جھرنوں کی بات کیجئے گاگر اُچھالئے - سید انجم کاظمی

کاشفی

محفلین
غزل
(سید انجم کاظمی)

جھرنوں کی بات کیجئے گاگر اُچھالئے
رسموں کو توڑ تاڑ کے ساغر اُچھالئے

الفت کے پھول توڑئیے در در اُچھالئے
پیغام روشنی کا یہ گھر گھر اُچھالئے

آنکھیں لگیں ہیں شہر کی کچھ معجزہ سا ہو
حرفِ دعائے خاص کے گوہر اُچھالئے

رائج ہیں شہرِ فن میں بلندی کے کچھ اُصول
اک شے تو آپ قد کے برابر اُچھالئے

خلقت ہے عام کردے گی سو سو کہانیاں
اشکوں کی آڑ لے کے نہ منظر اُچھالئے

تعبیر سو رہی ہے مقدر کو اوڑھ کر
خالی ہوا میں‌خواب کے پیکر اُچھالئے

ساحل سے دور کس لئے تنہا کھڑے ہیں آپ
پانی کے پاس بیٹھئے کنکر اُچھالئے

خاموش رتجگے تو تھکن کا پیام ہیں
دل میں چھپا ہوا ہے سمندر اُچھالئے

ٹوٹے سکوتِ شام کا آخر یہ سلسلہ
جو بھی ہے دسترس میں وہ ہنس کر اُچھالئے

دہرا رہے آپ سے ہم پھر وہی سوال
اک قہقہہ فضا میں ستمگر اُچھالئے

شامِ حسیں کو آج بنانا ہے بے مثال
اپنی ادائے ناز کے جوہر اُچھالئے

ردِعمل عمل سے ہے ہر حال میں سِوا
ہر چیز آپ سوچ سمجھ کر اُچھالئے

انجم کو زخم کھانے کا خاصہ ہے تجربہ
اُس کی طرف نہ دیکھئے پتھر اُچھالئے
 
Top