واجدحسین
معطل
ستائیسواں باب
جہاد میں درد سر اور بیماری کی فضیلت اور ہر طرح کی موت کے شہادت ہونے کا بیان
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے : جہاد میں درد سر اور بیماری کی فضیلت اور ہر طرح کی موت کے شہادت ہونے کا بیان
( 1) [arabic]وَلَئِنْ قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ وَلَئِنْ مُتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لإلَى اللَّهِ تُحْشَرُونَ[/arabic] ( آل عمران 157. 158 )
اگر تم لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاؤ (شہید ہو جاؤ ) یا مر جاؤ تو یقیناً اللہ کی بخشش اور رحمت ان چیزوں سے بہتر ہے جن کو یہ لوگ جمع کر رہے ہیں اور اگر تم مر گئے یا شہید ہوگئے تو اللہ ہی کے پاس جمع کئے جاؤ گے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
( 2 ) [arabic]وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِي[/arabic]مًا (النساء ۔100 )
اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کرکے گھر سے نکل جائے پھر اس کو موت آپکڑے تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہو چکا اور اللہ تعالی بخشنے والا مھربان ہے
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
[arabic]وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقًا حَسَنًا وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ لَيُدْخِلَنَّهُمْ مُدْخَلا يَرْضَوْنَهُ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَلِيمٌ حَلِيمٌ [/arabic]( الج 58-59 )
اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ( یعنی دین کے لیے ) اپنا وطن چھوڑا پھر وہ لوگ ( جہاد میں کافروں کے ہاتھوں ) قتل کئے گئے یا مر گئے اللہ تعالی ان کو ضرور عمدہ رزق دے گا اور اللہ تعالی سب سے بہتر روزی دینے والے ہیں اللہ تعالی انہیں داخل فرمائیں گے ایسی جگہ جو کو وہ ( شہداء ) بہت پسند کریں گے اور اللہ تعالی خوب جاننے والے تحمل والے ہیں۔
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال اس قیام کرنے والے روزہ رکھنے والے جیسی ہے جو نماز اور روزے سے نہیں تھکتا [ یہ اجر مجاہد کو ملتا رہتا ہے ] یہاں تک کہ اللہ تعالی اجر یا غنیمت دے کر واپس گھر لوٹا دے یا اسے موت دیکر جنت میں داخل کردے ۔ (بخاری ۔ مسلم)
[ اس حدیث شریف میں موت کا ذکر ہے قتل کا نہیں یعنی اسے طبعی موت آجائے یا کسی اور طریقے سے وہ انتقال کر جائے ہر حال میں اس کے لیے جنت کا وعدہ ہے ] ۔
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم لوگ کس چیزکو شہادت شمار کرتے ہو ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ، اللہ کے راستے میں قتل ہونے والے کو [ ہم شہید شمارکرتے ہیں ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تب تو میری امت کے شہید بہت تھوڑے رہ جائیں گے [ یاد رکھو ] اللہ کے راستے میں قتل ہونے والا شہید ہے اور اللہ کے راستے میں اپنی سواری سے گر کر مرنے والا شہید ہے اور اللہ کے راستے میں پیٹ کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے اور اللہ کے راستے میں ذات الجنب کے پھوڑے سے مرنے والا شہید ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۔ ابوداؤد)
٭ حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ کے راستے میں نکلا پھر وہ [ طبعی موت ] مرگیا ۔ یا قتل کیا گیا [ وہ ہر حال میں ] شہید ہے ۔ وہ گھوڑے یا اونٹ سے گر گیا یا کسی زہریلے جانور نے اسے ڈس لیا یا وہ اپنے بستر پر مرگیا یا کسی بھی طرح سے جیسے اللہ نے چاہا وہ مر گیا تو وہ شہید ہے اور اس کے لیے جنت ہے ۔ ( ابوداؤد ۔ المستدرک )
٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کا قول نقل فرماتے ہیں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے میرا جو بندہ بھی میرے راستے میں میری رضا جوئی کے لیے جہاد میں نکلتا ہے میں اس کا ضامن ہوں کہ اگر میں نے اسے لوٹایا تو اجر یا غنیمت دیکر لو ٹاؤں گا اور اگر اس کی روح قبض کرلی تو اسے بخش دوں گا ۔ ( نسائی ۔ ترمذی )
٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ کے راستے میں قتل کیا جائے یا انتقال کر جائے گا وہ جنتی ہے ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ و رجالہ ثقات)
٭ خالد بن معدان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شہداء اللہ کی طرف سے امان پائے ہوئے لوگ ہیں وہ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے ہوں یا اپنے بستروں پر مرے ہوں ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک مرسلا)
٭ حضرت عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلا ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تین انگلیوں کو اکٹھا فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ارشاد فرمایا : کہاں ہیں اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے ؟ جو شخص اللہ کے راستے میں نکلا پھر وہ سواری سے گر کر مر گیا تو اس کا اجر اللہ کے ذمے پکا ہوگیاا اور اگر طبعی موت مر گیا تب بھی اس کا اجر اللہ کے ذمے پکا ہو گیا اور جو مار کر قتل کیا گیا تو جنت اس کے لیے واجب ہوگئی ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ۔ مسند احمد )
٭ حضرت عبدالرحمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سمندر میں دو جنازوں میں تشریف لائے ان میں سے ایک تو منجنیق [ کے گولے ] سے شہید ہوئے تھے جبکہ دوسرے کا انتقال ہوا تھا حضرت فضالہ رضی اللہ عنہ اس کی قبر پر بیٹھ گئے جس کا انتقال ہوا تھا کسی نے ان سے کہا آپ نے شہید کی قبر چھوڑ دی [ اور اس طبعی موت مرنے والے کی قبر پر بیٹھ گئے ] حضرت فضالہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے کچھ پروا نہیں کہ ان دو طرح کی قبروں میں سے کسی قبر میں سے میں اٹھایا جاؤں [ یعنی میرے نزدیک جہاد میں شہید ہونا اور مرنا برابر ہے اور میں اپنے لیے ان دونوں میں سے ہر ایک قبر کو پسند کرتا ہوں ]
بیشک اللہ تعالی فرماتا ہے :
[arabic]وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقًا حَسَنًا وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ لَيُدْخِلَنَّهُمْ مُدْخَلا يَرْضَوْنَهُ [/arabic]( الج 58-59 )
اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ( یعنی دین کے لیے ) اپنا وطن چھوڑا پھر وہ لوگ ( جہاد میں کافروں کے ہاتھوں ) قتل کئے گئے یا مر گئے اللہ تعالی ان کو ضرور عمدہ رزق دے گا اور اللہ تعالی سب سے بہتر روزی دینے والے ہیں اللہ تعالی انہیں داخل فرمائیں گے ایسی جگہ جس کو وہ ( شہداء ) بہت پسند کریں گے ۔
اے بندے اگر تجھے پسندیدہ جگہ پر داخل کر دیا جائے اور بہترین روزی عطاء کر دی جائے تو پھر تجھے اور کیا چاہئے ۔ اللہ کی قسم میں پروا نہیں کرتا ان دو قبروں می سے کس سے میں اٹھایا جاؤں گا ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک ۔ والطبری فی التفسیر )
٭ حمید بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں سے ایک کا اسم گرامی حممہ رضی اللہ عنہ تھا وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں [جہاد کے لیے ] اصفہان تشریف لائے اور انہوں نے دعاء فرمائی اے میرے پروردگار حممہ کو گمان ہے کہ وہ تجھ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اگر حممہ اپنے اس گمان میں سچا ہے تو آپ اس کے گمان کو سچا فرما دیجئے اور اگر جھوٹا ہے تب بھی اسے یہ عطاء فرما دیجئے اگرچہ وہ ناپسند کرے اے میرے پروردگار حممہ کو اس سفر سے واپس نہ لوٹائیے اس کے بعد ان کے پیٹ میں تکلیف ہوئی اور اصفہان ہی میں ان کا انتقال ہوگیا اس پر حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے فرمایا اے لوگوں ! ہم نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے اور جو کچھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہم تک پہنچا ہے اس کے مطابق حممہ کو شہادت والی موت نصیب ہوئی ہے ۔ ( اسد الغابہ ۔ ابن مندہ ۔ ابونعیم )
٭ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ کے راستے میں قتل کیا گیا وہ شہید ہے اور جس نے اللہ کے راستے میں گھوڑا تیار کیا پھر اپنے بستر پر مر گیا وہ شہید ہے اور جس نے اللہ کے راستے میں اسلحہ یا گھوڑا تیار کرنے کا ارادہ کیا مگر تیار کرنے سے پہلے مر گیا تو وہ بھی شہید ہے اور اگر اس کی نیت تو ہے کہ اسلحہ یا گھوڑا تیار کرے مگر اسے اس کی استطاعت نہیں ملی اور وہ مر گیا تو وہ بھی شہید ہے ۔ ( شفاء الصدور )
مسئلہ
بعض علماء کرام کا خیال ہے کہ اللہ کے راستے میں مارا جانے والا اور انتقال کرنے والا بالکل برابر ہیں ۔
ان کی دلیل ام حرام رضی اللہ عنہا کا واقعہ ہے جنہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم پہلوں میں سے ہو اور ان کا گھوڑے سے گر کر انتقال ہوا تھا ۔ ( بخاری )
دوسرے علماء کرام کا یہ خیال ہے کہ اللہ کے راستے میں قتل ہونے والے کو کچھ زیادہ فضائل حاصل ہیں یہی زیادہ درست معلوم ہوتا ہے ان حضرات کے دلائل یہ ہیں ۔
(1 ) ٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا سب سے افضل جہاد کون سا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس میں تمھارے گھوڑے کو مار دیا جائے اور تمھیں بھی قتل کر دیا جائے ۔ ( موارد الظمآن)
( 2 ) وہ شخص جو کسی چیز کی نیت کرے اور پھر اسے پا بھی لے وہ یقیناً اس سے افضل ہے جو کسی چیز کی نیت تو کرے مگر اسے پا نہ سکے۔
( 3 ) شہید کو قرآن مجید نے مردہ کہنے سے منع کیا ہے ۔
( 4 ) شہید کو ان زخموں کا بھی اجر ملے گا جو اسے لگتےہیں ۔ان زخموں کے فضائل پہلے گزر چکے ہیں ۔
( 5 )شہید جنت میں جاکر دنیا میں واپس آکر بار بار شہید ہونے کی تمنا کرے گا ممکن ہے کہ اللہ کے راستے میں مرنے والا بھی واپسی کی تمنا کرے مگر وہ بھی واپس آکر قتل ہونے کی تمنا کرے گا ۔ اسی سے قتل ہونے کی فضیلت ثابت ہو گئی ۔
( 6 ) شہید پر جو احکام جاری ہوتے ہیں مثلاً اسے غسل نہیں دیا جاتا بعض ائمہ کے ہاں اس کی جنازہ کی نماز بھی نہیں پڑھی جاتی ۔ [ جبکہ احناف کے ہاں جنازہ تو پڑھا جاتا ہے مگر غسل وغیرہ نہیں دیا جاتا ] یہ احکام میت کے لیے نہیں ہیں اسی طرح اور بھی بہت سارے فضائل شہید کو حاصل ہیں ۔
[ اللہ کے راستے میں کوئی قتل ہو یا اس کا کسی اور طرح سے انتقال ہو جائے وہ بلا شبہ شہید ہے جیسا کہ اوپر احادیث گزر چکی ہیں بندے کا کام صرف اتنا ہے کہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اللہ تعالی کے حضور پیش کردے ۔ پھر آگے اللہ تعالی کی مرضی ہے کہ وہ کس طرح سے اسے قبول کرتا ہے ۔ چونکہ بندے نے اپنی ذمے داری اداء کر دی ہے اس لیے اب اسے جس طرح بھی موت آئے وہ اللہ کے ہاں بڑے مقامات اور مغفرت کا مستحق بنتا ہے ۔ جہاں تک قتل ہونے والے کے خصوصی فضائل کا تعلق ہے تو ان کی مثال سونے پر سہاگے جیسی ہے اور بس ]
فصل
٭ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کے سر میں اللہ کے راستے [ جہاد ] میں نکل کر درد ہوا اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ )
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں جو شخص اللہ کے راستے میں نکل کر ایک دن بیمار ہوا اللہ تعالی اسے ایک سال کی عبادت کا اجر عطاء فرماتا ہے ۔ ( ابن عساکر )
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو اللہ کے راستے میں ایک دن بیمار ہوا تو یہ ایک ہزار غلام آزاد کرنے اور انہیں جہاد کا سامان دینے اور قیامت کےدن تک اس پر خرچ کرنے سے افضل ہے ۔ ( شفاء الصدور )
[ مجاہد اللہ تعالی کو بہت پیارا ہے اور اللہ تعالی کی رحمت بہت وسیع ہے اس لیے مجاہد کی بیماری پر اتنے فضائل کا ملنا کچھ بعید بات نہیں ہے ۔ بس اللہ تعالی مسلمانوں کو اس راستے کی سمجھ عطاء فرمادے پھر ان کے لیے خیر ہی خیر ہے اور فضائل ہی فضائل ۔
یا اللہ ہم سب مسلمانوں کو جہاد کی سمجھ عطاء فرما۔ ( آمین ثم آمین ) ]