جب سے ایران میں ایک انقلاب آیا تب سے ہمارےپروٹوکول، شہرت اور جاہ و جلال کے رسیا سیاستدانوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ اگر انقلاب وغیرہ وغیرہ لانا ہے یا ملک کے اندر اپنی مقبولیت اور شہرت بڑھانی ہے تو پہلے کچھ عرصہ ملک سے باہر رہا جائے، خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی جائے اور اس کے بعد وطن واپس ہوا جائے۔ اور اس سارے ایونٹ کی ڈھیروں ڈھیر کوریج ہو، ٹی وی چینلز کی سکرینیں ان کے چہروں کے علاوہ کچھ نہ دیکھائیں اور ہر طرف ان کے نعرے گونجیں۔
یہ الگ بات ہے کہ ان استقبالوں اور انقلابوں کے نعروں کی گونج سےسب سے زیادہ عام آدمی کی زندگی ہی متاثر ہوتی ہے اور جان بھی ان غریبوں کی ہی جاتی ہے۔ پھر کچھ سیاسی و فقہی اختلاف رکھنے والے تماش بین بھی ہوتے ہیں جو دونوں طرف کے کرتوتوں سے لطف اندوز ہو ہو کر خوب بے پرکیاں اڑا تے اور تماشے کو انجوائے کر رہے ہوتے ہیں۔ رہی سہی کسر ٹیلی میڈیا نکال دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
آج یہاں حالات کو بہتری کی طرف لانے کی بجائے جلتی پر تیل ڈالنے والے زیادہ ہیں، کیونکہ کسی کو حکومت کے سیاسی نظریات سے اختلاف ہے اور کسی کو محترم طاہر القادری صاحب سے فقہی اختلافات ہیں۔