واجدحسین
معطل
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
امید ہے کہ بہت سے دوستوں کو اس تھریڈ(دھاگے) سے ان کے کچھ سوالوں کے جواب مل جائیں گے
یہ میں نے ایک کتاب جس کا عنوان ہے “ آب حیات“ سے لی ہے
مرتبہ:۔ محمد صدیق احمد لیمبلیا
جو الصفہ فاؤنڈیسن کی ہے
جہاد بالنفس :۔اس سے مراد کفار کے مقابلے میں دین کی سر بلندی کے لیے جان کی قربانی پیش کرنا یا مشقت اٹھانا اور دین کی حمایت میں ہتھیار اٹھانا ہے گو یا آدمی اپنی ذات یعنی نفس کو کفار کے مقابلے کے لیے میدان قتال میں دھکیل دے۔ حق اور باطل کے معرکوں میں اپنے نفس کو مکمل طور پر جھونک دے قرآن مجید میں ہے " جہاد کرواللہ تعالی کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے "(الصف 11) جہاد بالنفس عربی کا کلمہ ہے اور بالنفس "ب"پر داخل ہے گویا نفس کے ساتھ جہاد کرنا ایسا ہے جیسے بندوق یا کسی ہتھیار کو ساتھ لے کر جہاد کرنا ۔یعنی جتنے آلات حرب و ضرب ہیں اس پر "ب"داخل ہونے کے بعد یہی مطلب ہوتا ہے کہ ان ہتھیاروں کے ساتھ مجاہد نے میدان جہاد میں کفار کا مقابلہ کیا اسی طرح جہاد بالنفس کا مطلب اس نفس یعنی جان کو کفار کے مقابلہ میں استعمال کیا جائے ۔اس جملہ کا یہی مطلب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین رحمتہ اللہ علیہم اجمعین نے لیا۔حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ وَالمُجَاھِدُ مَن جَاھَدَ نَفسَہ بِنفسِہ یعنی "مجاھد وہ ہےجو اپنے نفس سے اسی نفس کے ذریعہ جہاد کرے" گویا اپنے نفس کو میدان جہاد میں ڈال دے اور اسے کفار کے مقابلہ میں استعمال کرے یہ نفس کے ذریعہ کفار کا مقابلہ بھی ہو اور اس ضمن میں نفس کا مجاہدہ بھی ،کیونکہ نفس کا مجاہدہ اس عمل سے ہوتا ہے جو نفس کی خواہشات کے خلاف ہو اور ظاہر ہے میدان قتال میں جان ہتھلیی میں لے کر جانا نفس کو بہت ہی ناگوار معلوم ہوتا ہے اسی لیے جہاد سب اعمال میں افضل و برتر ہے (مسلم ترمزی ) اور جہاد کواللہ تعالٰی کا محبوب ترین عمل بتلایا گیا (متفق علیہ ) کو کب الدری میں ترمزی شریف کی ایک حدیث کی شرح میں ہے ۔ "اور یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ جہاد مع النفس اور جہاد مع الکفار دونوں میں آپس میں ایک جوڑ اور اتصال ہے کیو نکہ کفار سے لڑنے میں نفس کا مجاہدہ لا زما ہو تا ہی ہے ۔ کیونکہ نفس کے مجاہدے کے بغیر کفار سے لڑنے کا تصور بھی ممکن نہیں اور رہ گیا نفس کا مجاہدہ تو جب نفس کا مجاہدہ مکمل ہو جائے (یعنی تزکیہ نفس ہو جائے )تو یہ آدمی کو کفار سے لڑائے بغیر چھوڑتا ہی نہیں چاہے زبان (یعنی لسانی جہاد ہو ) سے چاہے تلوار وسنان سے (میدان قتال میں ہو ) " (صفحہ 425)
جہاد اکبر اور جہاد اصغر کا دھوکہ :جب قوموں کے زوال کا دور شروع ہوتا ہے تو ہمتیں پست ہو جاتی ہیں اور حوصلے شکست کھا جاتے ہیں تو پھر عقابی روح پرواز کر جاتی ہے اور روباہی (لومڑیوں کی طرح مکاری و بزدلی ) آجاتی ہے اور اس ماحول میں انسان جرات کے ہر عمل کو کرنا ناگوار محسوس کرتا ہے اور بزدلی کے ہر راستہ کو طبعاپسند کرتا ہے اور اس تناظر میں اپنے ضمیر کی آواز دبانے کے لیے مکاری سے قانونی جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے لہذا وہ اپنے آپکو بدلنے کی بجائے قرآن کریم کو بدلنے پر اتر آتا ہے اور اپنے زور قلم سے نصوص شرعیہ میں قطع و برید کرنے سے بھی نہیں چوکتا نیز اسلاف کی درخشاں تاریخ کو اپنی پست ہمتی کے تابع بنانے کی کوشش کرتا ہے ،اس وقت دشمن تو آرام سے بیٹھ جاتا ہے اور زوال پزیر قوم خود بخود اپنے زوال کے منصوبے بناتی رہتی ہے ۔جب مسلمان مجموعی طور پر پستی کی طرف جانے لگے تو ان کے ہاں بھی معزرت خواہانہ جملے رائج ہونے لگے جن کی روشنی میں آرام طلبی اور سہولت پسندی کے اچھے بہانے فراہم کیے گئے اورعزيمت كي جگہ رخصتوں نے لے لی اور جب مسلمان کسی کارنامے یا نمایاں کردار یا تاریخ سازی کے اعمال سے محروم ہو گئے تومحرومی کے اس دور میں یہ جملہ گھڑا گیااور اس کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا۔ رَجَعنَا مِنَ الجِھَادِ الاَصغَرِ اِلَی الجِھَادِ الاَکبَرِ قَالُو ا وَمَا الجِھَادِ الاَکبَرِ ؟ قَالَ جِھَادُ القَلبِ یعنی حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف آگئے "۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا "یا رسول اللہ جہاداكبر كونسا جہاد ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "دل (جان)کا جہاد "(گویا کفار سے لڑنا چھوٹا جہاد ہے اور دل کی ریاضت بڑا جہادہے) اور اس کو حدیث کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ اس کی برکت سے مسلمانوں کے جزبات کا رخ اسلام کے دشمنوں کی بجائے اپنی جانوں ہی کی طرف مڑ جائے اور وہ طبلہ ود یگر آلات مو سیقی کی تھاپ و ساز پر تالیاں بجاکر اور قوالوں بلکہ (قوالنوں ) کے شریعت اسلامی کے منافی کلام پر جھوم جھوم کرداد دیتے ہوئے عشق و مستی میں اتنے مست و مخمور ہوں کہ اپنی حقیقت ، حیثیت و مقام کو بھول کر صوفی ڈانس میں اتنے مشغول ہو جائیں کہ ان کو اصل فریضہ جہاد و قتال سرے سے یاد ہی نہ رہے کہ جس کے لیے قرآن مجید کی تقریبا پانچ سو سے زیادہ آیات مبارکہ موجود ہیں اور غضب یہ کہ اس میں کچھ اتباع شریعت کے دعوی دار بھی شامل ہو جاتے ہیں جو اپنے پیروکاروں کو غیر مسنون اذکار اور اوراد کاورد اور حقیقی معنی و مفہوم سمجھےبغیر کلمہ طیبہ کی اتنی ضربیں دل و دماغ پر لگواتے ہیں کہ وہ ماؤف ہو کر رہ جائیں ،شیطان ان کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے کہ وہ خون کا ایک قطرہ بہاے بغیر اللہ تعالی کے قریب پہنچ گئے ہیں ،کاش ان نادانوں کو کلمہ کا وہ مفہوم معلوم ہوتا کہ جو آقا ئے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف اور احد کے معرکوں میں اپنے خون کا عطیہ دے کر سمجھایا اور حضر ت بلالرضی اللہ عنہ نے ننگی پیٹھ تپتی ہو ئی ریت اور سینہ پر گرم پتھر کا بوجھ سہتے ہوے احد احد کے کلمات کے ورد سے امت کو سمجھایا کہ ترک جان و تر ک مال و ترک سر
در طریق عشق اول منزل است
جہادبالنفس: اصل بات یہ ہے کہ خانقاہی نظام ایجاد ہی اسی لیےکیا گیا کہ اصلی جہاد کو ختم کیا جائے اور اسی وجہ سے ہمارے ملک کے تعلیمی نصاب میں بھی سب سے زیادہ زور تصوف کو دیا جاتا ہے اور نصاب تعلیم سے جہادی آیات اور اسباق کو چن چن کر نکالا جا رہا ہے تاکہ افعان جہاد کی بدولت جاگا ہو مسلم پھر تصوف کے نشے میں سر شار ہو کر پھر خواب خرگوش میں چلا چائے اور ایک ملحد سُپر طاقت کو پاش پاش کرنے والا یہ دیوانہ کہیں موجودہ دنیا کے نام نہاد دوسری سپر طاقت اور اس کے حواریوں کو بھی دیوار سے نہ لگادے اور اس کے ٹکڑوں پر پلنے والے بطن و فرج کے پجاری'مرشدان خودبین اپنے ذاتی مفادات کو ملک و قوم کے مفاد کا نام دے اصل سپر طاقت خالق کائنات کو بھول کر ان اللہ کے سپاہیوں کو گرفتار کرتے' مارتے اور دھمکیاں دیتےہیں کہ اگر تم نے ان طاغوتوں کی اطاعت نہ کی تو پتھر کے دور میں پہنچ جاؤگے اس لیے ان کے دجالی ورلڈ آرڈر کے تحت رہ کر صرف زبانی اللہ اللہ کرتے رہو' تلوار کےذریعہ دعوت اسلام دینے کی بجائے صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا کرو اور کفار کے زیر سایہ بے ضررقسم کے اسلامی احکامات پر عمل کرو جن کی اجازت اہل کفر دیں، اس لیے جہاد کو چھوڑ کر خانقاہی ٹائپ کا اسلام قبول کرلو بقول علامہ اقبال:
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقا ہی میں اسے
اور وہ "قہر درویش بر جان درویش" کا مکمل مرقع بن جائیں اور اسی لیے اس جملہ کو حدیث کا نام دے کر خوب مشتہر کیا گیا حلانکہ
(1) ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب موضوعات کبیر میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے فرمایا کہ لوگوں کے ہاں یہ حدیث زبانوں پر چڑھی ہوئی ہے۔حانکہ یہ ابراھیم بن عبلہ نامی شخص کا مقولہ ہے۔ تنظیم الاشتات شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث کے متعلق بحوالہ تعلق الصبیح اور تفسیر بیضاوی لکھا ہے کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث کی سرے سے کوئی اصل ہی نہیں ہے۔
(2) شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ عزیزی میں لکھا ہے کہ " میں نے اس کو کسی حدیث کی کتاب میں نہیں دیکھا ہے یہ کلام صوفیاء کا تو ہو سکتا ہے مگر حدیث ہر گز نہیں ہے نیز مفہوم کے لحاظ سے بھی تمام علماء نے اس کو جہاد اصغر سے واپس جہاد اکبر کی طرف لوٹنے کے معنی میں لیا ہے۔ نیز عبارات کو سمجھنے کا سلیقہ بھی اسی طرح نہیں ہے اور کتاب دانی کا طریقہ بھی یہ نہیں ہے ۔" (3)مشارع الاشواق الی مصارع العشاق میں ہے کہ " دشمنان اسلام نے جب دیکھا کہ مسلمان کے پاس اپنے دفاع اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد جیسی عظیم بنیادی قوت موجود ہے اور جب تک جہاد جاری ہے جو انشاء اللہ تا قیامت جاری رہے گا(مسلم شریف) دشمنان اسلام کے پیر جم نہیں سکتے تو انہوں نے جہاد کا زور تھوڑنے کے لیے اور اس کو کمزور کرنے کے لیے کئی سال کے غوروخوض' زرکثیر کے صرفہ اور منافقین کے ساتھ گٹھ جوڑ کے بعد اس مشکل کا یہ حل ڈھونڈھ لیا کہ مسلمان کو آسائش و آرائش میں ڈال کر جہاد فی سبیل اللہ کے راستے سے ہٹالیا جائے اور اس کے لیے انہوں نے یہ پُر فریب مہذب طریق کار اختیار کیا کہ انہوں نے جہاد کو اصغر و اکبر میں تقسیم کر دیا اور یہ سمجھا دیا کہ کفر سے جہاد کرنا چھوٹا جہاد ہے اور نفس کے ساتھ دھینگا مُشتی کرنا بڑا جہاد ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ان دشمنان اسلام(غالبا یہودیوں) نے احادیث گھڑ لیں اور ان کی نسبتت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر دی کیونکہ وہ خوب جانتے تھے کہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے مسلمان ان کو ضرور قبول کرلیں گے چنانچہ انہوں نے اسی طرح یہ حدیث بھی گھڑی جو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر واضح جھوٹ ہے۔ اور احادیث کی معتبر کتابوں میں یہ حدیث موجود نہیں۔" ابراھیم بن عبلہ اگرچہ ثقہ آدمی ہے مگر دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ ان کی طرف بھی اس عبارت کی نسبت واضح نہیں ہے۔ پھر اس من گھڑت حدیث کا کمزور مسلمانوں پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے جب دیکھا کہ نفس و شیطان کا مقابلہ سب سے بڑا جہاد ہے تو کفار سے اصل جہاد کرنے سے باز آگئے اور قتال سے کنارہ کش ہو کر تسبیح،ذکرو فکر، مراقبے، علم جفر اور علم الاداعداد( یعنی اپنی طرف سے خود حروف کی قیمت مقرر کر کے اصل آیات قرآنی سے انحراف کرنے کا بے بنیاد شیعی طریقہ) تعویذ گنڈے، عملیات، طلسمات اور ذہنی و جسمانی ریاضتوں میں جُت گئےتاکہ مال و جان کے مجاہدے اور جانفشانی کے بغیر نجات و فلاح سب کچھ تسبیح ے چند دانے پھرانے یا کسی صاحب قبر کی عنایات کے شارٹ کٹ کے ذریعے حاصل کر لی جائے گویا چند تعوذات کے ورد کرنے سے دشمن کے میزائل واپس لوٹ جائیں گے نیز ان کے چند پھونکوں سے دشمنوں کے ٹینکوں، توپوں، راکٹ لانچروں اور ہوائی جہازوں میں کیڑے پڑ جائیں گے اور بم اور گولہ بارود جم کر رہ جائیں گے۔ جب تا تاریوں نے سمر قند پر حملہ کیا تو بجائے جہاد کرنے کے وہاں کے امیر نے حکم دیا کہ ختم خواجگان کرالیا جائے اور نتیجہ سقوط سمر قند کی شکل میں آیا۔ جب نیپولین نے مصر پر حملہ کیا تو والی مصر کو علماء ازہر نے کہا کہ ختم بخاری کرلیتے ہیں بس یہی کافی ہے تو نتیجہ سقوط مصر ہی ہوا۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر مسلمانان عالم جہاد کی سیدھی شاہراہ چھوڑ کر خواہشات نفس میں ایسے پھنسے کہ سنت کو فرض پر اور مستحب کو واجب پر ترجیح دی جانے لگی اور 85 فیصد اصولوں پر سب مسلمان فرقوں کا اتفاق ہونے کے باوجود 15 فیصدی فروعات جن میں اختلاف رائے کی گنجائش ہے کو اتنا اچھالا گیا کہ یہی میدان جہاد بن گیاجس میں مد مقابل کفار کی بجائے کلمہ گو مسلمان ہی بنے۔ فتح مکہ کو ہی لےلیں فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار مجاہدین تھے وہ نصف گھنٹے میں بارہ ہزار مجاہد ہو گئے ان کی نمازیں بھی ابھی درست نہیں ہوئی تھیں ان سب کا اسلام بھی اسی طرح نا مکمل تھا نفس سے جہاد تو کجا ان کو تو " ایمان بنانے" کا موقع بھی نہ ملاتھا کہ حکم دیا گیا کہ جنگ حنین کے لیے چلو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کیا ان نو مسلم صحابہ رضی اللہ عنہم نے جہاد اصغر کیا تھا؟ یہ سب مسلمانوں کو غفلت میں ڈالنے کے بہانے ہیں اور اور اصطلاحات کے لغوی معنی کو شرعی معنی و مفہوم پر ترجیح دینے کا نتیجہ ہیں۔
غفلت کا انجام: اس غفلت کا دشمنان اسلام نے خوب فائدہ اٹھایا اور اہل ایمان بھی ان کے پھیلائے ہوئے دام فریب میں ایسے پھنسے کہ جہاد نفس کے نام سے افیون کی اس پینگ نے ان کو ہتھیار اُٹھاکر کفار کے خلاف جہاد کرنے کی بجائے تصوف اور بستر اٹھاکر جہاد کی فضیلت لوٹنے والوں کے چکر اور جہالت، بیماریوں حتٰی کہ مچھر کے خلاف بے شمار نام نہاد تقلی و جعلی جہادوں میں اتنا مشغول کر دیا کہ کفار کی طرف لا حق بے دینی اور غلامی کے خطرے سے بے فکر کر دیا اس لیے اصل جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ چھوڑنے کی وجہ سے دنیا کو شیطان وکفار کے لیے خالی چھوڑ دیا لٰھذا کفار غالب آگئے اور مسلمان ان کے غلام یا ان کے ایجنٹ بن کر رہ گئے اور ان کے پھیلائے ہوئے غلط پرو پیگنڈا کے نتیجہ میں ذہنی غلامی میں مبتلا ہو کر جہاد کو دہشت گردی غیر مہذب طریقہ کار سمجھنے لگے اور کفار و مشرکین کے ساتھ ملکر خود اپنے مقبوضہ علاقوں میں قتل و غارت حتٰی کہ مجاہدین اسلام کو بے پناہ اذیتیں دینے اور ذبح کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا یہاں تک کہ مجاہدین کو پکڑ پکڑ کر دشمنان اسلام کے حوالے کرنے پر فخر جتلانے لگے نیز بیت اللہ کی چھت پر نماز پڑھنے کو کارنامہ گنوانے لگے حالانکہ مشرکین مکہ بھی بیت اللہ کے اندر اور بیت اللہ کے چھت پر عبادت کرتے تھے لیکن اللہ نے اس کو قبول نہیں کیا۔ نیز لوٹ مار ، فحاشی، بے پردگی بر سر عام ہونے لگی۔ ان نام نہاد مسلمانوں ملکوں کے اسلحہ کے ڈھیر، جدیدترین حربی سازوسامان، گولہ بارود اور ان کی توپوں کا رخ دشمنوں کی پجائے اپنوں کی طرف ہوگیا، دشمنوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے یہ بہادر اپنوں ہی پر قوت آزمانے کے لیے دلیر ہو گئے اور ساتھ نہ دینے والوں کو جیل میں ڈال دیا اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ملک جا کر ان کو مار ڈالنے کی دھمکیاں دینے لگے۔
(4)خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اس عبارت سے ذرا مختلف ایک اور حدیث کا ذکر کیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک غزوہ سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" خوش آمدید تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ آئے ہو" ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی " بڑا جہاد کونسا ہے ؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" بندے کا اپنی خواہشات کے خلاف مجاہدہ کرنا بڑا جہاد ہے" اس حدیث پر محدیثین حاکم،ابویعلی،ابوزرعہ،احمدبن حنبل اور امام تیمیہ رحمہ اللہ نے جرح کرکے اس کو ضعیف ثابت کیا ہے۔
(5) قرآن کریم میں ہے۔ وَفَضلَ اللہُ المُجَاھِدینَ عَلَی القَاعِدِینَ اَجرً عَظِیمًاّ() ( اوراللہ تعالٰی نے مجاہدین کو گھر میں بیٹھنے والوں کے مقابلے میں اجر عظیم(فضیلت) کی بشارت دی(سورہ النساء95) یہ بات اس پوری آیت مبارکہ میں تین بار دہرائی گئی ہے ۔ اس کے مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں چونکہ فرض کفایہ میں اتنے آدمی جو اس کی ادائیگی کے لیے کافی ہوں (یعنی کفایت کرتے ہوں) اگر اٹھ کھڑے ہوں تو یہ فرض ادا ہو جاتاہے۔ اس لیے فرض کفایہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے ایک جماعت جہادکے لیے نکل گئی، باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ میں مقیم تھے جو جماعت جہاد پر گئی تھی ان کو اللہ تعالٰی نے دو امتیازات سے ممتاز کر دیا ایک یہ کہ بیٹھنے والوں کے مقابلہ میں جہاد پر جانے والوں کا درجہ بہت بلند ہے اور ان کو اجر عظیم ملے گا دوسرا یہ کہ جانے والے مجاہدین ہیں اور اس وقت جہاد پر نہ جانے والے قاعدین(بیٹھنےوالے) ہیں وہ مجاہدین نہیں ہیں۔ اب غور فرمائیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ میں رہ گئے تھے وہ سارے کے سارے نمازی، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداء میں مسجد نبوی میں نماز پڑھنے والے، (جس کی فضلیت کا کوئی شمار نہیں) تہجد گزار روزہ رکھنے والے، نیکیوں کے حریص، نفلی عبادات، صدقات اور تزکیہ نفس کے مشاغل میں مشغول رہتے تھے لیکن ان تمام محنتوں اور نفس و شیطان کے خلاف مجاہدہ کے باوجود ان کو مجاہدین نہیں فرمایا گیا بلکہ مجاہدین وہی ٹھہرے جو کفار سےلڑنے کے لیے نکلے تھے۔ اگر نفس سے مجاہدہ کرنے والا بھی مجاہد ہو جائے تو مندرجہ بالاآیت کا کیا مطلب لیا جاسکتا ہے۔؟ کیا معاذ اللہ اللہ میاں سے چوک ہوگئی تھی کہ تین باراسی آیت مبارکہ میں مجاہدین کو گھر بیٹھنے والے عابدین پر فضلیت دی اگر ایوان حکومت کے زیر سایہ پلنے والے مفتی صاحبان اس کا جواب دے سکیں تو بہت سے لوگوں کا بھلا ہوگا۔
(6)عمومًا اس جھوٹی حدیث کا تذکرہ فتح مکہ کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ جب نبی السیف صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے فورًا بعد غزوہ حنین میں شرکت فرمائی اور اس کے بعد کئی غزوات ہوئے جن میں غزوہ تبوک قابل ذکر ہے جو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور( 9 ھ )میں پیش آیا اسی غزوہ سے پہلے اور بعد میں سورۃ توبہ نازل ہوئی جو حقیقی معنوں میں جہاد پر اُبھارنے اور جہاد کے لیے تیار کرنے والی سورت ہے اور جو دشمنان اسلام، اور اسلام سے بیزارباغی مسلمانوں کو سب سے زیادہ کھٹکتی ہے۔ اس لیے اس زمانے میں جس طرح اسرائیل نے سورہ بقرہ( جو یہودیوں کی چالوں سیاہ کاریوں کو نمایاں کرتی ہے ) کو قرآن پاک سے خارج کرنے کی لا حاصل سعی کی بالکل اسی طرح ہمارے تعلیم کے نصاب سے سورہ انفال و سورہ توبہ نکال دینے کی مزموم کوشش کی گئی ہے، تاکہ نوجوانان اسلام جہاد کی اصل حقیقت نہ جان سکیں اور ان کو عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث کی طرح جہاد اصغر اور جہاد اکبر کی بھول بھلیوں میں گم کر دیا جائے نیز اگر اس " حدیث کو سچا مان لیا جائے تو یہ معاذ اللہ افضل الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر حرف لانے کے مترادف ہوگا" جنہوں نے خود 28 غزوات میں حصہ لیا نیز 56 بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سرایا (حملوں) کے لیے روانہ کیا۔ بقول شاعر
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے دریا کا ہمارے اترنا دیکھے۔
(7)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ابن آدم اللہ تعالٰی کی راہ میں مسلمان ہونے کے لیے نکلےگا شیطان کہتا ہے" کیا تو اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑتا ہے؟ " وہ جواب دیتا ہے " جا بھاگ میں تیری بات نہیں مانتا" اور جب وہ مسلمان ہوکر گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے لگا تو شیطان پھر درمیان میں آگیا اور کہنے لگا" اللہ تعالٰی کے بندے ان گلیوں میں تو کھیلتا رہا" یہاں تیری مجلس ، تیرے چاہنے والے ہیں تو اس زمین و آسمان کو چھوڑ دے گا تو بے وطن ہو جائے گا" تو اس مؤمن نے جواب دیا" بھاگ جا میں نےتیری بات نہیں مانی" اور پھر جو مؤمن یہ منزل طے کرکے جہاد کے لیے نکلا تو شیطان اس راہ حق میں روڑے ڈالنے آگیا" تو مارا جائے گا تیری بیوی سے دوسرے نکاح کریں گے' تیرے بچے یتیم ہو جا ئیں گے" پھر حضور نے فرمایا"(تاہم جب ) وہ شیطانی وساوس کو ٹھکر کر جہاد کے لیے نکل جاتا ہے (تو بالآخر) منزل پا لیتا ہے " ( نسائی، احمد) اس سے معلوم ہوا کہ نفس کے خلاف مجاہدہ کیے بغیر اور شیطانی ترغیبات ٹھکرائے بغیر کون جہاد فی سبیل اللہ میں شریک ہوگا؟
جاری ہے۔۔۔۔۔
واجد حسین
السلام علیکم
امید ہے کہ بہت سے دوستوں کو اس تھریڈ(دھاگے) سے ان کے کچھ سوالوں کے جواب مل جائیں گے
یہ میں نے ایک کتاب جس کا عنوان ہے “ آب حیات“ سے لی ہے
مرتبہ:۔ محمد صدیق احمد لیمبلیا
جو الصفہ فاؤنڈیسن کی ہے
جہاد بالنفس :۔اس سے مراد کفار کے مقابلے میں دین کی سر بلندی کے لیے جان کی قربانی پیش کرنا یا مشقت اٹھانا اور دین کی حمایت میں ہتھیار اٹھانا ہے گو یا آدمی اپنی ذات یعنی نفس کو کفار کے مقابلے کے لیے میدان قتال میں دھکیل دے۔ حق اور باطل کے معرکوں میں اپنے نفس کو مکمل طور پر جھونک دے قرآن مجید میں ہے " جہاد کرواللہ تعالی کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے "(الصف 11) جہاد بالنفس عربی کا کلمہ ہے اور بالنفس "ب"پر داخل ہے گویا نفس کے ساتھ جہاد کرنا ایسا ہے جیسے بندوق یا کسی ہتھیار کو ساتھ لے کر جہاد کرنا ۔یعنی جتنے آلات حرب و ضرب ہیں اس پر "ب"داخل ہونے کے بعد یہی مطلب ہوتا ہے کہ ان ہتھیاروں کے ساتھ مجاہد نے میدان جہاد میں کفار کا مقابلہ کیا اسی طرح جہاد بالنفس کا مطلب اس نفس یعنی جان کو کفار کے مقابلہ میں استعمال کیا جائے ۔اس جملہ کا یہی مطلب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین رحمتہ اللہ علیہم اجمعین نے لیا۔حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ وَالمُجَاھِدُ مَن جَاھَدَ نَفسَہ بِنفسِہ یعنی "مجاھد وہ ہےجو اپنے نفس سے اسی نفس کے ذریعہ جہاد کرے" گویا اپنے نفس کو میدان جہاد میں ڈال دے اور اسے کفار کے مقابلہ میں استعمال کرے یہ نفس کے ذریعہ کفار کا مقابلہ بھی ہو اور اس ضمن میں نفس کا مجاہدہ بھی ،کیونکہ نفس کا مجاہدہ اس عمل سے ہوتا ہے جو نفس کی خواہشات کے خلاف ہو اور ظاہر ہے میدان قتال میں جان ہتھلیی میں لے کر جانا نفس کو بہت ہی ناگوار معلوم ہوتا ہے اسی لیے جہاد سب اعمال میں افضل و برتر ہے (مسلم ترمزی ) اور جہاد کواللہ تعالٰی کا محبوب ترین عمل بتلایا گیا (متفق علیہ ) کو کب الدری میں ترمزی شریف کی ایک حدیث کی شرح میں ہے ۔ "اور یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ جہاد مع النفس اور جہاد مع الکفار دونوں میں آپس میں ایک جوڑ اور اتصال ہے کیو نکہ کفار سے لڑنے میں نفس کا مجاہدہ لا زما ہو تا ہی ہے ۔ کیونکہ نفس کے مجاہدے کے بغیر کفار سے لڑنے کا تصور بھی ممکن نہیں اور رہ گیا نفس کا مجاہدہ تو جب نفس کا مجاہدہ مکمل ہو جائے (یعنی تزکیہ نفس ہو جائے )تو یہ آدمی کو کفار سے لڑائے بغیر چھوڑتا ہی نہیں چاہے زبان (یعنی لسانی جہاد ہو ) سے چاہے تلوار وسنان سے (میدان قتال میں ہو ) " (صفحہ 425)
جہاد اکبر اور جہاد اصغر کا دھوکہ :جب قوموں کے زوال کا دور شروع ہوتا ہے تو ہمتیں پست ہو جاتی ہیں اور حوصلے شکست کھا جاتے ہیں تو پھر عقابی روح پرواز کر جاتی ہے اور روباہی (لومڑیوں کی طرح مکاری و بزدلی ) آجاتی ہے اور اس ماحول میں انسان جرات کے ہر عمل کو کرنا ناگوار محسوس کرتا ہے اور بزدلی کے ہر راستہ کو طبعاپسند کرتا ہے اور اس تناظر میں اپنے ضمیر کی آواز دبانے کے لیے مکاری سے قانونی جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے لہذا وہ اپنے آپکو بدلنے کی بجائے قرآن کریم کو بدلنے پر اتر آتا ہے اور اپنے زور قلم سے نصوص شرعیہ میں قطع و برید کرنے سے بھی نہیں چوکتا نیز اسلاف کی درخشاں تاریخ کو اپنی پست ہمتی کے تابع بنانے کی کوشش کرتا ہے ،اس وقت دشمن تو آرام سے بیٹھ جاتا ہے اور زوال پزیر قوم خود بخود اپنے زوال کے منصوبے بناتی رہتی ہے ۔جب مسلمان مجموعی طور پر پستی کی طرف جانے لگے تو ان کے ہاں بھی معزرت خواہانہ جملے رائج ہونے لگے جن کی روشنی میں آرام طلبی اور سہولت پسندی کے اچھے بہانے فراہم کیے گئے اورعزيمت كي جگہ رخصتوں نے لے لی اور جب مسلمان کسی کارنامے یا نمایاں کردار یا تاریخ سازی کے اعمال سے محروم ہو گئے تومحرومی کے اس دور میں یہ جملہ گھڑا گیااور اس کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا۔ رَجَعنَا مِنَ الجِھَادِ الاَصغَرِ اِلَی الجِھَادِ الاَکبَرِ قَالُو ا وَمَا الجِھَادِ الاَکبَرِ ؟ قَالَ جِھَادُ القَلبِ یعنی حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف آگئے "۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا "یا رسول اللہ جہاداكبر كونسا جہاد ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "دل (جان)کا جہاد "(گویا کفار سے لڑنا چھوٹا جہاد ہے اور دل کی ریاضت بڑا جہادہے) اور اس کو حدیث کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ اس کی برکت سے مسلمانوں کے جزبات کا رخ اسلام کے دشمنوں کی بجائے اپنی جانوں ہی کی طرف مڑ جائے اور وہ طبلہ ود یگر آلات مو سیقی کی تھاپ و ساز پر تالیاں بجاکر اور قوالوں بلکہ (قوالنوں ) کے شریعت اسلامی کے منافی کلام پر جھوم جھوم کرداد دیتے ہوئے عشق و مستی میں اتنے مست و مخمور ہوں کہ اپنی حقیقت ، حیثیت و مقام کو بھول کر صوفی ڈانس میں اتنے مشغول ہو جائیں کہ ان کو اصل فریضہ جہاد و قتال سرے سے یاد ہی نہ رہے کہ جس کے لیے قرآن مجید کی تقریبا پانچ سو سے زیادہ آیات مبارکہ موجود ہیں اور غضب یہ کہ اس میں کچھ اتباع شریعت کے دعوی دار بھی شامل ہو جاتے ہیں جو اپنے پیروکاروں کو غیر مسنون اذکار اور اوراد کاورد اور حقیقی معنی و مفہوم سمجھےبغیر کلمہ طیبہ کی اتنی ضربیں دل و دماغ پر لگواتے ہیں کہ وہ ماؤف ہو کر رہ جائیں ،شیطان ان کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے کہ وہ خون کا ایک قطرہ بہاے بغیر اللہ تعالی کے قریب پہنچ گئے ہیں ،کاش ان نادانوں کو کلمہ کا وہ مفہوم معلوم ہوتا کہ جو آقا ئے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف اور احد کے معرکوں میں اپنے خون کا عطیہ دے کر سمجھایا اور حضر ت بلالرضی اللہ عنہ نے ننگی پیٹھ تپتی ہو ئی ریت اور سینہ پر گرم پتھر کا بوجھ سہتے ہوے احد احد کے کلمات کے ورد سے امت کو سمجھایا کہ ترک جان و تر ک مال و ترک سر
در طریق عشق اول منزل است
جہادبالنفس: اصل بات یہ ہے کہ خانقاہی نظام ایجاد ہی اسی لیےکیا گیا کہ اصلی جہاد کو ختم کیا جائے اور اسی وجہ سے ہمارے ملک کے تعلیمی نصاب میں بھی سب سے زیادہ زور تصوف کو دیا جاتا ہے اور نصاب تعلیم سے جہادی آیات اور اسباق کو چن چن کر نکالا جا رہا ہے تاکہ افعان جہاد کی بدولت جاگا ہو مسلم پھر تصوف کے نشے میں سر شار ہو کر پھر خواب خرگوش میں چلا چائے اور ایک ملحد سُپر طاقت کو پاش پاش کرنے والا یہ دیوانہ کہیں موجودہ دنیا کے نام نہاد دوسری سپر طاقت اور اس کے حواریوں کو بھی دیوار سے نہ لگادے اور اس کے ٹکڑوں پر پلنے والے بطن و فرج کے پجاری'مرشدان خودبین اپنے ذاتی مفادات کو ملک و قوم کے مفاد کا نام دے اصل سپر طاقت خالق کائنات کو بھول کر ان اللہ کے سپاہیوں کو گرفتار کرتے' مارتے اور دھمکیاں دیتےہیں کہ اگر تم نے ان طاغوتوں کی اطاعت نہ کی تو پتھر کے دور میں پہنچ جاؤگے اس لیے ان کے دجالی ورلڈ آرڈر کے تحت رہ کر صرف زبانی اللہ اللہ کرتے رہو' تلوار کےذریعہ دعوت اسلام دینے کی بجائے صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا کرو اور کفار کے زیر سایہ بے ضررقسم کے اسلامی احکامات پر عمل کرو جن کی اجازت اہل کفر دیں، اس لیے جہاد کو چھوڑ کر خانقاہی ٹائپ کا اسلام قبول کرلو بقول علامہ اقبال:
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقا ہی میں اسے
اور وہ "قہر درویش بر جان درویش" کا مکمل مرقع بن جائیں اور اسی لیے اس جملہ کو حدیث کا نام دے کر خوب مشتہر کیا گیا حلانکہ
(1) ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب موضوعات کبیر میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے فرمایا کہ لوگوں کے ہاں یہ حدیث زبانوں پر چڑھی ہوئی ہے۔حانکہ یہ ابراھیم بن عبلہ نامی شخص کا مقولہ ہے۔ تنظیم الاشتات شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث کے متعلق بحوالہ تعلق الصبیح اور تفسیر بیضاوی لکھا ہے کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث کی سرے سے کوئی اصل ہی نہیں ہے۔
(2) شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ عزیزی میں لکھا ہے کہ " میں نے اس کو کسی حدیث کی کتاب میں نہیں دیکھا ہے یہ کلام صوفیاء کا تو ہو سکتا ہے مگر حدیث ہر گز نہیں ہے نیز مفہوم کے لحاظ سے بھی تمام علماء نے اس کو جہاد اصغر سے واپس جہاد اکبر کی طرف لوٹنے کے معنی میں لیا ہے۔ نیز عبارات کو سمجھنے کا سلیقہ بھی اسی طرح نہیں ہے اور کتاب دانی کا طریقہ بھی یہ نہیں ہے ۔" (3)مشارع الاشواق الی مصارع العشاق میں ہے کہ " دشمنان اسلام نے جب دیکھا کہ مسلمان کے پاس اپنے دفاع اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد جیسی عظیم بنیادی قوت موجود ہے اور جب تک جہاد جاری ہے جو انشاء اللہ تا قیامت جاری رہے گا(مسلم شریف) دشمنان اسلام کے پیر جم نہیں سکتے تو انہوں نے جہاد کا زور تھوڑنے کے لیے اور اس کو کمزور کرنے کے لیے کئی سال کے غوروخوض' زرکثیر کے صرفہ اور منافقین کے ساتھ گٹھ جوڑ کے بعد اس مشکل کا یہ حل ڈھونڈھ لیا کہ مسلمان کو آسائش و آرائش میں ڈال کر جہاد فی سبیل اللہ کے راستے سے ہٹالیا جائے اور اس کے لیے انہوں نے یہ پُر فریب مہذب طریق کار اختیار کیا کہ انہوں نے جہاد کو اصغر و اکبر میں تقسیم کر دیا اور یہ سمجھا دیا کہ کفر سے جہاد کرنا چھوٹا جہاد ہے اور نفس کے ساتھ دھینگا مُشتی کرنا بڑا جہاد ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ان دشمنان اسلام(غالبا یہودیوں) نے احادیث گھڑ لیں اور ان کی نسبتت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر دی کیونکہ وہ خوب جانتے تھے کہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے مسلمان ان کو ضرور قبول کرلیں گے چنانچہ انہوں نے اسی طرح یہ حدیث بھی گھڑی جو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر واضح جھوٹ ہے۔ اور احادیث کی معتبر کتابوں میں یہ حدیث موجود نہیں۔" ابراھیم بن عبلہ اگرچہ ثقہ آدمی ہے مگر دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ ان کی طرف بھی اس عبارت کی نسبت واضح نہیں ہے۔ پھر اس من گھڑت حدیث کا کمزور مسلمانوں پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے جب دیکھا کہ نفس و شیطان کا مقابلہ سب سے بڑا جہاد ہے تو کفار سے اصل جہاد کرنے سے باز آگئے اور قتال سے کنارہ کش ہو کر تسبیح،ذکرو فکر، مراقبے، علم جفر اور علم الاداعداد( یعنی اپنی طرف سے خود حروف کی قیمت مقرر کر کے اصل آیات قرآنی سے انحراف کرنے کا بے بنیاد شیعی طریقہ) تعویذ گنڈے، عملیات، طلسمات اور ذہنی و جسمانی ریاضتوں میں جُت گئےتاکہ مال و جان کے مجاہدے اور جانفشانی کے بغیر نجات و فلاح سب کچھ تسبیح ے چند دانے پھرانے یا کسی صاحب قبر کی عنایات کے شارٹ کٹ کے ذریعے حاصل کر لی جائے گویا چند تعوذات کے ورد کرنے سے دشمن کے میزائل واپس لوٹ جائیں گے نیز ان کے چند پھونکوں سے دشمنوں کے ٹینکوں، توپوں، راکٹ لانچروں اور ہوائی جہازوں میں کیڑے پڑ جائیں گے اور بم اور گولہ بارود جم کر رہ جائیں گے۔ جب تا تاریوں نے سمر قند پر حملہ کیا تو بجائے جہاد کرنے کے وہاں کے امیر نے حکم دیا کہ ختم خواجگان کرالیا جائے اور نتیجہ سقوط سمر قند کی شکل میں آیا۔ جب نیپولین نے مصر پر حملہ کیا تو والی مصر کو علماء ازہر نے کہا کہ ختم بخاری کرلیتے ہیں بس یہی کافی ہے تو نتیجہ سقوط مصر ہی ہوا۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر مسلمانان عالم جہاد کی سیدھی شاہراہ چھوڑ کر خواہشات نفس میں ایسے پھنسے کہ سنت کو فرض پر اور مستحب کو واجب پر ترجیح دی جانے لگی اور 85 فیصد اصولوں پر سب مسلمان فرقوں کا اتفاق ہونے کے باوجود 15 فیصدی فروعات جن میں اختلاف رائے کی گنجائش ہے کو اتنا اچھالا گیا کہ یہی میدان جہاد بن گیاجس میں مد مقابل کفار کی بجائے کلمہ گو مسلمان ہی بنے۔ فتح مکہ کو ہی لےلیں فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار مجاہدین تھے وہ نصف گھنٹے میں بارہ ہزار مجاہد ہو گئے ان کی نمازیں بھی ابھی درست نہیں ہوئی تھیں ان سب کا اسلام بھی اسی طرح نا مکمل تھا نفس سے جہاد تو کجا ان کو تو " ایمان بنانے" کا موقع بھی نہ ملاتھا کہ حکم دیا گیا کہ جنگ حنین کے لیے چلو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کیا ان نو مسلم صحابہ رضی اللہ عنہم نے جہاد اصغر کیا تھا؟ یہ سب مسلمانوں کو غفلت میں ڈالنے کے بہانے ہیں اور اور اصطلاحات کے لغوی معنی کو شرعی معنی و مفہوم پر ترجیح دینے کا نتیجہ ہیں۔
غفلت کا انجام: اس غفلت کا دشمنان اسلام نے خوب فائدہ اٹھایا اور اہل ایمان بھی ان کے پھیلائے ہوئے دام فریب میں ایسے پھنسے کہ جہاد نفس کے نام سے افیون کی اس پینگ نے ان کو ہتھیار اُٹھاکر کفار کے خلاف جہاد کرنے کی بجائے تصوف اور بستر اٹھاکر جہاد کی فضیلت لوٹنے والوں کے چکر اور جہالت، بیماریوں حتٰی کہ مچھر کے خلاف بے شمار نام نہاد تقلی و جعلی جہادوں میں اتنا مشغول کر دیا کہ کفار کی طرف لا حق بے دینی اور غلامی کے خطرے سے بے فکر کر دیا اس لیے اصل جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ چھوڑنے کی وجہ سے دنیا کو شیطان وکفار کے لیے خالی چھوڑ دیا لٰھذا کفار غالب آگئے اور مسلمان ان کے غلام یا ان کے ایجنٹ بن کر رہ گئے اور ان کے پھیلائے ہوئے غلط پرو پیگنڈا کے نتیجہ میں ذہنی غلامی میں مبتلا ہو کر جہاد کو دہشت گردی غیر مہذب طریقہ کار سمجھنے لگے اور کفار و مشرکین کے ساتھ ملکر خود اپنے مقبوضہ علاقوں میں قتل و غارت حتٰی کہ مجاہدین اسلام کو بے پناہ اذیتیں دینے اور ذبح کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا یہاں تک کہ مجاہدین کو پکڑ پکڑ کر دشمنان اسلام کے حوالے کرنے پر فخر جتلانے لگے نیز بیت اللہ کی چھت پر نماز پڑھنے کو کارنامہ گنوانے لگے حالانکہ مشرکین مکہ بھی بیت اللہ کے اندر اور بیت اللہ کے چھت پر عبادت کرتے تھے لیکن اللہ نے اس کو قبول نہیں کیا۔ نیز لوٹ مار ، فحاشی، بے پردگی بر سر عام ہونے لگی۔ ان نام نہاد مسلمانوں ملکوں کے اسلحہ کے ڈھیر، جدیدترین حربی سازوسامان، گولہ بارود اور ان کی توپوں کا رخ دشمنوں کی پجائے اپنوں کی طرف ہوگیا، دشمنوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے یہ بہادر اپنوں ہی پر قوت آزمانے کے لیے دلیر ہو گئے اور ساتھ نہ دینے والوں کو جیل میں ڈال دیا اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ملک جا کر ان کو مار ڈالنے کی دھمکیاں دینے لگے۔
(4)خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اس عبارت سے ذرا مختلف ایک اور حدیث کا ذکر کیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک غزوہ سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" خوش آمدید تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ آئے ہو" ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی " بڑا جہاد کونسا ہے ؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" بندے کا اپنی خواہشات کے خلاف مجاہدہ کرنا بڑا جہاد ہے" اس حدیث پر محدیثین حاکم،ابویعلی،ابوزرعہ،احمدبن حنبل اور امام تیمیہ رحمہ اللہ نے جرح کرکے اس کو ضعیف ثابت کیا ہے۔
(5) قرآن کریم میں ہے۔ وَفَضلَ اللہُ المُجَاھِدینَ عَلَی القَاعِدِینَ اَجرً عَظِیمًاّ() ( اوراللہ تعالٰی نے مجاہدین کو گھر میں بیٹھنے والوں کے مقابلے میں اجر عظیم(فضیلت) کی بشارت دی(سورہ النساء95) یہ بات اس پوری آیت مبارکہ میں تین بار دہرائی گئی ہے ۔ اس کے مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں چونکہ فرض کفایہ میں اتنے آدمی جو اس کی ادائیگی کے لیے کافی ہوں (یعنی کفایت کرتے ہوں) اگر اٹھ کھڑے ہوں تو یہ فرض ادا ہو جاتاہے۔ اس لیے فرض کفایہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے ایک جماعت جہادکے لیے نکل گئی، باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ میں مقیم تھے جو جماعت جہاد پر گئی تھی ان کو اللہ تعالٰی نے دو امتیازات سے ممتاز کر دیا ایک یہ کہ بیٹھنے والوں کے مقابلہ میں جہاد پر جانے والوں کا درجہ بہت بلند ہے اور ان کو اجر عظیم ملے گا دوسرا یہ کہ جانے والے مجاہدین ہیں اور اس وقت جہاد پر نہ جانے والے قاعدین(بیٹھنےوالے) ہیں وہ مجاہدین نہیں ہیں۔ اب غور فرمائیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ میں رہ گئے تھے وہ سارے کے سارے نمازی، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداء میں مسجد نبوی میں نماز پڑھنے والے، (جس کی فضلیت کا کوئی شمار نہیں) تہجد گزار روزہ رکھنے والے، نیکیوں کے حریص، نفلی عبادات، صدقات اور تزکیہ نفس کے مشاغل میں مشغول رہتے تھے لیکن ان تمام محنتوں اور نفس و شیطان کے خلاف مجاہدہ کے باوجود ان کو مجاہدین نہیں فرمایا گیا بلکہ مجاہدین وہی ٹھہرے جو کفار سےلڑنے کے لیے نکلے تھے۔ اگر نفس سے مجاہدہ کرنے والا بھی مجاہد ہو جائے تو مندرجہ بالاآیت کا کیا مطلب لیا جاسکتا ہے۔؟ کیا معاذ اللہ اللہ میاں سے چوک ہوگئی تھی کہ تین باراسی آیت مبارکہ میں مجاہدین کو گھر بیٹھنے والے عابدین پر فضلیت دی اگر ایوان حکومت کے زیر سایہ پلنے والے مفتی صاحبان اس کا جواب دے سکیں تو بہت سے لوگوں کا بھلا ہوگا۔
(6)عمومًا اس جھوٹی حدیث کا تذکرہ فتح مکہ کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ جب نبی السیف صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے فورًا بعد غزوہ حنین میں شرکت فرمائی اور اس کے بعد کئی غزوات ہوئے جن میں غزوہ تبوک قابل ذکر ہے جو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور( 9 ھ )میں پیش آیا اسی غزوہ سے پہلے اور بعد میں سورۃ توبہ نازل ہوئی جو حقیقی معنوں میں جہاد پر اُبھارنے اور جہاد کے لیے تیار کرنے والی سورت ہے اور جو دشمنان اسلام، اور اسلام سے بیزارباغی مسلمانوں کو سب سے زیادہ کھٹکتی ہے۔ اس لیے اس زمانے میں جس طرح اسرائیل نے سورہ بقرہ( جو یہودیوں کی چالوں سیاہ کاریوں کو نمایاں کرتی ہے ) کو قرآن پاک سے خارج کرنے کی لا حاصل سعی کی بالکل اسی طرح ہمارے تعلیم کے نصاب سے سورہ انفال و سورہ توبہ نکال دینے کی مزموم کوشش کی گئی ہے، تاکہ نوجوانان اسلام جہاد کی اصل حقیقت نہ جان سکیں اور ان کو عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث کی طرح جہاد اصغر اور جہاد اکبر کی بھول بھلیوں میں گم کر دیا جائے نیز اگر اس " حدیث کو سچا مان لیا جائے تو یہ معاذ اللہ افضل الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر حرف لانے کے مترادف ہوگا" جنہوں نے خود 28 غزوات میں حصہ لیا نیز 56 بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سرایا (حملوں) کے لیے روانہ کیا۔ بقول شاعر
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے دریا کا ہمارے اترنا دیکھے۔
(7)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ابن آدم اللہ تعالٰی کی راہ میں مسلمان ہونے کے لیے نکلےگا شیطان کہتا ہے" کیا تو اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑتا ہے؟ " وہ جواب دیتا ہے " جا بھاگ میں تیری بات نہیں مانتا" اور جب وہ مسلمان ہوکر گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے لگا تو شیطان پھر درمیان میں آگیا اور کہنے لگا" اللہ تعالٰی کے بندے ان گلیوں میں تو کھیلتا رہا" یہاں تیری مجلس ، تیرے چاہنے والے ہیں تو اس زمین و آسمان کو چھوڑ دے گا تو بے وطن ہو جائے گا" تو اس مؤمن نے جواب دیا" بھاگ جا میں نےتیری بات نہیں مانی" اور پھر جو مؤمن یہ منزل طے کرکے جہاد کے لیے نکلا تو شیطان اس راہ حق میں روڑے ڈالنے آگیا" تو مارا جائے گا تیری بیوی سے دوسرے نکاح کریں گے' تیرے بچے یتیم ہو جا ئیں گے" پھر حضور نے فرمایا"(تاہم جب ) وہ شیطانی وساوس کو ٹھکر کر جہاد کے لیے نکل جاتا ہے (تو بالآخر) منزل پا لیتا ہے " ( نسائی، احمد) اس سے معلوم ہوا کہ نفس کے خلاف مجاہدہ کیے بغیر اور شیطانی ترغیبات ٹھکرائے بغیر کون جہاد فی سبیل اللہ میں شریک ہوگا؟
جاری ہے۔۔۔۔۔
واجد حسین