الف نظامی
لائبریرین
جو وہ تو نہ رہا تو وہ بات گئی ، جو وہ بات گئی تو مزا نہ رہا
وہ اُمنگ کہاں، وہ ترنگ کہاں ، وہ مزاج وفا و جفا نہ رہا
شب و روز کہیںبھی الگ نہ ہوا ، شب و روز کہاں وہ ملا نہ رہا
رگ جاں سے ہماری قریب رہا ، رگ جاں سے ہماری جدا نہ رہا
کسی شکل میںبھی ، کسی رنگ میںبھی ، کسی روپ میںبھی کسی ڈھنگ میںبھی
وہ ہماری نظر سے چھپا تو مگر وہ ہماری نظر سے چھپا نہ رہا
تھی خزاںکے لباس میںکس کی نظر کہ جھلستی گئی ہے تمام شجر
کسی شاخپہ تازہ کلی نہ رہی ، کوئی پتہ چمن میںہرا نہ رہا
تیرے ظلم و ستم ہوئے مجھ پہ جو کم تو یہ حال میرا ہے قدم بہ قدم
وہ تڑپ نہ رہی ، وہ جلن نہ رہی ، غم و درد میںاب وہ مزا نہ رہا
بہے اشک وفور ملال سے جب ، کھلے راز تمام ، ہوا یہ غضب
کوئی بات کسی سے چھپی نہ رہی ، کوئی حال کسی سے چھپا نہ رہا
دم دید ہزار حواس گئے ، رہے دور ہی دور کہ پاس رہے
ہمیںدیکھنا تھا انہیںدیکھ لیا ، کوئی بیچ میں پردہ رہا نہ رہا
مرے دم سے تھے نقش و نگار جنوں، مرے بعد کہاں وہ بہار جنوں
کسی خار کی نوک پہ کیا یہ ہو تری، کوئی دشت میںآبلہ پا نہ رہا
مرے پاس جو آ بھی گیا ہے کبھی ، تو یہ ڈھنگ رہے تو یہ شکل رہی
وہ ذرا نہ کُھلا ، وہ ذرا نہ کِھلا ، وہ ذرا نہ تھما ، وہ ذرا نہ رہا
کیے تیری نگاہ نے جس پہ کرم ، رہا دونوںجہان میںاس کا بھرم
جسے تیرے غضب نے تباہ کیا ، کہیںاس کا بھرم بخدا نہ رہا
جو نصیر ہم ان کے قریب ہوئے ، تو حیات کے رنگ عجیب ہوئے
غمِہجر میںاور ہی کچھ تھی خلش ، وہ خلش نہ رہی وہ مزا نہ رہا
دستِنظر از سید نصیر الدین نصیر سے لیا گیا کلام
وہ اُمنگ کہاں، وہ ترنگ کہاں ، وہ مزاج وفا و جفا نہ رہا
شب و روز کہیںبھی الگ نہ ہوا ، شب و روز کہاں وہ ملا نہ رہا
رگ جاں سے ہماری قریب رہا ، رگ جاں سے ہماری جدا نہ رہا
کسی شکل میںبھی ، کسی رنگ میںبھی ، کسی روپ میںبھی کسی ڈھنگ میںبھی
وہ ہماری نظر سے چھپا تو مگر وہ ہماری نظر سے چھپا نہ رہا
تھی خزاںکے لباس میںکس کی نظر کہ جھلستی گئی ہے تمام شجر
کسی شاخپہ تازہ کلی نہ رہی ، کوئی پتہ چمن میںہرا نہ رہا
تیرے ظلم و ستم ہوئے مجھ پہ جو کم تو یہ حال میرا ہے قدم بہ قدم
وہ تڑپ نہ رہی ، وہ جلن نہ رہی ، غم و درد میںاب وہ مزا نہ رہا
بہے اشک وفور ملال سے جب ، کھلے راز تمام ، ہوا یہ غضب
کوئی بات کسی سے چھپی نہ رہی ، کوئی حال کسی سے چھپا نہ رہا
دم دید ہزار حواس گئے ، رہے دور ہی دور کہ پاس رہے
ہمیںدیکھنا تھا انہیںدیکھ لیا ، کوئی بیچ میں پردہ رہا نہ رہا
مرے دم سے تھے نقش و نگار جنوں، مرے بعد کہاں وہ بہار جنوں
کسی خار کی نوک پہ کیا یہ ہو تری، کوئی دشت میںآبلہ پا نہ رہا
مرے پاس جو آ بھی گیا ہے کبھی ، تو یہ ڈھنگ رہے تو یہ شکل رہی
وہ ذرا نہ کُھلا ، وہ ذرا نہ کِھلا ، وہ ذرا نہ تھما ، وہ ذرا نہ رہا
کیے تیری نگاہ نے جس پہ کرم ، رہا دونوںجہان میںاس کا بھرم
جسے تیرے غضب نے تباہ کیا ، کہیںاس کا بھرم بخدا نہ رہا
جو نصیر ہم ان کے قریب ہوئے ، تو حیات کے رنگ عجیب ہوئے
غمِہجر میںاور ہی کچھ تھی خلش ، وہ خلش نہ رہی وہ مزا نہ رہا
دستِنظر از سید نصیر الدین نصیر سے لیا گیا کلام