، وہ نہ مل سکے گا کبھی رضاؔ
÷÷درست

نہ فریب میں تو کسی کے آ، بڑا پُرکٹھن ہے یہ راستہ
ابھی وقت ہے مری مان جا ، کہیں جاں نہ لے لے یہ عارضہ
کٹھن کے ساتھ پر کی بات ہو چکی، لیکن کٹھن خود ہی صفت ہے۔ کٹھنائی اسم ہے۔ کہ بڑا کٹھن ہے یہ راستہ کیا جا سکتا ہے۔
هدایات کے پیش نظر کچھ تبدیلیاں کی هیں ملاحظه فرمایں
 
Top