جھوٹے ہی جھوٹے - مستنصر حسین تارڑ

Dilkash

محفلین
جھوٹے ہی جھوٹے
مصتنصر حسین تارڑ

اب تو خیر سے زمانہ بے حد ’’ تہذیب یافتہ‘‘ اور نفیس ہو گیا ہے، لوگ اپنے ناموں کی تراش خراش کر کے انہیں نہایت دل پذیربنا لیتے ہیں.... اگر شومئی قسمت والدین نے کوئی ایسا نام رکھ دیا ہے جو ان کے نزدیک قدرے قدامت زدہ اور بیک ورڈ ہے تو وہ اسے بھی کانٹ چھانٹ کر اپنے تئیں معزز بنالیتے ہیں.... اور کچھ نہ ہو تو کوئی لاحقہ جوڑ کر ذرا ماڈرن ہو گئے....صحرائی ، حجازی ، تاشقندی ، بغدادی یا ایرانی ہو گئے....

اس دوران دیسی ناموں کی خوب شامت آئی.... خاص طور پر اللہ رکھا ، اللہ دتہ یا محمد بوٹا نوعیت کے ناموں کی.... یہ سب فوری طو رپر اے آر ، اے ڈی اور ایم بی ہو گئے اور کوئی مترنم سا ماڈرن نام ان کے ساتھ نتھی کرلیا یعنی اے آر نسیم ، اے ڈی اظہر ، یا ایم بی تبسم وغیرہ.... آسکر ایوارڈ یافتہ موسیقار اے آر رحمان بھی دراصل اللہ رکھا رحمان ہیں.... لیکن انکم ٹیکس کے ایک افسر اور ادیب ایسے تھے جنہوں نے اپنے نام محمد بوٹا کو ماڈرن نہیں کیا ریٹائرمنٹ تک سیدھے سادے محمد بوٹا ہی رہے....

ایک بار میں نے ان سے پوچھا کہ حضرت آپ اتنے بڑے عہدے پر فائز رہے اور پھر بھی ایم بی کیوں نہ ہو گئے.... کہنے لگے تارڑ صاحب میرے والدین کو بہت آرزو تھی کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو .... اس خواہش کیلئے بہت منتیں مانیں، دعائیں کیں، مزاروں پر حاضریاں بھریں اور پھر ایک عرصے کے بعد ان کی آرزو اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی اور میں پیدا ہوا.... ان کا یقین کامل تھا کہ یہ عنایت ان پر ہمارے آقا محمدؐ کی جانب سے ہوئی ہے چنانچہ انہوں نے میرا نام محمد بوٹا رکھا.... وہ بوٹا جو محمدؐ نے لگایا تو میں اتنے محترم نام کو ایم بی میں بدلنے کی جسارت کیسے کر سکتا تھا....

یہ توجیہہ سن کر میری عجیب حالت ہوئی اور احساس ہوا کہ محمد بوٹا یوں دیکھا جائے تو کیسا بابرکت اور خوبصورت نام ہے.... اللہ دتہ اور اللہ رکھا بھی کیسے بامعنی اور پاکیزہ نام ہیں اور ہم ان سے اجتناب برتتے ہیں....پھر ایک اور زمانہ ایسا تھا کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی اور اپنی ڈگری کو نام کا حصہ بنالینا محترم ٹھہرتا تھا ....مثلاً ایک بہت جانے پہچانے لکھنے والے شبلی بی کام ہوا کرتے تھے.... والد صاحب ان کا تذکرہ کرتے ہوئے ہمیشہ ہنس دیتے تھے کہ بے چارے نے بعد میں ایم کام کرلیا شبلی ایم کام لکھنا شرو ع کر دیا لیکن عوام الناس انہیں شبلی بی کام ہی لکھتے رہے.... اسی طرح ایک ادیب احسان بی اے بھی ہوا کرتے تھے....

ناموں کے ساتھ ذات پات، تخلص یا تعلیم کے علاوہ پیشے بھی نتھی ہو جایا کرتے تھے.... میرے بچپن کے دوست نثار آرٹ پریس کے شیخ نوازش علی نے ایک تحقیقی کتاب نارووال کے خواجہ حضرات کے بارے میں لکھی ہے کہ وہ کیسے نارووال سے اٹھ کر کاروبار کیلئے لاہور آئے اور اپنا مقام بنایا اور نامور ہوئے....اس دوران ان میں سے بیشتر کے نام پس منظر میں چلے گئے اور ان کے پیشے ان کی پہچان بن گئے.... مثلاً سوت والے ، چابیاں والے ، سموسے والے ، گول ٹافی والے ، قلفی والے ، پانڈی ، قلعی والے ، لڈوؤں والے ، پھولوں والے ، بوٹوں والے ، مہندی والے ، گھڑی ساز ، فالودہ والے ، شیشہ گر اور باداموں والے وغیرہ....

ادھر ہمارے جاٹ قبیلے میں سوائے کاشتکاری کے دوسرے تمام پیشوں کو حقیر سمجھا جاتا ہے یعنی خدا وہ وقت نہ لائے جب ایک جاٹ سموسے یا فالودہ بیچ رہا ہو چاہے بھوکا مر جائے.... علاوہ ازیں ایک زمانے میں جاٹ حضرات تعلیم حاصل کرنا بھی نہایت معیوب سمجھتے تھے کہ لڑکا پڑھ کر آخر کرے گا کیا.... لالوں کی طرح ہٹی کرے گا یا ڈاکخانے کے باہر بیٹھ کر لوگوں کے خط لکھ کر روزی کمائے گا.... بہرطور دیہات میں بھی نہ صرف افراد بلکہ خاندانوں کے ناموں کے ساتھ بھی کوئی نہ کوئی ’’تخلص‘‘ لگا دیا جاتا ہے ، چونکہ ان زمانوں میں ایک گاؤں کے افراد صدیوں سے اکٹھے رہتے چلے آتے تھے اس لئے ایک دوسرے کے خاندانوں سے بھی مکمل واقفیت رکھتے تھے کہ اچھا یہ وہ لڑکا ہے جس کے دادا جان اللہ بخشے قتل کے مقدمے میں پھانسی پاگئے تھے یا ماشاء اللہ آپ کے تو آباؤ اجداد مویشی چوری کرنے میں چیمپئن ہوا کرتے تھے.... یعنی کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں ہوتا تھا....

ایک بزرگ تھے انہیں طوطے پالنے کا جنوں تھا.... آخری عمر میں کنویں پر چلے گئے اور طوطوں سے باتیں کرتے کرتے راہی ملک عدم ہو گئے.... انہیں طوطا جی کے نام سے پکارا جاتا تھا.... آج ان کی آل اولاد سب طوطا جی کہلاتی ہے.... یعنی چوہدری کرامت طوطا جی....محمد حسین طوطا جی وغیرہ....اور وہ اس پہچان پر فخر کرتے ہیں....طوطا جی ٹرانسپورٹ ، طوطا جی کولڈ سٹوریج ، طوطا جی کاٹن فیکٹری.... ان کے اس فخر کی دلیل ہیں ۔ دور کیا جانا میرے اپنے نہایت قریبی عزیز بلکہ نہایت پیارے بہنوئی صاحب ’’ گھیگھے‘‘ ہیں نام تو ان کا ذوالفقار گوندل ہے لیکن ذوالفقار گھیگھا کہلاتے ہیں....

تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ کوئی سو برس پیشتر ان کے کوئی بزرگ ایسے تھے جن کا گلا بیٹھا ہوا تھا اور ذرا گھگھیا کر بات کرتے تھے چنانچہ انہیں گھیگھے کے لقب سے یاد کیا جانے لگا.... اور آج ان کی آل اولاد سب کے سب گھیگھے .... اپنے خاندانی رہائشی کمپاؤنڈ کا نام گھیگھاہاؤس رکھا.... پھر گھیگھا فلور مل.... یہاں تک کہ گھیگھا برگر ہاؤس وغیرہ.... کینیڈا کے شہر مانٹریال میں میرا عزیز بھانجا شیث گھیگھا کہلاتا ہے اور فرانسیسی لڑکیاں اسے پیارسے پکارتی ہیں تو ان کی زبان میں بل پڑ جاتا ہے....

میرے ننھیال کے دور پار کے کچھ عزیز ہیں جو سب کے سب ’’ جھوٹے ‘‘ ہیں ان کے بچے بڑے سب کے سب جھوٹے.... اب ان کے بھی کوئی بزرگ تھے جنہوں نے دانستہ یا نادانستہ کوئی جھوٹ بول دیا تو برادری والوں نے انہیں جھوٹے کے عہدے پر فائز کر دیا.... آج ان کے خاندان کے بیشتر افراد اپنے آپ کو جھوٹا متعارف کروانے میں کچھ جھجھک نہیں سمجھتے .... بلکہ ان میں سے ایک صاحب نے بہت نام پایا.... ہم انہیں جمال دین کہہ سکتے ہیں.... موصوف ایک چادر اوڑھ کرچارپائی پر لیٹ جاتے تھے.... ان کا کوئی عزیز ٹیپ ریکارڈر پر انہیں کوئی نعت یا فلمی نغمہ سناتا تھا تو ان پر حال پڑ جاتا تھا اور وہ کسی اور جہاں میں چلے جاتے تھے اور وہاں انہیں گمشدہ اشیاء یا لوگ نظر آنے لگتے تھے ....

یہ حقیقت ہے کہ ان میں کوئی ایسی صلاحیت تھی جسے بروئے کار لا کر وہ گمشدہ زیورات، نقدی ، موٹر سائیکل ، ٹریکٹر اور بچے وغیرہ کا کھوج نکالتے تھے.... البتہ وہ اپنی خدمات کے عوض ڈاکٹروں کی مانند طے شدہ فیس لیتے تھے اور کاروبار اتنا تھا کہ اس آمدنی سے بے پناہ جائیداد بنالی.... میری امی جب کبھی گاؤں جاتیں تو کسی روز تیار ہو کر کہتیں .... میں آج بھائی جمال جھوٹے سے ملنے جا رہی ہوں....

ماضی کے یہ سب لوگ معصوم اور کھرے تھے.... کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی تھی تو اسے یاد دلاتے رہتے تھے تا کہ دوسرے احتیاط کریں.... صرف ایک جھوٹ بولنے پر پورا خاندان جھوٹا ہو جاتا تھا.... میں سوچتا ہوں کہ یہ جو آج کے معزز لوگ ہیں ، جاگیردار ، وڈیرے اور حکمران کیا ان کے آباؤ اجداد نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی تھی ، کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا کہ ان کے نام کے ساتھ کوئی لاحقہ نہیں....

یہ لاحقے ہوں گے لیکن یہ لوگ ان پر پردہ ڈال گئے .... انگریزوں کے بوٹ چاٹنے والے کم از کم آج اپنے نام کے ساتھ بوٹ چومنے والے.... انگریز کے کتے نہلانے والے.... دغا باز....چاپلوس وغیرہ کا اضافہ تو کرتے.... لوگوں کا رزق کھا جانے والے کم از کم گدھ تو کہلاتے.... چلئے اور کچھ نہ سہی یہ اعتراف تو کر لیتے کہ سب کے سب جھوٹے ہیں.... سیاست کے ، قیادت کے ، کاروبار کے ، حاکمیت اور مذہب کے.... سب کے سب جھوٹے.... جھوٹے ہی جھوٹے....
 

ساجد

محفلین
فیروز بھائی ، زبردست اقباس لیا ہے۔ تارڑ صاحب میرے پسندیدہ لکھاری ہیں۔
مکرمی مستنصر حسین تارڑ جس وقت کے جاٹ پہ نہ آنے کی خواہش کر رہے تھے وہ وقت تو جاٹ پہ کب سے آ چکا۔ ہمارے شہر میں فروٹ چاٹ ، بریانی اور سموسوں کی سب سے مشہور دکان جٹ برادری ہی کی ہے۔
 

Dilkash

محفلین
ھاھاھاھا
شکریہ ساجد بھائی۔
مصتنصر حسینتارڑ صاحب واقعی بہت ھی اچھے لکھاری ہے
 

طالوت

محفلین
بہت خوب لکھتے ہیں تارڈ ۔ اور جاٹوں کو تو خوب لتاڑتے ہیں ، اسی لئے میں بھی کھلے دل سے لتاڑتا ہوں (جوابا لتاڑ کا نہ پوچھیں :)) ۔ ان کے سفر نامے بھی خوب ہیں ۔ ماضی و حال کی مثالیں دے کر بات سمجھانے کا خوبصورت انداز ہے ۔ میرے بھی پسندیدہ لکھاری ہیں ۔
(کسی صاحب کے پاس ان کی چوری شدہ کتابوں کا کوئی لنک ہو تو عنایت فرمائیں کہ یہاں ملنا مشکل ہے ):noxxx:
وسلام
 

Saraah

محفلین
بہت شکریہ شریک محفل کرنے کا میرے بھی پسندیدہ لکھاری ہیں تارڑ صاحب ۔انکا طنز مجھے بہت بھاتا ہے ،اور منظر کشی بھی اچھی کرتے ہیں

اچھی تحریر ہے
 
Top