مہدی نقوی حجاز
محفلین
آدم کو مٹی سے خلق کیا گیا۔ آدم کی پہلی خواہش!
"پالنے والے، کوئی ہمدم!"
پیدا کرنے والے کے لیے پہلی بار کسی خواہش سے روبرو ہونے کا تجربہ۔ چونک گیا۔ آدم سے کہتا ہے
"کیا میں (جو سب سے بڑا ہوں) تیرے لیے کفایت نہیں کرتا؟!"
پھر آدم کی حاضر جوابی۔ جھینپا جھینپا جواب آتا ہے
"لیکن آپ تو اللہ میاں ہیں، مجھ سا کوئی"
عورت کی تخلیق ہوئی۔ نام حوا رکھا گیا۔ آدم کو تعلیم دی گئی۔اسے سرسبز باغات میں بھیجا گیا، حوا ساتھ رہی۔ پروردگار نے محرمات معین کیے۔ آدم کو ان سے باز رہنے کا کہا۔ نا فرمانی کی صورت میں جہنم کی وعید سنائی گئی۔ اور آدم نافرمان ہی ٹھہرا۔ آزمائش ہوئی، حرام میں ملوث ہوا، اور جہنم میں اتار دیا گیا۔ حوا ساتھ رہی۔
جنت کا تصور ہے، لیکن آدم گناہگار ہے۔ اس نے کبھی جنت کی خوشبو تک نہیں محسوس کی۔ جنت آدم پر حرام کر دی گئی۔
تو اے آدم کی اولادو! جسے تم دنیا کہتے ہو اور آزمائشگاہ گمان کرتے ہو، جہنم ہے۔ تم جہنمی ہو۔ تمہیں جنت کا لالچ ہے، لیکن تم اسے حاصل نہیں کر سکتے، کہ تم نافرمان ہو۔ یہاں تمہیں، تمہارا گناہ بھگتنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ یقین کرو یہ بنانے والے کی بنائی ہوئی بدترین اور معفن ترین جگہ ہے، جو تم سی بدترین مخلوق کے لیے مخصوص ہے۔ ہاں تمہارے پاس اب گڑگڑانے کا موقع نہیں رہا۔ یہ ہونی تھی۔
تم اب مزید کس جہنم میں بھیجے جانے کے منتظر ہو!؟ جہنم کا آغاز ہو چکا ہے۔ زمین میں دابے جا چکنے کے بعد، اس جہنم کے نئے مرحلے میں داخل ہو جاؤ گے۔ اور یہ یقینی ہے۔ کہ تم گناہگار ہو۔ تم نے جنت نہیں دیکھی۔ اور نہ ہی آگے کوئی جنت تمہارے انتظار میں ہے۔ تم بہت خوش فہم ہو۔ تم اس جہنم کے اتنے عادی ہو چکے ہو کہ تمہیں اب اس کی عفونت کا احساس نہیں ہوتا، جبکہ آدم یہاں پہنچ کر چالیس برس ہوش نہ سنبھال سکا تھا۔
تو یاد رکھو، یہ بری جگہ ہے۔تم یہاں اس لیے بھیجے گئے ہو کہ تم گناہگار ہو۔یہ جہنم ہے۔یہاں اچھے لوگوں کا گزر نہیں۔ تم نہیں جانتے ، تم سزا کاٹ رہے ہو۔ اور یہ ابدی سزا ہے۔ یہاں حالات اچھے نہیں ہوتے۔ یہاں تمہارا بھلا نہیں چاہا جاتا۔ یہ جہنم ہے۔ تم شاکی ہواور فریادی ہو۔ لیکن تم جانو کہ یہاں تمہاری ایک نہ سنی جائے گی۔ یہ جہنم ہے۔ سو تم اپنے پیدا کرنے والے سے سوال کرو، جیسا کہ مسیح نے کیا۔ جب اسے سولی دی گئی۔
"تو کیا اے پالنے والے، تو نے بھی مجھے اکیلا چھوڑ دیا؟"
"پالنے والے، کوئی ہمدم!"
پیدا کرنے والے کے لیے پہلی بار کسی خواہش سے روبرو ہونے کا تجربہ۔ چونک گیا۔ آدم سے کہتا ہے
"کیا میں (جو سب سے بڑا ہوں) تیرے لیے کفایت نہیں کرتا؟!"
پھر آدم کی حاضر جوابی۔ جھینپا جھینپا جواب آتا ہے
"لیکن آپ تو اللہ میاں ہیں، مجھ سا کوئی"
عورت کی تخلیق ہوئی۔ نام حوا رکھا گیا۔ آدم کو تعلیم دی گئی۔اسے سرسبز باغات میں بھیجا گیا، حوا ساتھ رہی۔ پروردگار نے محرمات معین کیے۔ آدم کو ان سے باز رہنے کا کہا۔ نا فرمانی کی صورت میں جہنم کی وعید سنائی گئی۔ اور آدم نافرمان ہی ٹھہرا۔ آزمائش ہوئی، حرام میں ملوث ہوا، اور جہنم میں اتار دیا گیا۔ حوا ساتھ رہی۔
جنت کا تصور ہے، لیکن آدم گناہگار ہے۔ اس نے کبھی جنت کی خوشبو تک نہیں محسوس کی۔ جنت آدم پر حرام کر دی گئی۔
تو اے آدم کی اولادو! جسے تم دنیا کہتے ہو اور آزمائشگاہ گمان کرتے ہو، جہنم ہے۔ تم جہنمی ہو۔ تمہیں جنت کا لالچ ہے، لیکن تم اسے حاصل نہیں کر سکتے، کہ تم نافرمان ہو۔ یہاں تمہیں، تمہارا گناہ بھگتنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ یقین کرو یہ بنانے والے کی بنائی ہوئی بدترین اور معفن ترین جگہ ہے، جو تم سی بدترین مخلوق کے لیے مخصوص ہے۔ ہاں تمہارے پاس اب گڑگڑانے کا موقع نہیں رہا۔ یہ ہونی تھی۔
تم اب مزید کس جہنم میں بھیجے جانے کے منتظر ہو!؟ جہنم کا آغاز ہو چکا ہے۔ زمین میں دابے جا چکنے کے بعد، اس جہنم کے نئے مرحلے میں داخل ہو جاؤ گے۔ اور یہ یقینی ہے۔ کہ تم گناہگار ہو۔ تم نے جنت نہیں دیکھی۔ اور نہ ہی آگے کوئی جنت تمہارے انتظار میں ہے۔ تم بہت خوش فہم ہو۔ تم اس جہنم کے اتنے عادی ہو چکے ہو کہ تمہیں اب اس کی عفونت کا احساس نہیں ہوتا، جبکہ آدم یہاں پہنچ کر چالیس برس ہوش نہ سنبھال سکا تھا۔
تو یاد رکھو، یہ بری جگہ ہے۔تم یہاں اس لیے بھیجے گئے ہو کہ تم گناہگار ہو۔یہ جہنم ہے۔یہاں اچھے لوگوں کا گزر نہیں۔ تم نہیں جانتے ، تم سزا کاٹ رہے ہو۔ اور یہ ابدی سزا ہے۔ یہاں حالات اچھے نہیں ہوتے۔ یہاں تمہارا بھلا نہیں چاہا جاتا۔ یہ جہنم ہے۔ تم شاکی ہواور فریادی ہو۔ لیکن تم جانو کہ یہاں تمہاری ایک نہ سنی جائے گی۔ یہ جہنم ہے۔ سو تم اپنے پیدا کرنے والے سے سوال کرو، جیسا کہ مسیح نے کیا۔ جب اسے سولی دی گئی۔
"تو کیا اے پالنے والے، تو نے بھی مجھے اکیلا چھوڑ دیا؟"