کاشفی
محفلین
غزل
جہاں میں حالی کسی پہ اپنے سوا بھروسہ نہ کیجئے گا
یہ بھید ہےاپنی زندگی کا بس اس کا چرچا نہ کیجئے گا
ہو لاکھ غیروں کا غیر کوئی نہ جانتا اس کو غیر ہرگز
جو اپنا سایہ بھی ہو تو اس کو تصور اپنا نہ کیجئے گا
اسی میں ہے خیر حضرت دل کہ یار بھولا ہوا ہے ہم کو
کرے وہ یاد، اس کی بھول کر بھی کبھی تمنّا نہ کیجئے گا
تمہارا تھا دوستدار حالی اور اپنے بیگانہ کا رضا جو
سلوک اس سے کئے یہ تم نے تو ہم سے کیا کیا نہ کیجئے گا