جھیل سیف الملوک۔۔ جہاں پریاں اترتی محسوس ہوتی ہیں

جھیل سیف الملوک۔۔۔ جہاں پریاں آسمان سے اترتی محسوس ہوتی ہیں
بلند و بالا برف کی چادر اوڑھے ملکہ پربت،رنگ بدلتا سبز پانی ، فضا میں جا بجا اڑتی ارغوانی تتلیاں ، پیالہ نما جھیل کا پانی جس پر بھرپور دن میں بھی آسمان سے اترتے ستارے ایک ایسا دلفریب منظر پیش کرتے ہیں کہ نگاہ ڈالتے ہی آنکھ ساکت ہوجائے، پلکیں جنبش سے انکار کردیں ۔۔ نگاہیں ٹھہر سی جائے ۔۔۔۔۔۔۔ وقت تھمنے سا لگے، یوں محسوس ہو کہ دنیا رک سی گئی ہوں ۔۔ کائنات کی گردش تھم گئی ہو۔۔۔ باد صبا نے چلنے سے انکار کردیا ہو ،بادلوں نے اپنی اڑان نہ بھری ہو ۔۔۔۔ یہاں تک کہ سانسیں تھم سی گئی ہوں بلا شبہ ایک ایسی جھیل جس پر پہلی نگاہ اننسانی عقل کو دنگ کر دیتی ہے قدرت کی صناعی کو پیش کرتی ایک ایسی طلسماتی جھیل ۔۔۔ جو اپنے اندر بے پناہ پراسراریت اور حسن رکھتی ہے
خوبصورتیوں سے مالا مال جھیل سیف الملوک، جہاں تک رسائی کے لئے وادی ناران سے رخت سفر باندھنا پڑتاہے۔۔۔ وادی ناران سے جھیل کا فاصلہ آٹھ کلو میٹر ہے جو کہ ہائیکنگ کے لئے تقریبا دو گھنٹے بنتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔وادی ناران میں بھرپور دن ۔۔ رات قیام اور الصبح ظیافت کے بعد ہماری اگلی منزل جھیل سیف الملوک تھی جہاں تک پہنچنے کی سرشاری نے رات بھر بے چین کئے رکھا تھا۔۔۔۔۔۔ ناران سے جھیل تک کے سفر کے لئے باآسانی جیپ دستیا ب ہوتی ہے جو جھیل تک لے جانے اور واپس وادی تک لانے کا فریضہ سر انجاام دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سفر دلفریب سہی پر جیپ کو ایک پر خطر گلیشیئر سے گزرنا پڑتا ہے جسے عبور کرنا یقینا ایک ماہر ڈرائیور کے لیے ہی ممکن ہےاور اگر آپ کی دھڑکنیں بھی میری طرح شوگران سے سری پائے کے سفر پر غیر متواتر رہیں ہوں تو آپ لاکھ ڈرائیور کی یقین دہانیوں کے باوجود پچھے بیھٹنے کی غلطی ہر گز نہیں کریں گے اور ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر آگے بیٹھ کر جان ہے تو جھیل کے مقولے پر عمل کرے گے۔

جھیل سیف الملوک ایک تحفہ ہے جہاں حسن ناصرف نگاہوں خیرہ کرتا ہے بلکہ چند لمحے کے لئے خرد ہو ہوش سے بھی بے گانہ کردیتا ہے ۔۔۔۔ دور سے جھیل پیالہ نما دکھائی دیتی ہے جس کا پانی موسم کیساتھ اپنے رنگ بدلتا ہے صاف موسم میں نیلا اور بادلوں میں سبز۔۔سردیوں میں سفید برف ۔۔ کہتے ہیں کہ سردیوں کے موسم میں جھیل برف کا پیالہ دکھائی دیتی ہے۔۔اردگرد بلند و بالا پہاڑ اور جھیل کے پانی پر پڑتا ان کا عکس ۔۔۔ ایک نئی دنیا سے روشناس کراتا ہے اور چند لمحوں کے لئے تو آنکھیں ان پریوں کی تلاش میں سرکرداں ہوجاتی ہیں جو مقامی داستانوں کے مطابق چاندنی راتوں میں جھیل پر اترتی ہیں پر جیسے ہی شوہر صاحب پر نگاہ جاتی ہے تو اس تلاش کی ناکامی پر ایک لمحہ کے لئے تو کلمہ شکر پڑھنے کو جی چاہتا ہے کہ کہیں جو پریاں مل جاتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ یہ جھیل بہت بلندی پر واقع ہے اس لیے شروع میں سانس لینے میں ہلکی سی دقت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ جھیل پر اسٹیشن کی سہولت دستیاب نہیں ۔ مقامی لوگوں نے کھانے پینے کے لئےبہت ضروری سامان رکھا ہوا ہے ۔ جھیل پر جا بجا کچھ بزرگ داستان گو لوگوں کو جھیل سے متعلق رومانوی کہانیاں سناتے دکھائی دیتے ہیں۔خچر اور گھوڑا بھی سیر کو دستاب ہے ۔جس کی سیر میری طرح آپ کو بھی بہت لطف دے گی ۔۔۔۔ اور اگر آپ بھی میری طرح جھیل سیف الملوک سے خچر پر آدھے گھنٹے کی بلندی پر واقع ستارہ جھیل پر برف کی موجودگی کا سن کر للچا جاتے ہیں تو پھر ستارہ جھیل تک رسائی کا شوق ہر دشواری اور مشکل سے بے گانہ کردے گا۔ سرد ترین جھیل جو دور سے ایک ستارہ دکھائی دیتی ہے ۔جھیل میں جا بجا پانی کے بجائے برف کے تیرتے ٹکڑے۔۔ خچرپر دشوار ترین پہاڑ سے گزر کر وہاں پہنچنا اور پھر چند لمحوں بعد ہی واپسی، وجہ خون کو جمادینے والی سرد ہوائیں ۔۔۔ جوٹھٹھڑنے اور واپسی پر مجبور کردیتی ہیں۔

اگرجھیل سیف الملوک کوخوابوں کی جھیل کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔۔۔۔
جھیل کی سحر انگیز خوبصورتی آپ کے لیے خوابوں کا ایک نیا جہان روشن کرتی ہے جھیل کا پانی اور اس سے نکلتی مہیب سی روشنی محبتوں کے دیے جلاتی محسوس ہوتی ہےاور دل چاہتا ہے یہ پرسکوں منظر ٹھہر جائے وادی ناران کی دلکشی پر یہ جھیل ایک ایسا سنہرا تاج ہے جو آپ کو واپس وہاں جانے پر اکساتا رہے گا۔۔۔
جھیل سیف الملوک
IMG_20130920_105822.jpg

14%2B-%2B1


داستان گو

IMG_20130920_112617.jpg
 
آخری تدوین:
اب ذرا یہ بتایا جائے کہ یہ تحریر ہے یا دعوت و ترغیب۔ ایسے بیان کے بعد کوئی خود کو کیسے روکے وہاں جانے سے؟ :) :) :)
 

باباجی

محفلین
بہت خوبصورت مقام، دیو مالائی دنیا میں پہنچنے کا رستہ بتاتی اور اکساتی تحریر ، مناسب ترین الفاظ کا چناؤ
خوش رہیں آباد رہیں
 
بہت خوب
اپریل میں جانے کا پروگرام ہے انشاءاللہ
یہ بتائیے کہ جھیل پر فیملی کے ساتھ ایک رات قیام مناسب ہے کہ نہیں ۔
واضح رہے ، فیملی کراچی سے آرہی ہے ۔:D
 

اب ذرا یہ بتایا جائے کہ یہ تحریر ہے یا دعوت و ترغیب۔ ایسے بیان کے بعد کوئی خود کو کیسے روکے وہاں جانے سے؟ :) :) :)

سیف الملوک اسکا نام ویسے ہی نہیں پڑ گیا۔ کوئی تو وجہ ہوگی :)

اس کا نام صوفی شاعر میاں محمد بخش رحمتہ اللہکی داستان سیف الملوک کے شہزادہ سیف الملوک کے نام پر ہے جس کے بارے میں ہے کہ وہ مصر کا شہزادہ تھا اور اسے کوہ قاف کی پریوں کی ملکہ بدیع الجمال پری سے عشق ہوا اور وہ مصر سے بھٹکتا ہوا یہاں تک پہنچا۔ اور یوں دونوں کا ملاپ ہوا۔

کہانی کا ایک ورژن مقامی قصہ گو سے سنیئے

میاں محمد بخش رحمتہ اللہ کا کلام سیف الملوک شوکت علی کی آواز میں

میاں محمد بخش رحمتہ اللہ کے تعارف بارے مفصل لیکچر

میں نے بچپن میں ایک ناول پڑھا تو دو محبت کرنے والوں کے بارے میں جس میں وہ ہنی مون منانے سیف الملوک جھیل جاتے ہیں اور وہاں ناول کی ہیروئن چاند کی چودھویں کو ان نظاروں کے سحر کے اثر میں آ جاتی ہے اور وہ جھیل میں ڈوب جانا چاہتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ اس ناول میں اس جھیل کی جو جادوئی منظر کشی کی گئی انتہائی عمدہ تھی۔ بے شک یہ جھیل دیومالائی داستان کا حصہ ہی معلوم ہوتی ہے۔
 
آخری تدوین:
اس کا نام صوفی شاعر میاں محمد بخش رحمتہ اللہکی داستان سیف الملوک کے شہزادہ سیف الملوک کے نام پر ہے جس کے بارے میں ہے کہ وہ مصر کا شہزادہ تھا اور اسے کوہ قاف کی پریوں کی ملکہ بدر پری سے عشق ہوا اور وہ مصر سے بھٹکتا ہوا یہاں تک پہنچا۔ اور یوں دونوں کا ملاپ ہوا۔
سیف الملوک
 
بہت خوب
اپریل میں جانے کا پروگرام ہے انشاءاللہ
یہ بتائیے کہ جھیل پر فیملی کے ساتھ ایک رات قیام مناسب ہے کہ نہیں ۔
واضح رہے ، فیملی کراچی سے آرہی ہے ۔:D
میرا رخت سفر بھی کراچی سے تھا
کیونکہ جھیل پہاڑ کی بلندی پر واقع ہے اس لیے وہاں کسی بھی قسم کی قیام اور طعام کی سہولت میسر نہیں ۔۔۔ چند کھانے پینے کے خیمہ ہوٹل ہیں جنہیں شام میں سمیٹ لیا جاتا ہے۔آبادی ناپید ہے ۔۔وادی ناران پر قیام کیا جاتا ہے وہیں سے جیپ لے جانے اور پھر شام تک واپس لانے کی پابند ہوتی ہیں۔۔۔۔ کیمپنگ کے زریعے کبھی کبھار نوجوان رات گزارتے ہیں پر حفاظت کے نقطعہ نظر سے یہ بہت خطرناک ہے ۔۔۔ اب تو پاکستان آرمی کی طرف سے جھیل سے آگے جانے پر پابندی بھی عائد ہے۔۔۔برف باری کی وجہ سے صرف اپریل سے ستمبر تک ہی میں رسائی ممکن ہے
 
میں نے بچپن میں ایک ناول پڑھا تو دو محبت کرنے والوں کے بارے میں جس میں وہ ہنی مون منانے سیف الملوک جھیل جاتے ہیں اور وہاں ناول کی ہیروئن چاند کی چودھویں کو ان نظاروں کے سحر کے اثر میں آ جاتی ہے اور وہ جھیل میں ڈوب جانا چاہتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ اس ناول میں اس جھیل کی جو جادوئی منظر کشی کی گئی انتہائی عمدہ تھی۔ بے شک یہ جھیل دیومالائی داستان کا حصہ ہی معلوم ہوتی ہے۔
جھیل کی سحر انگیزی چند لمحوں کے لئے تو واقعی سب بھلا دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوں محسوس ہوتا ہے جھیل کا پانی آواز دے رہا ہو
 
آخری تدوین:
Top