فرخ منظور
لائبریرین
جگر کو تھام کے میں بزمِ یار سے اٹھا
ہر اک قرار سے بیٹھا ، قرار سے اٹھا
ہمارے دل نے وہ تنہا اٹھا لیا ظالم
ترا ستم ، جو نہ اک روزگار سے اٹھا
ہوا نہ پھر کہیں روشن ، یہ رشک تو دیکھو
کوئی چراغ جو میرے مزار سے اٹھا
شب فراق اجل کی بہت دعا مانگی
جگر میں درد بڑے انتظار سے اٹھا
ہوا ہے خون کی چھینٹوں سے پیرہن گلزار
ترے شہید کا لاشہ بہار سے اٹھا
ہمارے خط میں وو مضمونِ سرگرانی تھا
کہ ایک حرف نہ اس گل عذار سے اٹھا
تمہارے جھوٹ نے بے اعتبار سب سے کیا
کہ جیسے ایک سے اٹھا ، ہزار سے اٹھا
ان کی راہ گزر میں لگائے سو چکر
جو گرد باد ہماری غبار سے اٹھا
گلہ رقیب کا سن کر جھکی رہی آنکھیں
حجاب کیا نگہِ شرمسار سے اٹھا
ترس رہے تھے شرابی کہ انگلیاں اٹھیں
وہ ابر رحمتِ پروردگار سے اٹھا
کسی نے پائے حنائی جو ناز سے رکھا
بھڑک کے شعلہ ہمارے مزار سے اٹھا
رہی وہ حسرتِ دنیا کہ صبح محشر بھی
میں اپنے ہاتھوں کو ملتا مزار سے اٹھا
نہ چھوڑتا اگر ان کے قدم ، وہ کیوں جاتے؟
مگر نہ ہاتھ دلِ بے قرار سے اٹھا
وہ فتنہ ، فتنہ ہے وہ حشر ، حشر ہے یاربّ !
جو بزم یار سے ، جو کوئے یار سے اٹھا
تم اپنے ہاتھ سے دو پھول غیر کو چن کر
یہ داغ کب دلِ امیدوار سے اٹھا
عدو کی بزم میں دیکھو تو داغؔ کے تیور
ذلیل ہو کے بڑے افتخار سے اٹھا
داغ دہلوی
ہر اک قرار سے بیٹھا ، قرار سے اٹھا
ہمارے دل نے وہ تنہا اٹھا لیا ظالم
ترا ستم ، جو نہ اک روزگار سے اٹھا
ہوا نہ پھر کہیں روشن ، یہ رشک تو دیکھو
کوئی چراغ جو میرے مزار سے اٹھا
شب فراق اجل کی بہت دعا مانگی
جگر میں درد بڑے انتظار سے اٹھا
ہوا ہے خون کی چھینٹوں سے پیرہن گلزار
ترے شہید کا لاشہ بہار سے اٹھا
ہمارے خط میں وو مضمونِ سرگرانی تھا
کہ ایک حرف نہ اس گل عذار سے اٹھا
تمہارے جھوٹ نے بے اعتبار سب سے کیا
کہ جیسے ایک سے اٹھا ، ہزار سے اٹھا
ان کی راہ گزر میں لگائے سو چکر
جو گرد باد ہماری غبار سے اٹھا
گلہ رقیب کا سن کر جھکی رہی آنکھیں
حجاب کیا نگہِ شرمسار سے اٹھا
ترس رہے تھے شرابی کہ انگلیاں اٹھیں
وہ ابر رحمتِ پروردگار سے اٹھا
کسی نے پائے حنائی جو ناز سے رکھا
بھڑک کے شعلہ ہمارے مزار سے اٹھا
رہی وہ حسرتِ دنیا کہ صبح محشر بھی
میں اپنے ہاتھوں کو ملتا مزار سے اٹھا
نہ چھوڑتا اگر ان کے قدم ، وہ کیوں جاتے؟
مگر نہ ہاتھ دلِ بے قرار سے اٹھا
وہ فتنہ ، فتنہ ہے وہ حشر ، حشر ہے یاربّ !
جو بزم یار سے ، جو کوئے یار سے اٹھا
تم اپنے ہاتھ سے دو پھول غیر کو چن کر
یہ داغ کب دلِ امیدوار سے اٹھا
عدو کی بزم میں دیکھو تو داغؔ کے تیور
ذلیل ہو کے بڑے افتخار سے اٹھا
داغ دہلوی