جو کروں بیاں صبحِ سرد کی۔۔۔غزل برائے اصلاح

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

نوید خان

محفلین
جو کروں بیاں صبحِ سرد کی
پھر کبھی نہ ہو شام درد کی

وہ ملیں مجھے اب نقاب میں
ہیں نظر میں وہ فرد فرد کی

تھی جو مختصر سی مری حیات
تیرے گِرد اُڑا کے ہی گَرد کی

میری داستاں یوں ہوئی ختم
جب ہتھیلی تو نے وہ زرد کی

میرے ساتھ ہے میری شاعری
جو ہے ترجماں میرے درد کی

نوید احمد
 
یہ بحر غیر مستعمل ہے۔ اس لیے قاری کو بحر پہچاننے کے لیے کافی مشقت کرنی پڑے گی۔

ختم کا اصل تلفظ ت ساکن کے ساتھ ہے۔
میرا نہیں خیال کہ شاعری میں غلط العام تلفظ کا استعمال کیا جانا چاہیے۔

جو کروں بیاں صبحِ سرد کی
کیا چیز بیاں کروں؟

وہ ملیں مجھے اب نقاب میں
ہیں نظر میں وہ فرد فرد کی

یعنی اگر اب وہ نقاب میں ملے تو ان کی خیر نہیں ؟​


تھی جو مختصر سی مری حیات
تیرے گِرد اُڑا کے ہی گَرد کی

حیات اور گرد کی مناسبت واضح نہیں ہے۔

میری داستاں یوں ہوئی ختم
جب ہتھیلی تو نے وہ زرد کی

یعنی ہتھیلی سرخ کی؟؟

میرے ساتھ ہے میری شاعری
جو ہے ترجماں میرے درد کی
یہ مضمون ہزاروں مرتبہ باندھا جا چکا ہے اس لیے نئے پیرائے کا محتاج ہے۔

مشق جاری رکھیں۔
 
آخری تدوین:

نوید خان

محفلین
یہ بحر غیر مستعمل ہے۔ اس لیے قاری کو بحر پہچاننے کے لیے کافی مشقت کرنی پڑے گی۔

ختم کا اصل تلفظ ت ساکن کے ساتھ ہے۔
میرا نہیں خیال کہ شاعری میں غلط العام تلفظ کا استعمال کیا جانا چاہیے۔

جو کروں بیاں صبحِ سرد کی
کیا چیز بیاں کروں؟

وہ ملیں مجھے اب نقاب میں
ہیں نظر میں وہ فرد فرد کی

یعنی اگر اب وہ نقاب میں ملے تو ان کی خیر نہیں ؟​


تھی جو مختصر سی مری حیات
تیرے گِرد اُڑا کے ہی گَرد کی

حیات اور گرد کی مناسبت واضح نہیں ہے۔

میری داستاں یوں ہوئی ختم
جب ہتھیلی تو نے وہ زرد کی

یعنی ہتھیلی سرخ کی؟؟

میرے ساتھ ہے میری شاعری
جو ہے ترجماں میرے درد کی
یہ مضمون ہزاروں مرتبہ باندھا جا چکا ہے اس لیے نئے پیرائے کا محتاج ہے۔

مشق جاری رکھیں۔
یہ میری ابتدائی کاوشوں میں سے ایک ہے۔ جی آپ نے درست فرمایا۔ ابھی بہت محنت درکار ہے۔

چند وضاحتیں کچھ اس طرح سے ہیں۔
ختم کا اصل لفظ ت ساکن کے ساتھ ہی ہے۔ آپ نے بالکل بجا فرمایا لیکن لغت میں متغیرات میں ت زبر کے ساتھ بھی ملتا ہے۔ کیا زبر کے ساتھ اس کا استعمال جائز نہیں؟ آپ کی رہنمائی درکار ہے۔
کچھ شاعروں نے بھی اسے ت زبر کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ ایک شعر جس کے شاعر کا نام معلوم نہیں کچھ اس طرح سے ہے۔

شعر کہنا ختم، گنگنانا ختم
تیری محفل میں اب آنا جانا ختم

اب یہاں ختم جو مجھ ناقص العقل کی سمجھ میں آیا ہے کہ ت زبر کے ساتھ ہے۔ آپکی رہنمائی درکار ہے۔

جو کروں بیاں صبحِ سرد کی
اس سے مقصود اپنی محبت کا مختصر لمحہ ہے جسے صبحِ سرد سے تشبیہ دی ہے یعنی زندگی کا وہ دور جو اس سے محبت میں گزرا ہے ایک مختصر سی صبح کی مانند ہے جس میں اب دھوپ نے گرمی پیدا کر دی ہے اب اور اس سے پہلے کی زندگی ایک تاریک رات کی مانند تھی۔

وہ ملیں مجھے اب نقاب میں
ہیں نظر میں وہ فرد فرد کی

یعنی اب وہ لوگوں کی نظر میں ہیں اس لئے جب بھی مجھ سے ملنے کے لئے نکلا کریں تو نقاب کر لیا کریں تاکہ کوئی انہیں پہچان نہ سکے۔

تھی جو مختصر سی مری حیات
تیرے گِرد اُڑا کے ہی گَرد کی

تم سے پہلے میں ایک مٹی کی مانند تھا تم نے مجھے اپنے پاؤں سے گرد کی مثل اڑایا اور پھر چلے گئے۔ یہ میرا خیال ہے واللہ عالم شعر اس پر فٹ بیٹھتا ہے یا نہیں۔ یہاں پر بھی آپکی رہنمائی درکار ہے۔

آخری شعر کے بارے میں آپ کے خیالات سے مکمل اتفاق ہے۔ دوسری بات یہ غزل ایک ابتدائی دور کی ہے محض اس لئے پوسٹ کی کہ مستقبل میں پرانی غلطیوں کو دہرایا نہ جا ئے۔

آپکی اصلاح کا بہت شکریہ۔ تاہم اس پر ابھی بھی مزید رہنمائی درکار ہے آپ کی۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا۔​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top