اس مقام پر آج بھی قصہ گو، کچھ معاوضے کے عوض سیف الملوک کی کہانی سنانے کو آپ کے پیچھے پڑ تے ہیں۔۔۔۔ اور جہاں تک پریوں کا تعلق ہے، میں سوچ رہا تھا کہ انہیں یہاں اترنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ اور ایسی کئی جھیلیں ہیں جو سیف الملوک سے زیادہ خوبصورت اور صاف ستھری ہیں، جن میں دودی پت سر بھی بہت مشہور ہے۔۔۔
تو اگر پریوں نے اتنی ٹھنڈی جگہ اُتر کر غسل ہی کرنا ہے، تو سیف الملوک اس قابل نہیں کیونکہ اس میں انسانوں نے وہ کچھ گھول رکھا ہے جس کی وجہ سے اسے صاف کہنا زیادتی ہوگی۔۔۔
ویسے مزے کی بات ہی ہے کہ اس جھیل کو پار کر کے پہاڑوں کے دامن میں وہاں جائیں جہاں سے اسکا چشمہ نکلتا ہے، تو مقامی حضرات اپنے گائیڈ کی خدمات پیش کرنے کے لئے یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ وہاں دیو رہتے ہیں اور وہاں جا کر اکثر لوگ واپس نہیں آتے۔۔۔ بہرحال، اسی جگہ سے آنسو جھیل کے لئے ہم بھی گئے اور واقعی واپس نہیں آئے۔۔ کیونکہ ہم پہاڑوں کا چکر لگا کر سیدھے ناران میں مہانڈری میں جا نکلے۔۔ اور سیف الملوک پر موجود لوگ شائید ہمیں بھی ایسے ہی کسی قصے کا حصہ بنا رہے ہوں۔۔۔