جہد مسلسل

انتہا

محفلین
جہد مسلسل
عمر الغزالی
دسمبر 1956ء میں روس کے ہنگری پر قبضے کے بعد اینڈریو فرار ہو کر آسٹریا آ گیا اور وہاں سے نیویارک۔ اس کا باپ گوالا اور ماں کلرک تھی۔ غربت کی وجہ سے وہ تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہا تھا۔ اور مزدوری کر کے گزر اوقات کرتا تھا۔ اجنبی شہر میں بے چارگی اور بے بسی کی حالت میں چار دن بغیر کچھ کھائے پیے گزر گئے۔ اور ایک پُل کے نیچے اس کا ٹھکانا تھا۔ اسی فاقہ مستی میں سات ماہ گزر گئے۔1957ء کے وسط میں اسے ایک بس کنڈکٹر کی نوکری مل گئی۔
جب جیب میں کچھ پیسے اور پیٹ میں روٹی آئی تو ذہن نے بھی کام شروع کیا۔ اس نے سوچا ''کیا میں نے زندگی بھر مسافروں کی گالیاں سننی ہیں؟''
دل نے گواہی دی کہ زندگی محض روٹی اور پانی کی فکر سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس نے سوچا کہ کیاکیا جائے۔ جواب آیا کہ ترقی اور کامیابی کے راستے علم سے نکلتے ہیں۔ پھر سوچا کہ تعلیم کے لیے تو کافی رقم درکار تھی جبکہ وہ مشکل سے پیٹ کا ایندھن پورا کر پاتا تھا۔ اس نے ارادہ کیا کہ وہ دن میں ایک بار کھانا کھائے گا اور ریل یا بس کی بجائے پیدل سفر کرے گا۔ چھ ماہ میں اس نے اتنے پیسے جمع کر لیے کہ سٹی کالج نیویارک میں داخلہ لے سکے۔
اینڈریو کی انگریزی بہت ہی واجبی اور سائنس کا علم نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن وہ پھر بھی پڑھائی میں ''ماڈرن سائنسز'' رکھنے پر مصر تھا۔ جب اس کا اصرار ضد میں بدلنے لگا تو پرنسپل ساتھیوں کی طرف مڑ کر بولا:''اگر کوئی چار فٹ کا بونا دس فٹ اونچی چھلانگ لگانا چاہے تو ہم اسے روکنے والے کون ہوتے ہیں۔''پرنسپل کا یہ فقرہ اس کے دماغ میں اٹک کر رہ گیا اور آنے والے دنوں میں اس کے لیے مہمیز کا کام دیتا رہا۔
1964ء کی ایک رات جب اس نے اپنی گرل فرینڈ ایوا سے اپنے مقصد کا تذکرہ کیا کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا انسان بننا چاہتا ہے تو اس کا رویہ اینڈریو کے خلاف توقع تھا: ''اینڈریو ماؤنٹ ایورسٹ یقینا بہت اونچی ہے لیکن انسان کے حوصلوں کے سامنے بہت چھوٹی ہے۔ اس کو سر کرنے والے بھی انسان ہی تھے۔ ڈیڑھ سو پونڈ وزنی، دو آنکھوں، دو ہاتھ اور ایک پاؤ دماغ والے انسان۔ آخر تم ان میں سے ایک کیوں نہیں ہو سکتے۔'' ایوا نے جواب دیا۔
''ہاں ایوا صرف عقل اور محنت لوگوں کو بڑا بناتی ہے اور میرے پاس دونوں ہیں۔''
1967ء میں اس کی زندگی نے ایک اور کروٹ لی۔ اس نے گارڈن مور اور رابرٹ نائس کے ساتھ مل کر ''انٹل'' (Intel) کی بنیاد رکھی۔ اس کے چھوٹے سے دفتر کو دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ صرف آٹھ برس بعد انٹل (Intel) امریکہ میں بزنس کے ریکارڈ توڑ دے گی، لیکن اینڈریو کو اس کا یقین تھا اور یہی یقین اس کا اصل سرمایہ تھا۔
اینڈریو کا نام آج دنیا کی ساتویں بڑی فرم کے ساتھ آتا ہے۔ اس کمپنی کے اثاثے 50بلین ڈالر سے زیادہ ہیں (پاکستان کے کل بیرونی قرضے 32بلین ڈالر ہیں) اور یہ ہر سال 5.1بلین ڈالر سے زیادہ کا منافع کماتی ہے۔ اینڈریو کے ذاتی اثاثے 300ملین ڈالر ہیں۔
1997ء میں اینڈریو کو ''مین آف دی ائیر'' قرار دیا گیا۔ ٹائم میگزین کی ٹیم نے انٹرویو کے دوران اس سے سوال کیا ''کیا آپ دنیا کے بے روزگار لوگوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟'' اس نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں، لمبا سانس لیا اور پھر صحافیوں سے مخاطب ہوا:
''میرے خیال میں دنیا میں کوئی بیروزگار نہیں۔ قدرت نے جسے عقل سے نوازا ہو، دو ہاتھ دیئے ہوں، آخر وہ بے روزگار کیسے ہو سکتا ہے؟''
''لیکن دنیا میں تو اس وقت بےروز گار لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔'' صحافی نے سوال کیا۔
''آپ غالباً پست حوصلہ اور ہڈ حرام لوگوں کو بے روزگار کہہ رہے ہیں۔'' اینڈریو نے جواب دیا۔
قرآن اس بات کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
لیس للانسان الا ما سعیٰ. (النجم:39)''انسان کے لیے کچھ نہیں سوائے اس کے جس کی اس نے کوشش کی۔''
(انتخاب از ''کیمیا گری'' مترجم عمر الغزالی
 

عسکری

معطل
باقی سب تو ٹھیک ہے پر پاکستان کے بیرونی قرضے اب 32 نہیں ہیں اگست 2012 میں یہ 67 ارب ڈالر ہو چکے ہیں :D
 

زبیر مرزا

محفلین
عزم ہو، یقین محکم ہواور کرم ہو اللہ کا تو کیا ممکن نہیں- بہت لاجوب تحریر شئیرکرنے کا شکریہ
ایسی مثبت تحریریں اورواقعات حوصلے بڑھانے اور تاریکی میں چراغ جلانے کا حوصلہ دیتے ہیں
 
Top