عادل ـ سہیل
محفلین
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ وبرکاتہ
دور جدید کی جدید سوچوں کا عمومی ہدف اسلام اور اسلامی اصطلاحات ہیں ، کہ جَس قدر اور جہاں سے ممکن ہو اَن میں بگاڑ پیدا کیا جائے اور مسلمان کو ایسی راہوں پر چلایا جائے جو بظاہر اللہ کی طرف جانے والی لگتی ہوں لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہو ،
جہاد کا معنی و مفہوم بھی آج کچھ اور بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ، آئیے ذرا دیکھیں کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کیا بتایا ہے
جِہاد ، تعریف اور اِقسام
اَعُوذُ بِاللّہِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِ و مِن ھَمزِہِ و نَفخہِ و نَفثِہِ
جِہاد ، کا لغوی مفہوم ہے ::: کِسی کام کو کرنے کےلیئے اپنے تمام وسائل اور قوتوں کو اِستعمال کرنا۔
اور شریعت میں اِسکا مفہوم ہے کہ ::: مسلمانوں کی طرف سے کافروں ، مشرکوں ، باغیوں اور مرتد لوگوں کے سے لڑائی اور جنگ کرنے میں اپنے تمام وسائل خرچ کرنا ۔
: : : جِہاد کی فضیلت ::: اللہ تعالیٰ کا فرمان ::: ( اِنَّ اللَّہ َ اَشتَریٰ مِن المؤمِنِینَ اَنفُسَھُم بِاَنَّ لَھُم الجَنَّۃ َ یُقَاتِلُون َ فی سبِیلِ اللَّہِ فَیَقتُلُونَ و یُقتَلُونَ ، وَعداً علِیہِ حَقاً فِی التَّوراۃِ و الاَنجِیلِ و القُرانِ و مَن اَوفَی بِعَھدِہِ مِن اللَّہ ) ( بے شک اللہ نے اِیمان والوں کی جانیں اور اُن کے مال اُن سے اِس وعدے پر خرید لیئے ہیں ، کہ اِسکے بدلے میں اُن کے لیے جنّت ہے ، ( وہ لوگ اپنے مال و جان سے ) اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کیئے جاتے ہیں ، ( اِس کام کے بدلے میں جنت دینے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) سچا وعدہ ہے ( جو کہ ) تورات میں اور اِنجیل میں اور قُران ہے ، اور اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے ) سورت التوبہ / آ یت ١١١،
: : : جِہاد کا شرعی حُکم ::: جِہاد بحیثیتِ جِنس شریعت کے اَحکام میں فرضِ عین ہے ، یعنی ہر ایک مُسلمان پر فرض ہے ، اور اپنی اقسام اور درجات کے مُطابق فرضِ کفایہ ہے ، یعنی اگر مسلمانوں میں سے کوئی ایک یا کچھ وہ کام کرنے لگیں تو باقیوں پر فرضیت نہیں رہتی۔
ْ دلیل ::: ( وَ مَا کانَ المُؤمِنُونَ لِیَنفِرُوا کآفَۃً ج فَلَولا نَفرَ مِن کُلِّ فِرقَۃٍ مِنھُم طآئفِۃٌ لِیَتَفَقَھُوا فی الدِّینِ و لِیُنذِرُوا قَومَھُم اِذا رَجَعُوا اِلِیہِم لَعلَّھُم یَحذَرُون َ ) ( اور اِیمان والوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں ، ، لہذا ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ ہر جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تا کہ وہ دِین کی سمجھ حاصل کریں اور جب ( باہر جانے والے ) واپس آئیں تو یہ(دِین کا عِلم حاصل کرنے والے ) لوگ(واپس آنے والوں کو شریعت کے احکام سُنا کر آخرت کے عذاب سے ) ڈرائیں ، تا کہ(باہر جانے سے جو عِلم وہ نہ پا سکیں اُسے جان لیں اور اُس کے مطابق اپنی زندگیوں میں)احتیاط کریں ) سورت التوبہ / آیت ١٢٢
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ::: ( جاھِدُوا المُشرکِینَ بِاَلسِنَتِکُم ، و اَنفُسِکُم ، واَموالِکُم ، واَیدِیَکُم )( مُشرکِین سے جِہاد کرو ، اپنی زبانوں کے ذریعے ، اور اپنی جانوں کے ذریعے ، اور اپنے مال کے ذریعے ، اور اپنے ہاتھوں کے ذریعے ) اَبو داؤد ، ٢٥٠٤ ، النسائی ، ٣٠٩٨ ، امام الالبانی نے صحیح قرار دِیا،
:::: لیکن مندرجہ ذیل حالات میں سے کِسی حالت کے ظاہر ہونے کی صورت میں جِہاد فرضِ عین ہو جاتا ہے ::::
( ١ ) جب قتال کے لئیے مقرر شدہ مسلمانوں کا سامنا دُشمن سے ہو جائے :::
ْ دلیل ::: ( یا اَِیھا الذِین َ اَمَنُوۤا اِذا لَقِیتُمُ الذِینَ کَفَرُوا ز َحفاً فَلا تُوَلُّوھُم الاَدبار ّ وَ مَن یُوَلِیھِم یَومَئِذٍ دُبَرَہ ُ اِلّا مُتحَرفَاً لِقِتَالٍ اَو مُتَحِیزاً اِلیٰ فِئِۃٍ فَقَد بآءَ بِغَضبٍ مِن اللَّہِ و ماَوَئہ جہنَّمُ و بِئسَ المَصِیرُ ) ( اے اِیمان والوں جب تم لڑائی کےلیئے کافروں کے سامنے آ جاؤ تو اِن کی طرف کمر مت پھیرنا ّ اور جو کوئی ، لڑائی کا پینترا بدلنے یا ( اپنی ) جماعت کی طرف پناہ لینے کے عِلاوہ اُن ( کافروں ) کی طرف کمر پھیرے گا وہ اللہ کے غضب میں داخل ہو جائے گا اور اُس کا ٹھکانہ دوزخ ہو گااوروہ بہت ہی بُری جگہ ہے ) سورت الاَنفال/ آیت / ١٥ ، ١٦ ۔
( ٢ ) جب دشمن مسلمانوں کے کِسی ملک پر حملہ کر دے اور وہاں سے مسلمانوں کو نکالنا چاہے ، یا اُن کے مال اُن کی عزت کو لوٹنا چاہتا ہو ، اور وہاں کے مسلمان اُس دشمن کا مقابلہ نہ کر سکتے ہوں تو ایسی صورت میں اُس دشمن کے خلاف جِہاد کرنا تمام مسلمانوں پر فرض عین ہو جاتا ہے ::: جیسا کہ فلسطین، کشمیر ، افغانستان ، عِراق ،وغیرہ، میں ہو رہا ہے تو وہاں کے مسلمانوں پر ، اور جغرافیائی لحاظ سے اُن کے قریبی مسلمانوں پر، اُن کافروں کے خِلاف جو مسلمانوں کے علاقوں میں داخل ہو کر ملسلمانوں کی جان مال عِزت لوٹ رہے ہیں ، جہاد کرنا فرض ہے ، اورایسے اُن کے قریب والوں پر اِس کی فرضیت پہلے اور پھر اُن کے بعد والوں پھر ، پھر اُن کے بعد والوں پر اور اسی طرح یہ سلسلہ چلنا چاہیئے :::
ْدلیل ::: ( اَِیھا الذِین َ اَمَنُوۤا قاتِلوُا الذِینَ یَلُونَکُم مِن الکُفَّارِ ، و لیَجِدُوا فِیکُم غِلظَۃً ط و اَعلمُوا اَنَّ اللَّہَ مع المُتَّقِینَ ) ( اے اِیمان والوں اِن کافروں سے لڑو جو تُمہارے آس پاس ہیں ، اور اِن کافروں کو تُمہارے اندر سختی ملے ، اور یقین رکھو کہ اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے ) سورت التوبہ/ آیت ١٢٣۔
( ٣ ) جب مسلمانوں کا خلیفہِ وقت اُن کو جِہاد ( قتال ) کے لیئے نکلنے کا حُکم دے ۔
ْ دلیل ::: ( یا اَِیھا الذِین َ اَمَنُوۤا مَا لَکُم اِذا قِیلَ لَکُم انفِرُوا فی سبِیلِ اللَّہِ اََثَاقَلتُم اِلیٰ الاَرضِ اََ رَضِیتُم بالحَیاۃِ الدُّنِیا مِن الاَخِرۃِ ج فَمَا مَتَاعُ الحَیاۃِ الدُّنِیا فی الاَخِرۃِ اِلَّا قَلِیلٌ ) ( اے اِیمان والوں تُمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تُم سے کہا جاتا کہ چلو اللہ کی راہ میں نکلو تو تم ( اتنے ) وزنی ہو جاتے ہو ( کہ گویا ) زمین کی طرف ( چپکے جاتے ہو ) کیا تُم آخرت کے عوض دُنیا کی زندگی پر راضی ہوتو (سن لوکہ) دُنیا کی زندگی کا مزہ آخرت میں کچھ تھوڑا سا ہی ہے ) سورت البقرہ /آیت ٣٨ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ( لا ھجرۃ بعد الفتح و لَکِن جِھادٌ و نیۃٌ ، و اِذا اُستُنفِرتُم فَانفِرُوا ) ( فتح کے بعد ) مکہ سے کِسی اور طرف ) کوئی ہجرت نہیں ہے ، لیکن جِہاد اور نیت ( یعنی نیک نیتی کے ساتھ کوئی اچھا کام کرنے کے لیئے کہیں جا رہنا ) ، اور جب ( حاکم ِوقت ) تُم لوگوں سے (جہاد کے لیے )نکلنا طلب کرے تو نکل پڑو ) مُتفقٌ علیہ ، صحیح البخاری / کتاب الجِہاد / پہلا باب ، صحیح مُسلم / کتاب الاَمارۃ / باب ٢٠ ۔
: جِہاد کا حُکم کبھی ختم یا منسوخ نہیں ہو گا ،
دلیل ::: ( الْخَیْلُ مَعْقُودٌ فی نَوَاصِیہَا الْخَیْرُ إلی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ الْاََجْرُ وَالْمَغْنَمُ ) ( گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر بندھی ہوئی ہے ( اور وہ خیر ہے ) ثواب اور غنیمت ) صحیح البُخاری /کتاب الجہاد / باب ٤٤ ،
اِس موضوع پر ایک روایت جو سنن ابی داؤد میں ہے کہ ''' جب سے مجھے بھیجا گیا ہے جِہاد جاری ہو گیا ہے اور میری اُمت کے آخری لوگوں کی دجال سے لڑائی ختم ہونے تک رہے گا ''' یہ روایت ضعیف یعنی کمزور اور باقابل حُجت ہے اِ س لیے بطورِ دلیل اسے ذِکر نہیں کِیا ۔
::: جِہاد کی حِکمت اور مقاصد :::
اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کا فرمان ہے ( و قَاتَلُوھُم حَتَّی لَا تَکُون ُ فِتنَۃٌ و یَکُون ُ الدِّین ُ لِلّہ فَاِنِ انتَہَوُا فَلَا عُدوَانَ اِلَّا عَلیٰ الظَّالِمِینَ )(اور اِن (کافروں)سے لڑو ، جب تک کہ(کُفر کا ) فتنہ ختم نہیں ہو جاتا اوردِین اللہ کے نہیں ہو جاتا (یعنی اللہ کا نازل کردہ دِین ہر طرف غالب نہیں ہو جاتا ) اور اگر یہ ( فتنہ پھیلانے والے ) باز آ جائیں ( تو تُم بھی رک جاؤ ) اور دشمنی صرف ظلم کرنے والے کے ساتھ ہی ہوتی ہے ) سورت البقرہ / آیت ١٩٣ ،
اور فرمایا ہے ( وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّہ فَاِنِ انتَہَوْاْ فَاِنَّ اللّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیْر ) ( اور اِن (کافروں)سے لڑو جب تک کہ(کُفر کا ) فتنہ ختم نہیں ہو جاتا اورسارے کا سارادِین اللہ کے لیے نہیں ہو جاتا (یعنی جب تک سارے دِین ختم نہیں ہو جاتے اوراللہ کا نازل کردہ دِین ہر طرف غالب نہیں ہو جاتا )اور اگر یہ ( فتنہ پھیلانے والے ) باز آ جائیں ( تو تُم بھی رک جاؤ کیونکہ ) بے شک جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ وہ سب جانتا ہے) سورت الانفال / آیت ٣٩ ،
اللہ وسبحانہُ و تعالیٰ کے اِن اوپر بیان کیے گئے فرامین سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جِہاد کی حِکمت ، اھداف اور مقاصد مندرجہ ذیل ہیں ،
( ١) اللہ تعالیٰ کی بات (یعنی دِین )کی سر بلندی اور نفاذ کے لیے جِہاد :::
ْدلیل ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ( مَن قاتلَ لِیَکُونَ کَلِمَۃُ اللَّہ ھي العُلیا فَھُوَ فی سَبِیل اللَّہِ ) ( جِس نے اللہ کی بات کی سر بلندی کے لیے قتال (لڑائی ) کی وہ اللہ کی راہ میں (لڑائی ، جِہاد ) کرنے والا ہے ) مُتفقٌ علیہ ، صحیح البخاری ، کتاب الجہادو السیر /باب ١٥ ، صحیح مسلم / کتاب الامارہ /باب ٤٢ ۔
(۲) مظلوموں کی مدد کرنے کے لیے جِہاد:::
ْ دلیل ::: اللہ تعالیٰ کا فرمان ( وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا اََخْرِجْنَا مِنْ ہَ۔ذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اََہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً ) ( تُم لوگوں کو کیا (روکاٹ ) ہے کہ اللہ کی راہ میں لرائی نہیں کرتے ہو جبکہ عورتوں مَردوں اور بچوں میں سے بے بس لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اِس بستی میں سے نکال دے جِس کے لوگ(ہم پر )ظُلم کرنے والے ہیں ، اور (اے ہمارے رب ہمیں اِس ظُلم سے نکالنے کے لیے ) اپنے پاس سے ہمارے لیے کوئی حاکم بنا دے اور اپنے پاس ہمارے لیے کوئی مدد گار بنا دے ) سورت النِساء / آیت ٧٥ ۔
(٣) اِسلام کے دشمنوں کے خِلاف اور اِسلام کی حفاظت کے لیے جِہاد :::
ْدلیل ::: اللہ تعالیٰ کا فرمان ( الشَّہْرُ الْْحَرَامُ بِالشَّہْْرِ الْْحَرَامِ وَالْْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْْتَدَی عَلَیْْکُمْْ فَاعْْتَدُواْْ عَلَیْْہِ بِمِثْْلِ مَا اعْْتَدَی عَلَیْْکُمْْ وَاتَّقُواْْ اللّہَ وَاعْْلَمُواْْ اََنَّ اللّہَ مَعَ الْْمُتَّقِیْْنَ ) ( حُرمت والے مہینے کے بدلے حُرمت والا مہینہ ہے ، اورحرمتوں کا بدلہ ہے ، لہذا جو کوئی تُم پر زیادتی کرے تو تُم لوگ بھی اُسی زیادتی کے برابر اُس سے بدلہ لو اور اللہ سے بچو (یعنی اُس کے عذاب سے بچو ) اور جان رکھو کہ بے شک اللہ تعالیٰ (اللہ کے عذاب سے ) بچاؤ اِختیار کرنے والوں کے ساتھ ہے ) سورت البقرہ / آیت ١٩٤
جہاد کی اقسام کا بیان انشاء اللہ تعالیٰ اگلی قسط میں ہو گا ۔
تمام قارئین سے گذارش ہے کہ کوئی سوال کرنے سے پہلے مضمون کی تکمیل تک انتظار فرما لیں ، ہو سکتا ہے اُن کے سوال کا جواب سوال کرنے سے پہلے ہی انہیں مل جائے۔والسلام علیکُم و رحمۃُ اللہ وبرکاتہُ
دور جدید کی جدید سوچوں کا عمومی ہدف اسلام اور اسلامی اصطلاحات ہیں ، کہ جَس قدر اور جہاں سے ممکن ہو اَن میں بگاڑ پیدا کیا جائے اور مسلمان کو ایسی راہوں پر چلایا جائے جو بظاہر اللہ کی طرف جانے والی لگتی ہوں لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہو ،
جہاد کا معنی و مفہوم بھی آج کچھ اور بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ، آئیے ذرا دیکھیں کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کیا بتایا ہے
جِہاد ، تعریف اور اِقسام
اَعُوذُ بِاللّہِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِ و مِن ھَمزِہِ و نَفخہِ و نَفثِہِ
جِہاد ، کا لغوی مفہوم ہے ::: کِسی کام کو کرنے کےلیئے اپنے تمام وسائل اور قوتوں کو اِستعمال کرنا۔
اور شریعت میں اِسکا مفہوم ہے کہ ::: مسلمانوں کی طرف سے کافروں ، مشرکوں ، باغیوں اور مرتد لوگوں کے سے لڑائی اور جنگ کرنے میں اپنے تمام وسائل خرچ کرنا ۔
: : : جِہاد کی فضیلت ::: اللہ تعالیٰ کا فرمان ::: ( اِنَّ اللَّہ َ اَشتَریٰ مِن المؤمِنِینَ اَنفُسَھُم بِاَنَّ لَھُم الجَنَّۃ َ یُقَاتِلُون َ فی سبِیلِ اللَّہِ فَیَقتُلُونَ و یُقتَلُونَ ، وَعداً علِیہِ حَقاً فِی التَّوراۃِ و الاَنجِیلِ و القُرانِ و مَن اَوفَی بِعَھدِہِ مِن اللَّہ ) ( بے شک اللہ نے اِیمان والوں کی جانیں اور اُن کے مال اُن سے اِس وعدے پر خرید لیئے ہیں ، کہ اِسکے بدلے میں اُن کے لیے جنّت ہے ، ( وہ لوگ اپنے مال و جان سے ) اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کیئے جاتے ہیں ، ( اِس کام کے بدلے میں جنت دینے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) سچا وعدہ ہے ( جو کہ ) تورات میں اور اِنجیل میں اور قُران ہے ، اور اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے ) سورت التوبہ / آ یت ١١١،
: : : جِہاد کا شرعی حُکم ::: جِہاد بحیثیتِ جِنس شریعت کے اَحکام میں فرضِ عین ہے ، یعنی ہر ایک مُسلمان پر فرض ہے ، اور اپنی اقسام اور درجات کے مُطابق فرضِ کفایہ ہے ، یعنی اگر مسلمانوں میں سے کوئی ایک یا کچھ وہ کام کرنے لگیں تو باقیوں پر فرضیت نہیں رہتی۔
ْ دلیل ::: ( وَ مَا کانَ المُؤمِنُونَ لِیَنفِرُوا کآفَۃً ج فَلَولا نَفرَ مِن کُلِّ فِرقَۃٍ مِنھُم طآئفِۃٌ لِیَتَفَقَھُوا فی الدِّینِ و لِیُنذِرُوا قَومَھُم اِذا رَجَعُوا اِلِیہِم لَعلَّھُم یَحذَرُون َ ) ( اور اِیمان والوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں ، ، لہذا ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ ہر جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تا کہ وہ دِین کی سمجھ حاصل کریں اور جب ( باہر جانے والے ) واپس آئیں تو یہ(دِین کا عِلم حاصل کرنے والے ) لوگ(واپس آنے والوں کو شریعت کے احکام سُنا کر آخرت کے عذاب سے ) ڈرائیں ، تا کہ(باہر جانے سے جو عِلم وہ نہ پا سکیں اُسے جان لیں اور اُس کے مطابق اپنی زندگیوں میں)احتیاط کریں ) سورت التوبہ / آیت ١٢٢
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ::: ( جاھِدُوا المُشرکِینَ بِاَلسِنَتِکُم ، و اَنفُسِکُم ، واَموالِکُم ، واَیدِیَکُم )( مُشرکِین سے جِہاد کرو ، اپنی زبانوں کے ذریعے ، اور اپنی جانوں کے ذریعے ، اور اپنے مال کے ذریعے ، اور اپنے ہاتھوں کے ذریعے ) اَبو داؤد ، ٢٥٠٤ ، النسائی ، ٣٠٩٨ ، امام الالبانی نے صحیح قرار دِیا،
:::: لیکن مندرجہ ذیل حالات میں سے کِسی حالت کے ظاہر ہونے کی صورت میں جِہاد فرضِ عین ہو جاتا ہے ::::
( ١ ) جب قتال کے لئیے مقرر شدہ مسلمانوں کا سامنا دُشمن سے ہو جائے :::
ْ دلیل ::: ( یا اَِیھا الذِین َ اَمَنُوۤا اِذا لَقِیتُمُ الذِینَ کَفَرُوا ز َحفاً فَلا تُوَلُّوھُم الاَدبار ّ وَ مَن یُوَلِیھِم یَومَئِذٍ دُبَرَہ ُ اِلّا مُتحَرفَاً لِقِتَالٍ اَو مُتَحِیزاً اِلیٰ فِئِۃٍ فَقَد بآءَ بِغَضبٍ مِن اللَّہِ و ماَوَئہ جہنَّمُ و بِئسَ المَصِیرُ ) ( اے اِیمان والوں جب تم لڑائی کےلیئے کافروں کے سامنے آ جاؤ تو اِن کی طرف کمر مت پھیرنا ّ اور جو کوئی ، لڑائی کا پینترا بدلنے یا ( اپنی ) جماعت کی طرف پناہ لینے کے عِلاوہ اُن ( کافروں ) کی طرف کمر پھیرے گا وہ اللہ کے غضب میں داخل ہو جائے گا اور اُس کا ٹھکانہ دوزخ ہو گااوروہ بہت ہی بُری جگہ ہے ) سورت الاَنفال/ آیت / ١٥ ، ١٦ ۔
( ٢ ) جب دشمن مسلمانوں کے کِسی ملک پر حملہ کر دے اور وہاں سے مسلمانوں کو نکالنا چاہے ، یا اُن کے مال اُن کی عزت کو لوٹنا چاہتا ہو ، اور وہاں کے مسلمان اُس دشمن کا مقابلہ نہ کر سکتے ہوں تو ایسی صورت میں اُس دشمن کے خلاف جِہاد کرنا تمام مسلمانوں پر فرض عین ہو جاتا ہے ::: جیسا کہ فلسطین، کشمیر ، افغانستان ، عِراق ،وغیرہ، میں ہو رہا ہے تو وہاں کے مسلمانوں پر ، اور جغرافیائی لحاظ سے اُن کے قریبی مسلمانوں پر، اُن کافروں کے خِلاف جو مسلمانوں کے علاقوں میں داخل ہو کر ملسلمانوں کی جان مال عِزت لوٹ رہے ہیں ، جہاد کرنا فرض ہے ، اورایسے اُن کے قریب والوں پر اِس کی فرضیت پہلے اور پھر اُن کے بعد والوں پھر ، پھر اُن کے بعد والوں پر اور اسی طرح یہ سلسلہ چلنا چاہیئے :::
ْدلیل ::: ( اَِیھا الذِین َ اَمَنُوۤا قاتِلوُا الذِینَ یَلُونَکُم مِن الکُفَّارِ ، و لیَجِدُوا فِیکُم غِلظَۃً ط و اَعلمُوا اَنَّ اللَّہَ مع المُتَّقِینَ ) ( اے اِیمان والوں اِن کافروں سے لڑو جو تُمہارے آس پاس ہیں ، اور اِن کافروں کو تُمہارے اندر سختی ملے ، اور یقین رکھو کہ اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے ) سورت التوبہ/ آیت ١٢٣۔
( ٣ ) جب مسلمانوں کا خلیفہِ وقت اُن کو جِہاد ( قتال ) کے لیئے نکلنے کا حُکم دے ۔
ْ دلیل ::: ( یا اَِیھا الذِین َ اَمَنُوۤا مَا لَکُم اِذا قِیلَ لَکُم انفِرُوا فی سبِیلِ اللَّہِ اََثَاقَلتُم اِلیٰ الاَرضِ اََ رَضِیتُم بالحَیاۃِ الدُّنِیا مِن الاَخِرۃِ ج فَمَا مَتَاعُ الحَیاۃِ الدُّنِیا فی الاَخِرۃِ اِلَّا قَلِیلٌ ) ( اے اِیمان والوں تُمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تُم سے کہا جاتا کہ چلو اللہ کی راہ میں نکلو تو تم ( اتنے ) وزنی ہو جاتے ہو ( کہ گویا ) زمین کی طرف ( چپکے جاتے ہو ) کیا تُم آخرت کے عوض دُنیا کی زندگی پر راضی ہوتو (سن لوکہ) دُنیا کی زندگی کا مزہ آخرت میں کچھ تھوڑا سا ہی ہے ) سورت البقرہ /آیت ٣٨ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ( لا ھجرۃ بعد الفتح و لَکِن جِھادٌ و نیۃٌ ، و اِذا اُستُنفِرتُم فَانفِرُوا ) ( فتح کے بعد ) مکہ سے کِسی اور طرف ) کوئی ہجرت نہیں ہے ، لیکن جِہاد اور نیت ( یعنی نیک نیتی کے ساتھ کوئی اچھا کام کرنے کے لیئے کہیں جا رہنا ) ، اور جب ( حاکم ِوقت ) تُم لوگوں سے (جہاد کے لیے )نکلنا طلب کرے تو نکل پڑو ) مُتفقٌ علیہ ، صحیح البخاری / کتاب الجِہاد / پہلا باب ، صحیح مُسلم / کتاب الاَمارۃ / باب ٢٠ ۔
: جِہاد کا حُکم کبھی ختم یا منسوخ نہیں ہو گا ،
دلیل ::: ( الْخَیْلُ مَعْقُودٌ فی نَوَاصِیہَا الْخَیْرُ إلی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ الْاََجْرُ وَالْمَغْنَمُ ) ( گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر بندھی ہوئی ہے ( اور وہ خیر ہے ) ثواب اور غنیمت ) صحیح البُخاری /کتاب الجہاد / باب ٤٤ ،
اِس موضوع پر ایک روایت جو سنن ابی داؤد میں ہے کہ ''' جب سے مجھے بھیجا گیا ہے جِہاد جاری ہو گیا ہے اور میری اُمت کے آخری لوگوں کی دجال سے لڑائی ختم ہونے تک رہے گا ''' یہ روایت ضعیف یعنی کمزور اور باقابل حُجت ہے اِ س لیے بطورِ دلیل اسے ذِکر نہیں کِیا ۔
::: جِہاد کی حِکمت اور مقاصد :::
اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کا فرمان ہے ( و قَاتَلُوھُم حَتَّی لَا تَکُون ُ فِتنَۃٌ و یَکُون ُ الدِّین ُ لِلّہ فَاِنِ انتَہَوُا فَلَا عُدوَانَ اِلَّا عَلیٰ الظَّالِمِینَ )(اور اِن (کافروں)سے لڑو ، جب تک کہ(کُفر کا ) فتنہ ختم نہیں ہو جاتا اوردِین اللہ کے نہیں ہو جاتا (یعنی اللہ کا نازل کردہ دِین ہر طرف غالب نہیں ہو جاتا ) اور اگر یہ ( فتنہ پھیلانے والے ) باز آ جائیں ( تو تُم بھی رک جاؤ ) اور دشمنی صرف ظلم کرنے والے کے ساتھ ہی ہوتی ہے ) سورت البقرہ / آیت ١٩٣ ،
اور فرمایا ہے ( وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّہ فَاِنِ انتَہَوْاْ فَاِنَّ اللّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیْر ) ( اور اِن (کافروں)سے لڑو جب تک کہ(کُفر کا ) فتنہ ختم نہیں ہو جاتا اورسارے کا سارادِین اللہ کے لیے نہیں ہو جاتا (یعنی جب تک سارے دِین ختم نہیں ہو جاتے اوراللہ کا نازل کردہ دِین ہر طرف غالب نہیں ہو جاتا )اور اگر یہ ( فتنہ پھیلانے والے ) باز آ جائیں ( تو تُم بھی رک جاؤ کیونکہ ) بے شک جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ وہ سب جانتا ہے) سورت الانفال / آیت ٣٩ ،
اللہ وسبحانہُ و تعالیٰ کے اِن اوپر بیان کیے گئے فرامین سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جِہاد کی حِکمت ، اھداف اور مقاصد مندرجہ ذیل ہیں ،
( ١) اللہ تعالیٰ کی بات (یعنی دِین )کی سر بلندی اور نفاذ کے لیے جِہاد :::
ْدلیل ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ( مَن قاتلَ لِیَکُونَ کَلِمَۃُ اللَّہ ھي العُلیا فَھُوَ فی سَبِیل اللَّہِ ) ( جِس نے اللہ کی بات کی سر بلندی کے لیے قتال (لڑائی ) کی وہ اللہ کی راہ میں (لڑائی ، جِہاد ) کرنے والا ہے ) مُتفقٌ علیہ ، صحیح البخاری ، کتاب الجہادو السیر /باب ١٥ ، صحیح مسلم / کتاب الامارہ /باب ٤٢ ۔
(۲) مظلوموں کی مدد کرنے کے لیے جِہاد:::
ْ دلیل ::: اللہ تعالیٰ کا فرمان ( وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا اََخْرِجْنَا مِنْ ہَ۔ذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اََہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً ) ( تُم لوگوں کو کیا (روکاٹ ) ہے کہ اللہ کی راہ میں لرائی نہیں کرتے ہو جبکہ عورتوں مَردوں اور بچوں میں سے بے بس لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اِس بستی میں سے نکال دے جِس کے لوگ(ہم پر )ظُلم کرنے والے ہیں ، اور (اے ہمارے رب ہمیں اِس ظُلم سے نکالنے کے لیے ) اپنے پاس سے ہمارے لیے کوئی حاکم بنا دے اور اپنے پاس ہمارے لیے کوئی مدد گار بنا دے ) سورت النِساء / آیت ٧٥ ۔
(٣) اِسلام کے دشمنوں کے خِلاف اور اِسلام کی حفاظت کے لیے جِہاد :::
ْدلیل ::: اللہ تعالیٰ کا فرمان ( الشَّہْرُ الْْحَرَامُ بِالشَّہْْرِ الْْحَرَامِ وَالْْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْْتَدَی عَلَیْْکُمْْ فَاعْْتَدُواْْ عَلَیْْہِ بِمِثْْلِ مَا اعْْتَدَی عَلَیْْکُمْْ وَاتَّقُواْْ اللّہَ وَاعْْلَمُواْْ اََنَّ اللّہَ مَعَ الْْمُتَّقِیْْنَ ) ( حُرمت والے مہینے کے بدلے حُرمت والا مہینہ ہے ، اورحرمتوں کا بدلہ ہے ، لہذا جو کوئی تُم پر زیادتی کرے تو تُم لوگ بھی اُسی زیادتی کے برابر اُس سے بدلہ لو اور اللہ سے بچو (یعنی اُس کے عذاب سے بچو ) اور جان رکھو کہ بے شک اللہ تعالیٰ (اللہ کے عذاب سے ) بچاؤ اِختیار کرنے والوں کے ساتھ ہے ) سورت البقرہ / آیت ١٩٤
جہاد کی اقسام کا بیان انشاء اللہ تعالیٰ اگلی قسط میں ہو گا ۔
تمام قارئین سے گذارش ہے کہ کوئی سوال کرنے سے پہلے مضمون کی تکمیل تک انتظار فرما لیں ، ہو سکتا ہے اُن کے سوال کا جواب سوال کرنے سے پہلے ہی انہیں مل جائے۔والسلام علیکُم و رحمۃُ اللہ وبرکاتہُ