جہاں تاریخ روتی ہے

Rashid Ashraf

محفلین
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے


cleardot.gif

معروف صحافی، شاعر و دانشور جناب محمود شام کا تازہ مجموعہ کلام "جہاں تاریخ روتی ہے" شائع ہوگیا ہے۔
محمود شام راجپورہ ریاست پٹیالہ میں 1940 میں پیدا ہوئے، 1947 میں پاکستان ہجرت کی، پہلا پڑاؤ جھنگ میں ڈالا، وہیں رہتے ادب کی طرف مائل ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جھنگ میں اور پھر لاہور کا قصد۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے فلسفہ میں داخلہ، کالج میگزین راوی کے مدیر بھی رہے۔ پھر ایک اور ہجرت، اس مرتبہ عالم میں انتخاب کراچی تھا۔ پھر یوں ہوا کہ یہ شہر محمود شام کو راس آگیا، ملک کے سب سے بڑے اخبار سے برسوں وابستہ رہے، اس دوران ان کے اخبار کے ساتھی انہیں ملکوں ملکوں ڈھونڈتے تھے لیکن شام صاحب نایاب نہ ہوئے، گھوم پھر کر اور عالمی لیڈران کے انٹرویو لے کر رخ سوئے کراچی ہوتا تھا۔ پھر ایک روز صحافتی حلقوں میں یہ خبر حیرت سے سنی گئی کہ شام صاحب نے ادارہ جنگ چھوڑ دیا ہے، لیکن چونکہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں، سو یہ بھی ہوا۔
اپنی ویب سائٹ بنانا بیرونی دنیا و احباب سے رابطے کا آسان ترین طریقہ ہے، شام صاحب نے اس جانب بھی توجہ دی ہے:www.mahmoodsham.com
"جہاں تاریخ روتی ہے" کے ابتدا میں میں محمود شام اپنے قاری سے مخاطب ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ " اب جب کہ میری عمر کے 72 سال پورے ہورہے ہیں، مجھے بھی اندازہ نہیں ہوتا، ملنے والوں کو بھی کہ اتنی مسافت طے کرچکا ہوں۔ میں نے اگرچہ قادر الکلام شاعر طاہر سردھنوی سے اصلاح لی لیکن جب میری شاعری نے آنکھ کھولی تو شیر افضل جعفری کا نام گونج رہا تھا۔ ایسے ماحول میں جب ہم سے شعر ہونے لگے تو میں بار بار یہی سوچتا تھا کہ میں اردو شاعری کی تاریخ کے جس موڑ پر مشق سخن کررہا ہوں، میرا اسلوب کیا ہونا چاہیے۔ میں نے ٹیلی فون ، ڈائری جیسے نئے الفاظ کو شعر میں داخل کرنے کی جسارت کی، یہ ساٹھ کے عشرے کی بات ہے۔ کار، فٹ پاتھ، اپنے شہروں کے مقامات، شاہراہیں، سب کا ذکر ضروری سمجھا۔ جب حافظ شیراز گلگشت مصلی، آب رکنا باد کا ذکر کرسکتے ہیں تو میں سندھو ندی، راوی، چناب، دی مال ، کلفٹن کا مضمون کیوں نہیں باندھوں۔"
نمونہ کلام ملاحظہ ہو.
کتاب سے اس مختصر انتخاب میں راقم نے حالات حاضرہ اور سلگتے ہوئے مسائل کی نشان دہی کرتی تخلیقات پر توجہ دی ہے۔ وطن عزیز یوں تو ہمیشہ ہی سے عاقبت نااندیش لوگوں کے ہاتھوں میں رہا ہے لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے تو "جہاں میں صدیوں پہلے رد ہوئے" کاسہ لیسوں نے قوم کو جکڑ رکھا ہے۔ کراچی کی بات کریں تو ادھر کچھ اس شہر نگاراں کے لوگ بھی ظالم ہوئے ہیں، کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق رہا ہے، اس جانب بھی شاعر نے خصوصی توجہ دی ہے:

ماں یا بنجر پہاڑی
مرے بیٹے کو جس نے گولیاں ماریں
تشدد سے بدن کاٹا
اکہری انگلیاں توڑیں
مرے بچے کو بوری جس نے پہنائی​
مجھے بھی اس سے ملوا دو
میں دیکھوں اس کے خوں آلود ہاتھوں کو
کھلی سفاک آنکھوں کو​
بھری ممتا سے پھر پوچھوں
کہ اس کی ماں مرے جیسی کوئی عورت ہے
یا بنجر پہاڑٰی ہے​
---------------​
اڑتی رہتی ہے دور دور خوشی
حادثے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
خواہش انقلاب میں یوں تو
یار لوگوں کے دل مچلتے ہیں​
--------------​
راہبر وہ ہی رہیں راہ دکھائیں ہم لوگ
وہ تو معذور ہیں یہ فرض نبھائیں ہم لوگ​
--------------​
جس کے آنگن میں خواب اگتے ہیں
آئیں مل جل کر ایسا گھر دیکھیں
ہوکے آئیں زمیں کی تہہ سے کبھی
آسماں پر بھی پاؤں دھر دیکھیں​
-------------​
عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں​
حکمراں میٹنگوں میں مصروف ہیں
رہنما میڈیا پہ شعلہ بیاں
اور لاشیں اٹھا رہے ہیں ہم ‘
ان کی طاقت کا جو ہیں سرچشمہ​
-------------​
طوفاں تجزئیے نہیں سنتا
ہوائیں چیختی ہیں
آسماں تک شور جاتا ہے
زمیں والے دہلتے ہیں
گھٹائیں گھر کے آتی ہیں
اجالا یوں منہ چھپاتا ہے
سمندر یوں اچھلتا ہے
کہ ساحل کانپ جاتا ہے
وصال و ہجر بے معنی سے لگتے ہیں
فلک بوسوں پہ دہشت طاری ہے
حکومت، حکمرانی، حمکراں بے بس
سراسر بے اثر وعدے حفاظت کے
ہوائیں، حکمرانوں، رہنماؤں، جنرلوں کے سب عزائم کیسے بھانپیں گی
ججوں کے فیصلوں اور تبصروں سے کس طرح آشنا ہوں گی
کہ وہ خبریں نہیں پڑھتیں
کہ طوفاں تجزئیے سنتا نہیں ہے​
-------------​
اس مجموعہ کلام کا پیش لفظ ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے تحریر کیا ہے۔
زیر نظر پوسٹ کے ہمراہ "جہاں تاریخ روتی ہے" کی مکمل فہرست تخلیقات منسلک ہے۔ 400 صفحات کی اس کتاب کو لاہور کے الحمد پبلشر نے شائع کیا ہے۔ قیمت "پانسو" مقرر کی گئی ہے۔ کراچی میں یہ کتاب ویلکم بک پورٹ، اردو بازار پر دستیاب ہے۔
الحمد کا پتہ یہ ہے:
رانا چیمبرز۔ سیکنڈ فلور۔ چوک پرانی انار کلی- لیک روڈ-لاہور
فون: 042-37231490
 

الف عین

لائبریرین
محمود شام سے ربط ہو تو کہیں کہ اس کی ان پیج فائل ہمیں فراہم کر دیں، یا کم از کم کنورٹ کر کے اپنی سائٹ پر دے دیں۔ ان کی ویب سائٹ پر تو محض تصویریں ہیں، پسند نہیں آئی۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
محمود شام سے ربط ہو تو کہیں کہ اس کی ان پیج فائل ہمیں فراہم کر دیں، یا کم از کم کنورٹ کر کے اپنی سائٹ پر دے دیں۔ ان کی ویب سائٹ پر تو محض تصویریں ہیں، پسند نہیں آئی۔

بہت بہتر۔ میں ان سے بات کرتا ہوں۔ کامیابی کا امکان کم ہے لیکن بات آج ہی ہوجائے گی۔

اعجاز صاحب! حیدرآباد کے گونج پبلیکیشنز کا رابطہ نمبر مل سکتا ہے ؟ مجھے ای میل کردیجے۔ اور اگر ان کو فون کرکے 2005 میں شائع ہوئی اقبال متین صاحب کی "باتاں ہماریاں" کی بات دریافت کرلیں کہ یہ ان کے پاس موجود ہے تو یہ بندہ، بندہ بے دم سے بندہ بے دام ہوجائے گا۔
آپ کی جانب سے جواب آنے پر شمس الرحمان فاروقی صاحب کو بتایا جائے گا، وہ اسے دکن سے منگوا کر خاکسار کو خبرنامہ شب خون کے ہمراہ ارسال کریں گے۔
 

الف عین

لائبریرین
گونج حیدر آباد کا نہیں، نظام آباد کا ہے، مقدر صاحب کو فون کرتا ہوں۔ ان کا نمبر تو ہے ہی میرے پاس۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
گونج حیدر آباد کا نہیں، نظام آباد کا ہے، مقدر صاحب کو فون کرتا ہوں۔ ان کا نمبر تو ہے ہی میرے پاس۔

بہت شکریہ۔ یہ ذکر غالبا ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر کا ہے ؟ ان کا ایک مہربان کو بھیجا ہوا رسالہ چند روز قبل ہی موصول ہوا تھا، حوالے کے لیے آپ میرا نام لے سکتے ہیں، مذکورہ پرچے کے اگست کے شمارے میں خاکسار کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے " دکن سے ایک مہمان"۔۔۔۔۔۔۔ ان کو یہ بھی کہہ دیجیے گا کہ راجہ مہدی علی خاں پر ان کی کتاب نہایت عمدہ ہے۔

 

الف عین

لائبریرین
ان سے تو میں واقف نہیں، فاطمہ عام طور پر شفیق فاطمہ شعریٰ کو کہا جاتا ہے، ان کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے 12 اگست کو۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
ان سے تو میں واقف نہیں، فاطمہ عام طور پر شفیق فاطمہ شعریٰ کو کہا جاتا ہے، ان کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے 12 اگست کو۔

نہیں صاحب، اس خبر سے تو میں واقف ہوں۔ یہ ذکر قاضی عبدالغفار کی صاحبزادی کا ہے۔ ان کی ایک خاکوں پر مشتمل کتاب "یادش بخیر" جولائی 1989 میں دکن سے شائع ہوئی تھی۔ پتہ یہ درج ہے:
فاطمہ عالم علی
مکان نمبر 332/7 8-2
حیدرآباد-34

یادش بخیر یاداشتوں اور خاکوں کا مرقع ہے، مختصر سے کتاب ہے۔ اس کا ابتدائی مضمون انتہائی دلچسپ ہے۔ یہ مصنفہ نے اپنے والد پر تحریر کیا ہے، عنوان ہے" ابا کے ساتھ گزرے ہوئے چند لمحے" ---- حال ہی میں فیس بک پر شامل کیا تھا۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
ان سے تو میں واقف نہیں، فاطمہ عام طور پر شفیق فاطمہ شعریٰ کو کہا جاتا ہے، ان کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے 12 اگست کو۔

صاحب
ایک برس رفتار جواب کی درخواست ہے۔ کیا پروفیسر رحمت یوسفزئی چین سے واپس آگئے ؟
کراچی سے ایک صاحب دہلی میں ہیں، ایک ماہ تک رہیں گے، کچھ اسی سلسلے میں یہ معلومات درکار ہیں
مجھے ای میل پر بتا دیجیے
 
Top