اکمل زیدی
محفلین
سب کو سلام
بعد از سلام بغیر تمہید ایک چھوٹا سا واقعہ کہ ابھی دو چار دن پہلے گذرا لکھ تو اسی دن دیتے مگر کچھ مصروفیات آڑے آگئیں ابھی بات نکلی تو سوچا آپ سے بھی شئیر ہو جائے۔۔
۔۔آج کل مغرب کی نماز کا ٹائم کچھ یوں ہو رہا ہے کہ جہاں ٹائم ہو جاتا ہے وہیں پر جو مسجد نظر آتی ہے بس بغیر کچھ سوچے اس میں داخل ہو جاتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ نماز اول وقت میں ادا ہو جائے ایسا ہی اس دن ہوا ایک مسجد میں داخل ہوئے نماز کی ادائیگی کے بعد اچانک نظر پڑی ہمارے ایک محلے کے ایک صاحب (باقر بھائی ) نظر آگئے پہلے تو ایک ترک اولیٰ سا خیال ذہن میں آیا کہ چھوڑیں نکل چلیں نظر بچا کہ مگر پھر اچا نک ایک آواز ابھری اکمل صاحب کیا پتہ خدا نے ان کا انتظام کیا ہو آپ کے توسط سے کہ ان کے جانے کی سبیل ہو جائے اور آج یہ بسوں کے دھکے نہ کھائیں تو آپ کیوں اس نیکی کا موقع گنواتے ہیں بس یہ سوچ کر نماز تمام کی ارادہ بن چکا تھا کے ان کو لیتے ہوئے نکلیں گے ساتھ میں سوچا چلو سرپرائز دینگے انہیں تعقیبات اور دعا سے فارغ ہونے دیں پھر ہم اچانک ہم ان کے سامنے آجائینگے اور تاں کر دینگے باقر بھائی نہال ہو جائینگے یہی سوچ کر ہم باہر آگئے اور ان کا ویٹ کرنے لگے مسجد کے سائیڈ میں لوہے کی گرل لگی ہوئی تھی وہیں سے وہ ہماری نظر میں تھے ہمیں دیر بھی ہو رہی تھی مگر چونکہ خیال مستحکم ہو چکا تھا کے اب تو کچھ بھی ہو جائے اب تو لے کر ہی جائینگے۔
وقت گذرتا رہا ہم انتظار کرتے رہے ان کی دعائیں لمبی ہوتی گئیں میں نے ایکبار زچ ہو کر سوچا بھی جا کر کہہ دیں آپ کی کم از کم ایک دعا تو پوری ہو گئی ہے اور ہماری صورت خدا نے آپ کا بندوبست کردیا ہے گھر تک کا مگر باقر بھائی خدا سے لو لگائے بے خبر مشغول رہے پھر ایک صاحب ان کے پاس آکر کچھ گفتگو کرنے لگے وہ ان سے باتوں میں لگ گئے شاید حالات حا ضرہ پر گفتگو چھڑ گئی تھی مگر انہیں ہماری حالت کا قطعی اندازہ نہیں تھا اب ہمارا سرپرائز دینے کا ولولہ ٹھنڈا پڑ چکا تھا اب بس ہم نے چاہا کے کر انہیں سامنا تو کرا دیں تاکہ وہ جلد سے جلد فارغ ہوں باتوں سے اور باقی ماندہ دعاوں سے پھر ہم نے سوچا چلو کچھ دیر اور دیکھ لیں جہاں اتنی دیر ہو گئی ۔۔اب ہمیں اکتاہٹ سی ہونے لگی راستے میں جو لینا تھا وہ بھی پوسٹ پونڈ کر چکے تھے ہم کے بعد میں لے لینگے یہ سب سوچ رہے تھے اور نظر وہیں پر جمیں تھیں پھر ہمیں کچھ اطمیناں کا احساس ہوا کہ بات آخری مرحلوں میں ہے خیر وہ صاحب چلے گئے ۔۔۔ مگر ہمیں چکر سے آنے لگے کیونکے باقر بھائی پھر پوری طرح دعا میں مشغول ہو چکے تھے ادھر ہمارے صبر کا پیمانہ پوری طرح لبریز ہو چکا تھا اس سے قبل کے وہ چھلک پڑتا ہم نے فوری فیصلہ ان کے سامنے آنے کا کیا اور سوچا جو گذری وہ تو نہیں بتائینگے مگر بہر حال اپنی وہاں موجودگی آشکار کر دینگے ۔۔۔یہ سوچ کر ہم نے ان کی سمت قدم بڑھا دیے اور زور دار سلام جھاڑا انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھا ہمارے تیز اور تند لہجے کو انہوں نے گرم جوشی پر محمول کیا اور خود بھی گرم جوشی سے معانقہ کیا اور وہاں ہمیں دیکھ کر بہت خوشی کا اظہار کیا ہم نے پھر باقی ادھر ادھر کی باتوں اور خیر خیریت کے بعد ان سے پوچھا کب تک فراغت ہو گی تاکہ ساتھ لے کر چلوں تو انہوں نے بڑے پر خلوص انداز میں میرے پوچھنے کا شکریہ ادا کیا اور پھر دھماکہ کیا یعنی فرمایا کہ میں تو فیملی کے ساتھ سامنے بھائی کے گھر پر آیا ہوا ہوں ایک تقریب تھی اور ان کے ساتھ ہی لیٹ نائٹ جاونگا ۔۔۔ قبل اس کے کہ ہمارے آنسو نکل پڑتے جلدی ان سے اجازت چاہی ۔۔۔۔اور سارے راستے سمجھ نہیں آیا کے زور زور سے ہنسوں یا روؤں۔۔۔۔
بعد از سلام بغیر تمہید ایک چھوٹا سا واقعہ کہ ابھی دو چار دن پہلے گذرا لکھ تو اسی دن دیتے مگر کچھ مصروفیات آڑے آگئیں ابھی بات نکلی تو سوچا آپ سے بھی شئیر ہو جائے۔۔
۔۔آج کل مغرب کی نماز کا ٹائم کچھ یوں ہو رہا ہے کہ جہاں ٹائم ہو جاتا ہے وہیں پر جو مسجد نظر آتی ہے بس بغیر کچھ سوچے اس میں داخل ہو جاتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ نماز اول وقت میں ادا ہو جائے ایسا ہی اس دن ہوا ایک مسجد میں داخل ہوئے نماز کی ادائیگی کے بعد اچانک نظر پڑی ہمارے ایک محلے کے ایک صاحب (باقر بھائی ) نظر آگئے پہلے تو ایک ترک اولیٰ سا خیال ذہن میں آیا کہ چھوڑیں نکل چلیں نظر بچا کہ مگر پھر اچا نک ایک آواز ابھری اکمل صاحب کیا پتہ خدا نے ان کا انتظام کیا ہو آپ کے توسط سے کہ ان کے جانے کی سبیل ہو جائے اور آج یہ بسوں کے دھکے نہ کھائیں تو آپ کیوں اس نیکی کا موقع گنواتے ہیں بس یہ سوچ کر نماز تمام کی ارادہ بن چکا تھا کے ان کو لیتے ہوئے نکلیں گے ساتھ میں سوچا چلو سرپرائز دینگے انہیں تعقیبات اور دعا سے فارغ ہونے دیں پھر ہم اچانک ہم ان کے سامنے آجائینگے اور تاں کر دینگے باقر بھائی نہال ہو جائینگے یہی سوچ کر ہم باہر آگئے اور ان کا ویٹ کرنے لگے مسجد کے سائیڈ میں لوہے کی گرل لگی ہوئی تھی وہیں سے وہ ہماری نظر میں تھے ہمیں دیر بھی ہو رہی تھی مگر چونکہ خیال مستحکم ہو چکا تھا کے اب تو کچھ بھی ہو جائے اب تو لے کر ہی جائینگے۔
وقت گذرتا رہا ہم انتظار کرتے رہے ان کی دعائیں لمبی ہوتی گئیں میں نے ایکبار زچ ہو کر سوچا بھی جا کر کہہ دیں آپ کی کم از کم ایک دعا تو پوری ہو گئی ہے اور ہماری صورت خدا نے آپ کا بندوبست کردیا ہے گھر تک کا مگر باقر بھائی خدا سے لو لگائے بے خبر مشغول رہے پھر ایک صاحب ان کے پاس آکر کچھ گفتگو کرنے لگے وہ ان سے باتوں میں لگ گئے شاید حالات حا ضرہ پر گفتگو چھڑ گئی تھی مگر انہیں ہماری حالت کا قطعی اندازہ نہیں تھا اب ہمارا سرپرائز دینے کا ولولہ ٹھنڈا پڑ چکا تھا اب بس ہم نے چاہا کے کر انہیں سامنا تو کرا دیں تاکہ وہ جلد سے جلد فارغ ہوں باتوں سے اور باقی ماندہ دعاوں سے پھر ہم نے سوچا چلو کچھ دیر اور دیکھ لیں جہاں اتنی دیر ہو گئی ۔۔اب ہمیں اکتاہٹ سی ہونے لگی راستے میں جو لینا تھا وہ بھی پوسٹ پونڈ کر چکے تھے ہم کے بعد میں لے لینگے یہ سب سوچ رہے تھے اور نظر وہیں پر جمیں تھیں پھر ہمیں کچھ اطمیناں کا احساس ہوا کہ بات آخری مرحلوں میں ہے خیر وہ صاحب چلے گئے ۔۔۔ مگر ہمیں چکر سے آنے لگے کیونکے باقر بھائی پھر پوری طرح دعا میں مشغول ہو چکے تھے ادھر ہمارے صبر کا پیمانہ پوری طرح لبریز ہو چکا تھا اس سے قبل کے وہ چھلک پڑتا ہم نے فوری فیصلہ ان کے سامنے آنے کا کیا اور سوچا جو گذری وہ تو نہیں بتائینگے مگر بہر حال اپنی وہاں موجودگی آشکار کر دینگے ۔۔۔یہ سوچ کر ہم نے ان کی سمت قدم بڑھا دیے اور زور دار سلام جھاڑا انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھا ہمارے تیز اور تند لہجے کو انہوں نے گرم جوشی پر محمول کیا اور خود بھی گرم جوشی سے معانقہ کیا اور وہاں ہمیں دیکھ کر بہت خوشی کا اظہار کیا ہم نے پھر باقی ادھر ادھر کی باتوں اور خیر خیریت کے بعد ان سے پوچھا کب تک فراغت ہو گی تاکہ ساتھ لے کر چلوں تو انہوں نے بڑے پر خلوص انداز میں میرے پوچھنے کا شکریہ ادا کیا اور پھر دھماکہ کیا یعنی فرمایا کہ میں تو فیملی کے ساتھ سامنے بھائی کے گھر پر آیا ہوا ہوں ایک تقریب تھی اور ان کے ساتھ ہی لیٹ نائٹ جاونگا ۔۔۔ قبل اس کے کہ ہمارے آنسو نکل پڑتے جلدی ان سے اجازت چاہی ۔۔۔۔اور سارے راستے سمجھ نہیں آیا کے زور زور سے ہنسوں یا روؤں۔۔۔۔