عاطف بٹ
محفلین
جو ہماری نہیں تھی، سر وہ مصیبت نہیں لی
شہر تیار تھا پر ہم نے ہی بیعت نہیں لی
جو میسر تھا لٹاتے رہے سرشاری میں
اہلِ دنیا سے کسی چیز کی قیمت نہیں لی
یک بیک ٹوٹ گیا، چارہ گری سے پہلے
دلِ بیمار نے ہم سے کوئی خدمت نہیں لی
ہم نے جو کچھ بھی کیا عمرِ دو روزہ میں کیا
ابدیت کے لئے مرگ سے مہلت نہیں لی
چاہنے والوں نے میرے، مجھے چاہا تو بہت
پر کسی نے مری میراثِ طبیعت نہیں لی
اس گرانی کی سکت ہی مرے کاندھوں میں نہ تھی
بھول کر ہاتھ میں آبا کی وصیت نہیں لی
کچھ اگر لیں تو صلہ اس کا چکائیں کیسے
اسی مشکل میں رہے، کوئی سہولت نہیں لی
اک نگاہِ غلط انداز بھی دنیا پہ نہ کی
رشک تو دور، بہت دور ہے، عبرت نہیں لی
بے سبب مشقِ سخن سے ہے خموشی اچھی
حرف باطل ہیں اگر دل سے اجازت نہیں لی
شہر تیار تھا پر ہم نے ہی بیعت نہیں لی
جو میسر تھا لٹاتے رہے سرشاری میں
اہلِ دنیا سے کسی چیز کی قیمت نہیں لی
یک بیک ٹوٹ گیا، چارہ گری سے پہلے
دلِ بیمار نے ہم سے کوئی خدمت نہیں لی
ہم نے جو کچھ بھی کیا عمرِ دو روزہ میں کیا
ابدیت کے لئے مرگ سے مہلت نہیں لی
چاہنے والوں نے میرے، مجھے چاہا تو بہت
پر کسی نے مری میراثِ طبیعت نہیں لی
اس گرانی کی سکت ہی مرے کاندھوں میں نہ تھی
بھول کر ہاتھ میں آبا کی وصیت نہیں لی
کچھ اگر لیں تو صلہ اس کا چکائیں کیسے
اسی مشکل میں رہے، کوئی سہولت نہیں لی
اک نگاہِ غلط انداز بھی دنیا پہ نہ کی
رشک تو دور، بہت دور ہے، عبرت نہیں لی
بے سبب مشقِ سخن سے ہے خموشی اچھی
حرف باطل ہیں اگر دل سے اجازت نہیں لی