جہیز :::: عشق نہ دیکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیدرآبادی

محفلین
مولوی ہو کہ ملا ، مفتی ہو کہ مجتہد ، سب نے ایسے دم سادھ رکھا ہے کہ گویا معاشرے کے اس المیہ سے کسی کو کوئی تعلق خاطر نہیں۔ ہاں اگر رویت ہلال کا مسئلہ ہو تو کوئی فرد شہر سے چاند نہیں دیکھ سکتا سوائے ان کے جو عمامہ پوش یا عبا بردوش ہوں۔ اب آپ اسے میرا جہل جانئے کہ میں اب تک یہ سمجھتا رہا کہ آنکھیں انسان کے چہرے پر ہوتی ہیں، مجھے تو یہ خبر تک نہیں کہ آنکھیں عمامہ اور عبا میں لگی ہوتی ہیں اور اسی سے چاند نظر آتا ہے۔

اسکول میں تعلیم مہنگی ، دواخانہ میں ڈاکٹر مہنگے ، کالج تو تجارت گاہ ہو گئے ۔۔۔ ایسے میں آدمی اچھے اسکول میں بچوں کی تعلیم کا خواب تو دیکھتا ہے ، لیکن تعبیر شائد ہی کسی کو میسر آئے۔ اسکول کے مطالبے تو جو ہیں سو ہیں، ماحول بھی اس قدر بدل گیا ہے کہ آدمی بچوں کو صرف کتابیں فراہم کر سکتا ہے۔یہی بس تعلیم کا بہانہ ہے، تربیت کیلئے تو نہ ماں باپ کو فرصت ہے نہ بچوں میں قبولیت۔ بھلا جس گھر میں ماں باپ ، بیٹا بیٹی سب مل کر ٹیلی ویژن سیریل دیکھ رہے ہوں ، وہاں “کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں دیکھنا ہے” کی تمیز ہی کب باقی رہ جاتی ہے؟
باپ تو یہ سوچ کر لڑکی کو تعلیم دلواتا ہے کہ گھر بیٹھ کر کیا کرے گی؟ رشتہ آنے تک پڑھ لکھ لے۔ امتحانات کے نتائج پر تو سب کی نظر ہے۔ لڑکیوں کا تناسب اور نشانات لڑکوں سے بہتر ہیں۔ وہ اپنی پوری یکسوئی کے ساتھ پڑھ لکھ کر آگے نکل جاتی ہیں ، لیکن مناسب رشتہ نہیں ملتا۔ رشتہ آئے بھی تو جہیز کا مطالبہ اتنا زیادہ کہ باپ دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ یہ نفسیاتی گرہ بھی ساتھ ساتھ ہے کہ لڑکی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صاحبزادے صرف انٹرمیڈیٹ۔ اور جو اگر ڈگری حاصل کر لی تو پھر بیرون ملک بھجوانے کا بندوبست ہو۔ اور اگر خیر سے ملازم ہوئے تو فلیٹ ، موٹر ، نقد رقم ، سونا چاندی اور اس میں بھی جواہرات جڑے۔ معیاری شادی کے نام پر ہزار پندرہ سو مہمانوں کا تناول و طعام۔ یہ سب کچھ جب اختیار میں نہیں ہوتا تو بس انتظار ہی ہوتا ہے۔
مولوی ہو کہ ملا ، مفتی ہو کہ مجتہد ، سب نے ایسے دم سادھ رکھا ہے کہ گویا معاشرے کے اس المیہ سے کسی کو کوئی تعلق خاطر نہیں۔ ہاں اگر رویت ہلال کا مسئلہ ہو تو کوئی فرد شہر سے چاند نہیں دیکھ سکتا سوائے ان کے جو عمامہ پوش یا عبا بردوش ہوں۔ اب آپ اسے میرا جہل جانئے کہ میں اب تک یہ سمجھتا رہا کہ آنکھیں انسان کے چہرے پر ہوتی ہیں، مجھے تو یہ خبر تک نہیں کہ آنکھیں عمامہ اور عبا میں لگی ہوتی ہیں اور اسی سے چاند نظر آتا ہے۔

شادیوں کی تقاریب میں قاضی صاحب جب ایجاب و قبول کروا چکیں اور خطبہ و صیغہ نکاح جاری فرما دیں تو جلو میں موجود سیکریٹری نے پہلے تو نیگ کے چاول شکر سمیٹے ، پھر مٹھی دو مٹھی ڈائس کی طرف اچھال کر سارے کا سارا بادام ، مصری اور چھوہارے تھیلے میں اتار لیا اور چپکے سے موٹا لفافہ جیب میں ڈالتے ہوئے بھی شکوہ سنج کہ :
“لاکھوں کی شادی میں بس اتنا ہی !”

جن کے پاس دولت کے انبار ہیں ، ان کے لئے تو بیٹی کی خوشی کی خاطر داماد خریدنا مشکل نہیں۔ اخر مرسیڈیز ، بینٹلی اور رولز رائس بھی تو بکنے کے لئے ہی تو شوروم میں سجی ہے اور اس کے بھی خریدار ہیں۔
لیکن جس باپ کی زبان فاقوں کے ذائقے سے آشنا ہو اور جس کے وجود میں بےچراغ روشنی ہو، وہ سوائے پلکیں موند لینے کے اور کچھ بھی نہیں کر سکتا۔

ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمان بہت برباد ہوئے ، زمینیں چلی گئیں ، تجارت ختم ہو گئی ، فسادات نے صنعتوں کا خاتمہ کر دیا۔ اگر خلیجی ممالک میں روزگار نہ کھلتے تو جانے کیا انجام ہوتا؟
غیرمنصوبہ بند دولت جس طرح آئی ، کچھ اسی طرح لٹائی بھی گئی۔ لیکن معاشرتی اثرات کو دیکھئے تو جو لڑکے شادیاں کر کے اپنی دلہنوں کے ہاتھ کی مہندی چھوٹنے سے پہلے واپس چلے گئے اور ریگستانوں میں اپنے خیمے لگا لئے ، انہوں نے یہاں بھی نخلستان کو ریگستان بنا دیا۔ دس دس سال کی سہاگنیں دیکھئے تو مہینے کی دلہنیں ہیں۔ شام ڈھلے آئینے کے سامنے بن سنور کر بیٹھنا ، جو دیکھنے والا نہ ہو تو سنورنا کیا! اور سلجھی لٹ بگاڑنے والا نہ ہو تو لٹ کیسی؟ جہاں بدن کا گھر اجڑا ہو تو سجے مکانوں کی ویرانی کون دیکھے :
اُگ رہا ہے در و دیوار پہ سبزہ غالب
“وہ” بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

اساڑھ کی چاندنی میں جب برفیلی پہاڑیوں سے چاند کی کرنیں اتر کر ندی کے کنارے تھم جاتی ہیں تو اس کی سوچ کی آواز تو یہی کہتی ہے کہ : عمر تو بہتی ندی کی طرح گزری جائے ہے۔ اس کے حصے میں ملاح کی راگ کا رس تو نہیں ہے ، شائد ڈوبتی ناؤ کی سسکیاں ہوں۔

اس کے علاوہ ۔۔۔۔ بیرون ملک سے تفریحاً آئے ہوئے لبوب کبیر بڑھاپے الگ وجود کے تار پود بکھیر گئے۔ اپنی معصوم لڑکیوں کو ان بوڑھے گِدھوں کے حوالے کرنے والوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ کچی مٹی کے بند منہ زور چڑھی ہوئی ندی کی طغیانی کی تاب بھی نہیں لا سکتے ، بلکہ اطراف و اکناف کی زمینوں کو بھی لے ڈوبتے ہیں ۔۔۔۔ مگر لبادے چُپ رہے۔

آج لڑکیاں پڑھ لکھ کر اونچے عہدوں پر پہنچ چکی ہیں ، مگر بر نہیں ملتا۔ سر میں چاندی کہیں کہیں دکھائی دینے لگی ہے ، لیکن GARNIER صرف کہتا ہے :
“اپنا خیال رکھنا”
ورنہ خیال رکھنے والا ہوتا تو سر میں چاندی کیوں پھیلتی ؟
روز کا ملنا جلنا ، ساتھ کام کرنا ، لنچ ساتھ لینا ، پہلے پہل کسی ریسٹورنٹ میں چائے کی دعوت ، چائے نوشی کے دوران سرخئ لب پر ذرا سی کریم لگ جائے تو نرمی سے ہونٹ چھو لینا ۔۔۔۔۔۔ یہ سب تو عورت کو کمزور کر ہی دیتا ہے ، لیکن اس کے بعد کی انہونی کے لئے کون ذمہ دار ہے؟
کس کو الزام دیا جائے؟
لبادے چیخ رہے ہیں :
“غیر ذات سے شادی کر لی۔ گھر چھوڑ کر بھاگ گئی۔ دین دھرم کا بھی خیال نہ کیا۔ ارے صاحب ، پیسہ کیا چیز ہے، ماں باپ کے چہرے پہ کالک پوت گئی۔ بس کل یُگ ہے کل یُگ !!”
ماں باپ صرف جواز ڈھونڈ رہے ہیں۔ کیا کہیں ، کس سے کہیں ، کیسے کہیں ، کمبخت دنیا سے اٹھ جاتی تو اچھا تھا ۔۔۔۔۔
شائد ہی کوئی تربیت کی اٹھان کے تعلق سے سوچتا ہو۔
شائد ہی کوئی جہیز اور اسراف کی لعنت کے لئے سوچتا ہو۔

کوئی سوچے نہ سوچے ، مگر ایک کہاوت یہ بھی ہے :
پیاس نہ دیکھے دھوبی گھاٹ ، بھوک نہ دیکھے جھوٹا بھات
نیند نہ دیکھے ٹوٹی کھاٹ ، عشق نہ دیکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بشکریہ : مسلم سوشیو ریفارمز سوسائیٹی
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ معاشرے کا المیہ شریک محفل کرنے کا۔

ادھر بھی کچھ یہی حال ہے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
بہت ہی بجا فرمایا آپ نے مگر یہاں معاشرے میں تالی دونوں ہاتھوں سے بچتی ہے آجکل تورسوم و رواجات نہیں ہر دو پارٹیوں کو ایسے باندھا ہوا ہے کہ بہت کم لوگ اس سے ٹکر لینے کی ہمت کر سکتے ہیں جہاں لڑکے والے کے مطالبے ہوتے ہیں وہیں لڑکی والے بھی کسی سے کم نہیں رہتے میں تو خدا لگتی ایک بات کہوں بے شک کسی کو بری لگے کہ آجکل کے معاشرے میں اور خاص کر پاک و ہند کے مسلم معاشرے میں یہ لینے دینے اور رسوم و رواجات کی بندشوں نے نکاح تو گراں بلکہ مشکل ترین بنا دیا ہے اور زنا کو انتہائی آسان۔۔۔۔۔۔۔! لڑکے کی ساری عمر شادی کی تیاریاں کرنے میں گزر جاتی ہے اور ادھر لڑکی کی ساری عمر انتظار میں، کہیں بر مناسب نہیں اور کہیں ذات پات، دھن دولت اور اس جیسے کئی دوسرے عذر منہ کھولے کھڑے ہوتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کو بیدار کیا جائے اور ان سب لعنتی رسوم سے جان چھڑائی جائے، مگر بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟؟؟؟
 

طالوت

محفلین
جہیز کے حوالے سے ادھر اتنے برے حالات نہیں مگر بہرحالہ مسئلہ تو ہے ۔ شادیاں مشکل اور زنا آسان ہو چکا۔ خود کو دنیا کی اعلٰی و برتر چیز سمجھنے والے مسلم بطور مثال نہیں دیکھتے کہ آخر رسول اللہ نے کونسی شادی اپنے خاندان میں کی اور کتنی بیٹیوں کا اپنے خاندان میں بیاہ کیا ؟ منافقت کے لبادے اوڑھے مسلموں ذات پات خاندان قوم قبیلہ کے شیدائیوں نے شرم بیچ کھائی ہے ۔
وسلام
 
Top