محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
بہت ہی عمدہ کلام ہے
مصقل کا کیا مطلب ہوا
صیقل کرنا سے اسمِ مفعول ہے شاید۔ یعنی چمکائی ہوئی تلوار۔ وللہ اعلم
بہت ہی عمدہ کلام ہے
مصقل کا کیا مطلب ہوا
وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ ۔ شاہ صاحب بہت شکریہ !! بہت ممنون ہوں پذیرائی کے لئے ! اللہ آپ کو سلامت رکھے ، شاد و آباد رکھے !
یاس بھائی ، بخدا میں نے اس میں کسی (کی) طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ۔ اشارے کرنا تو ۱۹ اکتوبر ۱۹۹۰ کے بعد سے ترک کرچکا ہوں ۔
ان دو مصرعوں میں شب کی علامت کے حوالے سےایک حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے ۔ شب ہر ایک پر گزرتی ہے اور اس سے گزرنےوالا یقیناً صبح کی آرزو رکھتا ہے اور اس کے لئے جدوجہد بھی کرتا ہے ۔ اس جدو جہد کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے دل میں یقینِ صبح ایک لمحے کے لئے بھی متزلزل نہ ہو اور آفتابِ صبح ہمیشہ تصور میں روشن رہے ۔ اگر کبھی بے یقینی اور مایوسی کا ایک لمحہ بھی دل پر طاری ہوجائے تو وہ بے نور و بے یقین لمحہ تقویمِ شب میں ساعتِ فیصل ثابت ہوتا ہے یعنی شب کا مقدر طے کردیتاہے ۔ بس اتنی سی بات ہے ۔ مقصد یہ کہ ایک لمحے کے لئے بھی مایوسی اور نامیدی تمام جدوجہد کو ناکام کرسکتی ہے ۔
میری رائے میں اس شعر کی شعریت اور معنویت اس کے التزامِ رعایات میں ہے ۔ اگر آپ اب بھی اس تک نہ پہنچ پائیں تو حکم دیجئے گا میں دوبارہ حاضرِ خدمت ہوجاؤں گا ۔
جیسا کہ عبید بھائی کے نام مراسلے میں بھی اوپر عرض کیا کہ یہ ایک طویل بحث ہے (اور میرے پسندیدہ موضوعات میں سے بھی ہے)۔ بدقسمتی سےاس وقت نہ تو اتنا وقت میسر ہے کہ اس بحث کو شروع کیا جائے اور نہ ہی اتنی ہمت کہ اس کو سمیٹا جاسکے ۔ یہ بحث اردو لسانیات کے اہم ترین اور قدیم ترین مباحث میں سے ایک ہے ۔ میرا ایک مشورہ آپ کے لئے یہ ہے کہ اگر آپ نے ڈاکٹر عصمت جاوید کی کتاب " اردو پر فارسی کے لسانی اثرات " نہیں پڑھی ہے تو پہلی فرصت میں دیکھ لیجئے ۔ مجھے امید ہے کہ ایک دفعہ شروع کرنے کے بعد آپ ختم کئے بغیر نہیں رکھیں گے ۔ یہ دراصل ڈاکٹر صاحب کا پی ایچ ڈی مقالہ ہے جو انہوں نے ۱۹۷۳ میں اورنگ آباد یونیورسٹی میں پیش کیا تھا ۔ اس موضوع پر اس سے بہتر اور جامع تر کتاب کا تصور محال ہے ۔ (میرے پاس پی ڈی ایف کی شکل میں موجود ہے اگر نیٹ پر نہ مل سکے تو میں ان شاءاللہ ایمیل سے بھیج دوں گا ۔ ) مختصراً یہ عرض کرتا ہوں کہ عملِ تارید ( یعنی غیر اردو الفاظ کا اردو میں ڈھل جانا) تو ایک فطری عمل ہے اور نسلوں پر محیط ہوتا ہے ۔ کسی ایک مخصوص عربی یا فارسی لفظ کے بارے میں یہ بتانا کہ اس کا تلفظ یا معنی کب تبدیل ہوئے تو بہت مشکل ہے ۔ بس یہ جاننا کافی ہے کہ یہ ایک مسلسل اور سست عمل ہے جو فطری طور پر واقع ہوا ۔ فرہنگِ آصفیہ اردو کی اولین لغات میں سے ایک ہے اور اس کا عرصۂ تالیف ۱۸۶۸ سے لیکر ۱۸۹۸ تک کا ہے ۔ جبکہ نوراللغات پہلی دفعہ ۱۹۱۷ میں طبع ہوئی ۔
اردو میں عربی الفاظ یا تو براہِ راست عربی سے داخل ہوئے یا پھر براستہ فارسی ۔ ان عربی الفاظ میں تغیر کی کئی صورتیں ہیں ۔ ایک تو یہ کہ لفظ جوں کا توں رہا ۔ نہ معنوں میں تغیر ہوا نہ تلفظ میں ۔ دوسری صورت یہ رہی کہ معنی تبدیل ہوگئے ۔ اس کی بے شمار مثالیں ہم سب جانتے ہیں ۔ تیسری صورت تصرف کی یہ ہوئی کہ تلفظ تبدیل ہوگیا ۔ یہ آخری صورت عربی کے ساکن الاوسط سہ حرفی الفاظ کے ساتھ بالخصوص پیش آئی ۔ چونکہ اردو کا خمیر اور مزاج اصلاً بھاشا اور سنسکرت کا ہے اسلئے اکثر ساکن الاوسط الفاظ متحرک الاوسط بولے گئے ۔ عام بول چال میں تو ایسے الفاظ ہزاروں ہیں لیکن ان میں سے محض گنے چنے الفاظ ہی علمی و ادبی حلقوں میں قبولیت پاسکے ۔ ان کی چند مثالیں یہ ہیں : کسب ، جرح ، حلف، حمل ، صفر، غبن ، نفل ، لحد وغیرہ وغیرہ ۔ یہ مذکورہ الفاظ دونوں تلفظات کے ساتھ اردو میں ملتے ہیں ۔ اس بارے میں میرا موقف یہ ہے کہ جہاں جہاں یہ رعایت ملتی ہے اسے لے لیا جائے ۔ میں نے اپنے اشعار میں کسب کو ساکن الاوسط بھی باندھا ہے : مثلا
مشغلہ کسبِ ہنر پہلے کبھی ہوتا تھا
بیچنا علم و ہنر اب ہے ذریعہ اپنا
کسبِ ہنر و اکلِ ضرورت کے سلسلے
طے ہوچکے سبھی ہمیں آنے دو اپنے پاس
اس کا یہ مطلب قطعی نہ لیاجائے کہ جن الفاظ کو اس دوہرے تلفظ کی سند میسر نہیں ان سب کو متحرک الاوسط بنادیا جائے۔ فی الحال جہاں جہاں اجازت ہے اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کسی بڑے شاعر نے کسب کا یہ تلفظ استعمال نہیں کیا تو اس سلسلے میں مجھے بارش کا پہلا قطرہ سمجھ لیجئے ۔ آج مجھ جیسے کسی مبتدی نے استعمال کیا ہے تو عین ممکن ہے کل کلاں کوئی بڑا شاعر بھی اسے استعمال کرلے ۔ عوامی تلفظ اور ادبی تلفظ میں امتیاز کی یہ بحث گرچہ ڈیڑھ صدی پر محیط ہے اورتاریدکے اس عمل کوبڑے بڑے علماء اور ادباء کی حمایت بھی حاصل رہی ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے ڈاکٹر عصمت جاوید کی محولہ بالا کتاب) لیکن عموماً یہ زبانی تائید عملی تائید کی شکل اختیار نہ کرسکی ۔ یعنی یہ عمائدین اصولی طور پر تو قائل ہوگئے اوراس موقف کی پرزور وکالت بھی کرتے رہے لیکن چند ایک کے علاوہ انہوں نے خود اپنی تحریروں میں ان الفاظ کو استعمال نہین کیا۔ بدقسمتی سے یہ روش اب بھی جاری ہے ۔ فارسی اضافت اور واؤ عطف بھی اس دورخی رویے کی مثالیں ہیں ۔ بہت سارے ماہرینِ زبان اور ماہرینِ لسانیات قائل ہیں کہ واؤ عطف کے ذریعے ہندی الاصل لفظ کو فارسی عربی لفظ سے جوڑنا اور فارسی ترکیبِ اضافی میں استعمال کرنا معیوب نہیں بشرطیکہ صوتی طور پر گراں نہ ہو ( یعنی وہ ہندی لفظ ٹ، ڈ، ڑ ، ٹھ، ڈھ، ڑھ، گھ ، چھ وغیرہ کی صوتی ثقالت سے مبرا ہونا چاہئے )۔ ویسے تو بہت سارے لوگ اس اصول کی وکالت کرتے ہیں لیکن انہیں اپنی تحریروں میں استعمال کم کم لوگ ہی کرتے ہیں ۔ (شان الحق حقی ان چند استعمال کرنے والوں میں سے ایک بڑا نام ہیں )۔ اس خاکسار کا ایک شعر دیکھئے:
دل کے ٹوٹے آئنے میں عکس ہے اک خواب کا
قیدِ رنگ و روپ سے اُس کو رہا کیسے کروں
کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ اردو نہیں ہے؟ مختصراً یہ کہ زبان زندہ اور جیتی جاگتی شے ہے ۔ اس میں تغیر لازمی ہے ۔ اور یہ تغیر فطری اور بہت ہی سست رفتار ہوتا ہے ۔ (تغیر اس پر تھوپا نہیں جاسکتا ) ۔ زبانوں کی زندگی میں صدیاں ہفتوں اور مہینوں کی طرح ہوتی ہیں ۔ سو ہمار ا جو کام ہے ہم کئے جائیں گے ۔ جو کام وقت کا ہو وہ وقت کئے جائے گا ۔ نتیجہ کس نے دیکھا ہے ۔
شاہ صاحب ، اگر اس ضمن میں میر ی طرف سے مزید کوئی تحریر نہ آئے تو پیشگی معذرت ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا اس پر باتیں تو بہت ہوچکیں ۔ اب عمل کا وقت ہے ۔
یاسر بھائی ، میں نے ڈھونڈا تو مجھے یہ ربط ملا ہے ۔ اسے دیکھ لیجئے ۔میں نے آپ کی مجوزہ کتاب پڑھنی ہے - انٹرنیٹ پر تلاش سے تو نہ مل سکی اگر لنک ہو تو ارسال کر دیجئے- عنایت ہوگی -
طالب دعا