دل پاکستانی
محفلین
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، ٹھٹہ، سندھ
مزار کے احاطے کے اندر اور باہر کوئی ایک درجن کے قریب افراد زنجیروں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں
دونوں بڑے کمروں میں سے درد انگیز چیخوں کی آوازیں آ رہی تھیں مگر یہ کسی ہسپتال کا منظر نہیں بلکہ شاہ یقیق اور جلالی بابا کی درگاہوں پر موجود مرد اور عورتوں کی آوازیں تھیں جو درگاہ کے جنگلوں سے لپٹے ہوئے تھے۔
سندھ کےساحلی شہر ٹھٹہ سے تقریباً اسی کلومیٹر دور سجاول روڈ پر واقع ان دونوں درگاہوں پر کئی لوگ اپنی بیماریاں لے کر آتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ وہ یہاں سے صحتیاب ہوکر جائیں گے۔ ان مزاروں پر سارا دن زائرین کی آمد جاری رہتی ہے۔
شاہ یقیق عرف سرجن بابا کی درگاہ پر آنے والے زائرین کا ماننا ہے کہ جن بیماریوں کا علاج بڑے بڑے سرجن نہیں کرسکے ان بیماریوں میں مبتلا مریض یہاں روحانی آپریشن کے بعد صحتیاب ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے ہی کسی عقیدت مند نے مزار کے دروازے پر سرجن بابا لکھوا دیا ہے۔
درگاہوں میں ایک مسافر خانہ بھی موجود ہیں جسے وارڈ تصور کیا جاتا ہے اور زمین پر لگے ہوئے بستر بیڈ سمجھے جاتے ہیں۔
مسافر خانے کے بستر نمبر ایک پر موجود مسماۃ توفیق گزشتہ بیس سال سے یہاں موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں اور ڈاکٹروں نے انہیں لاعلاج قرار دے دیا تھا جس کے بعد انہیں خواب میں حکم ہوا اور وہ یہاں آگئیں۔
جب یہاں آئی تو ڈھانچہ تھی اور مرنے کے قریب تھی مگر خدا کا شکر ہے کہ یہاں شاہ یقیق نے ہمارے پر ہاتھ رکھا اور زہر نکالا ورنہ میں نے تو چھ ماہ سے روٹی بھی نہیں کھائی تھی صرف دلیہ کھا رہی تھی
توفیق جہاں
’میں جب یہاں آئی تو ڈھانچہ تھی اور مرنے کے قریب تھی مگر خدا کا شکر ہے کہ یہاں آئی تو انہوں نے ( شاہ یقیق ) نے ہم پر ہاتھ رکھا اور زہر نکالا ورنہ میں نے تو چھ ماہ سے روٹی بھی نہیں کھائی تھی صرف دلیہ کھا رہی تھی۔‘
یہاں آنے والے زائرین میں اکثر شوگر، کینسر، گردے ، پیٹ کی تکلیف اور بینائی کی کمزوری جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ان میں بزرگ عبدالرحمان بھی شامل ہیں جو ہزارہ کے رہائشی ہیں۔’پاؤں میں شوگر کا زخم تھا جو ٹھیک ہوگیا مگر دوبارہ ہوگیا ہے پھر ٹھیک ہوجائے گا۔‘ عبدالرحمان کو درگاہ پر آئے گیارہ سال ہوگئے ہیں۔ وہ شوگر میں مبتلا ہونے کے باوجود کوئی پرہیز نہیں کرتے مگر پھر بھی انہیں یقین ہے کے زخم ٹھیک ہوجائے گا۔
شاھ یقیق کے مزار پر لنگر حاصل کرنے کے لئے ہسپتال جیسا ہی نظام رائج ہے یعنی مریض کا نام درج کرانا لازمی ہے۔
مزار پر ایک نوجوان مچھیرے سے بھی ملاقات ہوئی جن کو پیٹ میں تکلیف کی شکایت تھی۔ ان کا کہنا ہے ڈاکٹر اس بیماری کا پتہ نہیں چلا سکے اس لیے وہ یہاں آئے ہیں اور اب بہت بہتر محسوس کر رہے ہیں۔
مزار کے داخلی راستے پر ایک تختی لگی ہوئی ہے جس میں تصویر اتارنے سے منع کیا گیا ہے اور برابر میں موجود قبریں جو سید زادیوں کی بتائی جاتی ہیں وہاں صرف خواتین کو جانے کی اجازت ہے۔
احاطے میں داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ پر ایک شخص نے کئی پڑیاں لٹکا رکھی ہیں۔ لوگ پانچ، دس یا اس سے زائد روپے دے کر یہ پڑیاں لیتے ہیں۔ اس شخص نے پوچھنے پر بتایا کہ ان میں صرف نمک ہے جبکہ دیئے میں استعمال ہونے والے تیل بھی وہ تبرک کے طور پر دیتے ہیں۔
یہاں آنے والے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ان پر بھوت پریت کا سایہ یا ان پر جادو کیا گیا ہے
مزار کے باہر ایک قدیمی کنواں موجود ہے جس کے پانی کی شفاء کی کئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔
شاہ یقیق کے مزار سے چند قدم کے فاصلے پر عبداللہ شاہ بخاری عرف جلالی بابا کا مزار ہے۔ اس مزار کے چاروں طرف زمین پر لوگوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ یہاں کوئی والدہ کو لے کر آیا ہے، کوئی والد تو کوئی اپنی نوجوان لڑکی کی وجہ سے پریشان نظر آتا ہے۔
یہاں آنے والے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ان پر بھوت پریت کا سایہ یا ان پر جادو کیا گیا ہے۔
کراچی سے آنے والی ایک خاتون نے بتایا ’مجھ پر شادی سے پہلے ہی سفلی کالا علم کیا گیا تھا جس میں شادی کی بندش بھی تھی مگر ظاہر بعد میں ہوا۔ میں نے سنا تھا کہ یہاں غیبی علاج ہوتا ہے مگر مانتی نہیں تھی کیونکہ ہم وہابی مسلک کے لوگ ہیں۔ یہاں میں آئی اور دعا مانگی کہ اگر آپ واقعی علاج کرتے ہیں تو مجھے گھر سے بلا لیں۔ جس کے بعد گھر گئی اور بشارت ملی۔‘
یہ خاتون جنہیں اب طلاق ہوچکی ہے کا کہنا ہے کہ انہیں یہ پتہ ہے کہ ان پر کس نے جادو کیا ہے اور یہ سب کچھ انہیں حاضری میں بتایا گیا ہے اور یہ بات جادو کرنے والی خاتون بھی جانتی ہیں۔
ان مزاروں پر مختلف مذاہب اور فرقے کے لوگ نظر آتے ہیں۔ جلالی بابا کے مزار کے کمرے میں عطر کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوتی ہے۔ اور چندے کی پیٹی پر ایک شخص موجود ہے جو مور کے پروں سے بنا ہوا جھاڑو سر پر پھیرتا ہے اور زائرین حسب حیثیت رقم پیٹی میں ڈال دیتے ہیں۔
لوگوں کو زنجیروں سے باندھنا جرم ہے اور وہ لوگوں کو ایسا کرنے سے روکتے ہیں ۔ مگر ان کا کنہا ہے کہ یہ مریض بھاگ جائیں گے اور کسی کو نقصان پہنچائیں گے۔جس کے بعد وہ خود ان کو باندھ دیتے ہیں
محمد عرس
شاھ یقیق اور جلالی بابا کے مزاروں کے درمیاں موجود گلی میں بازار ہے جس میں ہوٹل اور پھولوں کے دوکانیں ہیں جن سے ہر زائرین پانچ روپے کی اگربتی، پانچ کے پھول اور دس روپے کا تیل خریدتا ہے۔ جبکہ ہوٹل پر بھارتی فلموں کے گیتوں کے ساتھ قوالیاں بھی سننے کو ملتی ہیں۔
محمد شریف جن کی عمر ساٹھ سال ہوگی اپنے نوجوان بیٹے کے ساتھ آئے تھے۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔
محد شریف نے بتایا کہ ’ پہلے بھی آئے تھے سرکار نے ٹھیک کردیا تھا، گھر جاتے ہیں یہ چیخ و پکار کرتے اور دوڑتے ہیں ۔ لیکن یہاں آ کر ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ نشے نہیں کرتے وہ لوگوں کی طرف اشارہ کرتے کہتے ہیں کہ یہ سب حاضری والے ہیں کسی پر جنات تو کسی پر بھوت ہے ۔‘
ایک نوجوان لڑکی جس نے شرٹ اور جینز پہنی ہوئی تھی اور اس کے اوپر ابایا پہنا تھا۔ مزار کے اندر چکر لگاتی رہی تھی جبکہ اس کے پیچھے اس کی ماں آہستہ آہستہ چل رہی تھی ۔وہاں ایسی کئی اور بھی نوجوان لڑکیاں تھیں جن کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے۔
ان لڑکیوں میں سے ایک کے والد سے بیماری دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ ’ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ انہیں بخار آتا ہے ڈاکٹروں کے پاس گئے تھے مگر فائدہ نہیں ہوا جس کے بعد خواب میں حکم ہوا اور انہیں یہاں لے کر آ گئے ہیں۔ ہمارا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ جس کا ایمان سچا ہے وہ یہاں سے خالی ہاتھ نہیں جاتا لیکن وقت ضرور لگتا ہے ۔‘
دونوں مزاروں پر ٹھٹہ اور بدین کے ان علاقوں سے لوگ آتے جہاں صحت کی کوئی سہولت نہیں مگر اکثریت کراچی کے پسماندہ علاقوں کے لوگوں کی ہے۔
جلالی بابا کے مزار کے عقب میں موجود ہوٹلوں کا پانی ایک گڑھے میں جمع ہوتا ہے جہاں سے لوگ مٹی نکال کر چہرے، سر اور آنکھوں کو ملتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس سے انہیں راحت ملتی ہے۔
مزار کے احاطے کے اندر اور باہر کوئی ایک درجن کے قریب افراد زنجیروں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ان دونوں مزاروں کی سرپرستی حکومت کا محکمہ اوقاف کرتا ہے۔ محکمہ کے اہلکار محمد عرس خود بھی معجزات اور ان مزاروں سے شفا ملنے پر یقین رکھتے ہیں۔ لوگوں کو زنجیروں سے باندھنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ جرم ہے اور وہ لوگوں کو ایسا کرنے سے روکتے ہیں مگر لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے یہ رشتہ دار بھاگ جاتے ہیں اور کسی کو نقصان پہنچائیں گے اس لیے وہ خود ہی ان کو باندھ دیتے ہیں۔
شاہ یقیق اور جلالی بابا کی مزاروں کے قریب کچھ دیگر مزار بھی موجود ہیں جن کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اب بنے ہیں۔ لیکن اب ان پر بھی لوگ جاکر دیئے روشن کرتے ہیں۔
دونوں مزاروں پر ٹھٹہ اور بدین کے ان علاقوں سے لوگ آتے جہاں صحت کی کوئی سہولت نہیں مگر اکثریت کراچی کے پسماندہ علاقوں کے لوگوں کی ہے۔
چار سو گھروں پر مشتمل گاؤں شاہ یقیق میں پینے کے صاف پانی کی بھی سہولت موجود نہیں ہے۔ جبکہ مزاروں کی موجودہ عمارتیں بھی زائرین نے ہی بنوائی ہیں ۔ مقامی لوگوں کے لیے یہ درگاہیں روزگار کا ذریعہ اور زائرین کے لیے بیماری سے نجات کا وسیلہ ہیں۔