سیدہ سارا غزل
معطل
جھلستی دوپہر میں تو نے انسان کو بچایا ہے
تو پھر اس میں غلط کیا ہے کہ تو رحمت کا سایہ ہے
٭
دلوں کو جوڑ کر تو نے محبت کی طرح ڈالی
مٹا کر غیریت کو پیار کا جادو جگایا ہے
٭
ترے نقشِ کفِ پا نے سرِ صحرائے بے پایاں
جو رستہ بھول بیٹھے تھےانہیں رستہ دکھایا ہے
٭
جہاں ڈوبا ہوا تھا خامشی کے اک سمندر میں
تری آواز کی ہر موج نے طوفاں اٹھایا ہے
٭
تری ضو سے چمک اٹھی جبینِ آدمِ خاکی
تو وہ خورشید ہے جو تیرگی میں مسکرایا ہے
٭
سکھایا ہے تجھی نے زندگی کا ڈھنگ عالم کو
چراغِ رہگذر ایسا یہاں کس نے جگایا ہے
٭
غزلؔ میں اس کی شانِ دلبری تجھ کو بتاؤں کیا
زمانے میں تھے ہم کافر ہمیں مومن بنایا ہے
٭
سیدہ سارا غزلؔ ہاشمی