لیجئے حضرات گویا کہ اب فاخر بھی بزبان عامی سے گویا ہوتے ہوئے محفل کے قانونی بلوغت کے جشن میں حصہ ڈالنے کے لئے ہمیں دعوت جگت دے رہے ہیں ۔ دراصل ہم پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کو ایک موذی بیماری نے صدیوں سے پکڑا ہوا ہے وہ یہ کہ مذاق کرنے کے لئے ہم عموما دوسرے خاندان ، قبیلے ، جنس ، صوبے ، شہر ، گاؤں ، یا ملک کے لوگوں کو بطور مثال استعمال کرتے ہیں اور اس سے جو مزاح تخلیق کرتے ہیں وہ اپنے آپ میں ایک طرح سے نادیدہ طور سے زہریلا ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ اس نسل ، گاؤں ، شہر ، صوبے یا ملک سے ایسی نفرت اندر پل بڑھ کر جواں ہو جاتی ہے کہ آپ کو احساس ہی نہیں ہو پاتا۔مجھے اپنی حد تک کوشش کرنا ہے کہ ایسا مزاح پیدا کرنے میں مزید حصہ نہ ڈالوں
مزاح اصل میں کسی بھی بات ، عمل ، ماحول میں اچانک ایسی کسی تبدیلی سے پیدا ہونے والا اثر ہے جو خلاف توقع آپ کے دماغ کی رو کو ثقیل سے ایک دم لطیف حالت میں لے آئے اور اس اچانک عمل کے نتیجے میں اینڈورفین ہارمون پیدا ہوتا ہے جو ہماری باچیاں کھینچ کر ہمیں قہقہانے پر مجبور کرتا ہے یہ عمل الفاظ و حرکات میں سے کسی بھی صورت ہو سکتا ہے۔ آج کل ایسا میمز (Memes) کی صورت ہوتا ہے یہاں انگریزی کو اساس بنا کر میمز پڑھا جائے نہ کہ ہندی یا پنجابی والی یا اردو والی میم جس سے ہم گوری عورت مراد لیتے ہیں ۔
مثال :-
دانت میں درد کا احساس میرے سر کو چیرے جا رہا تھا ۔ محسوس ہوتا تھا کہ جیسے آج زندگی کا آخری دن ہے ۔ دل بار بار درد کی ہر لہر کے ساتھ یہ کہہ رہا تھا کہ مجھ سے ہفت اقلیم کی دولت لے لے مگر کوئی میرے دانت کی اس تکلیف کو ختم کر دے ۔ درد سے ایک آنکھ مکمل طور پر بند جبکہ دوسری نصف کھلی ہوئی تھی ۔ ایسے میں نرس عاشی بٹ جو نام کی طرح لحیم شحیم تو نہ تھی البتہ تتلی کے لاروے کی طرح سے نازک ضرور تھی جب ہمارا منہ کھلوانے میں ناکام رہی تو ہم نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا ۔ ارے یہ کیا عاشی کے ہاتھ میں طلسمی تاثیر تھی کہ اچانک دانت کا درد ہوا ہوا اور کانوں میں گھنٹیاں بجنے لگیں ۔اگرچہ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی لیکن آخری منظر ہمیں اچھی طرح یاد ہے عاشی کا ہاتھ ہمارے ہاتھ میں تھا ایک چبھن سی محسوس ہوئی ہمیں اپنے کولہے کے بیرونی جانب اور بس ۔ ۔ ۔ ۔
آنکھ کھلی تو منہ میں دانت نہیں اور ڈاکٹر نبیل ہمارے دندان مخلوعہ کو پیالی میں رکھے ظالمانہ مسکراہٹ سے ہماری طرف دیکھ رہا تھا ۔ تکیہ بھر روئی ہمارے منہ میں بھری ہوئی تھی اور پرچے پر دوائیں اور احتیاطیں لکھی ہوئی تھیں ۔ اس تمام کاروائی میں عاشی بٹ کے ہاتھ کے اس ایک لمس کی قیمت ہمیں بارہ ہزار روپے پڑی اور بل دیکھنے کے بعد ہمارے سینے میں ایک ٹیس سی اٹھتی چلی گئی ۔