مہ جبین
محفلین
جہاں اُن کے نقشِ قدم دیکھتے ہیں
جبینِ مہ و مہر خم دیکھتے ہیں
محمد کی مدحت متاعِ سخن ہے
ہم انوارِ لوح و قلم دیکھتے ہیں
سلامت دمِ آرزوئے محمد
کہ آباد دل کا حرم دیکھتے ہیں
ہم اہلِ نظر ہر نفس لوحِ دل پر
وہ اسمِ گرامی رقم دیکھتے ہیں
ضیا بار ہے دل میں عشقِ محمد
فروزاں چراغِ حرم دیکھتے ہیں
درِ مصطفےٰ سے سرِ لامکاں تک
دو عالم کے جلوے بہم دیکھتے ہیں
تصور میں ہیں یوں تو جلوے ہی جلوے
مگر وہ تجلی جو ہم دیکھتے ہیں
کبھی دیکھتے ہیں ایاز اُن کی جانب
کبھی دامنِ چشمِ نم دیکھتے ہیں
ایاز صدیقی