شمشاد
لائبریرین
آجکل میں پرانے رسالوں کی ورق گردانی کر رہا ہوں۔ جہاں کوئی تحریر اچھی لگتی ہے، وہ شریک محفل کر دیتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے ایک انگریزی روز نامے کی رپورٹ کے مطابق 20 فیصد پاکستانیوں کی جیبوں میں جعلی شناختی کارڈ ہیں۔ رپورٹ میں اس کا تذکرہ نہیں کہ " جعلی پاکستانیوں" کی جیبوں میں کتنے فیصد اصلی شناختی کارڈ ہیں۔ قصور شناختی کارڈ کا نہیں جیبوں کا ہے۔ اگر جیب ہی نہ ہوتی تو شناختی کارڈ کے اصلی یا جعلی ہونے کا پتہ ہی نہ چلتا۔ ویسے جیب کے رواج کی تاریخ آج تک کسی جیب سے برآمد نہیں ہوئی۔ ہم جو کچھ پہنتے ہیں مثلاً شیروانی، کوٹ، پینٹ، قمیض تقریباً سب میں ہی جیبیں ہوتی ہیں علاوہ پاجامے کے۔ پاجامے میں ازار بند کے سوا کوئی اور قابل تحریر چیز نہیں ہوتی۔ اس ازار بند کو بھی لوگ " آزار بند" کہتے ہیں، کیونکہ یہ اکثر وقت پر " دغا " دے جاتا ہے۔
جیبیں "ہلکی" بھی ہوتی ہیں اور " بھاری " بھی۔ " ٹھنڈی" بھی اور " گرم" بھی۔ شخصیت کا بھاری پن جیب کے بھاری پن سے متناسب ہوتا ہے۔ کاروبار جتنا ناجائز ہو، نوکری جتنی مشہور اور نیت جتنی خراب ہو، جیب اتنی ہی بھاری اور گرم ہوتی ہے۔ مردوں کی جیبیں ٹھنڈی اور ہلکی ہوں تو ان کی بیویاں ان پر گرم اور بھاری رہتی ہیں۔ ہر ٹھنڈی اور ہلکی جیب کے پیچھے کسی نہ کسی عورت یا ذاتی شرافت کا ہاتھ ہوتا ہے۔
کسی کے کردار، پیشے اور ذوق کا ذاتی اندازہ لگانا ہو تو اس کی جیب کی تلاشی کافی ہے۔ کسی نوجوان کے شریف ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کی جیب میں یونیورسٹی کا کارڈ، چند سکے اور صرف ایک لڑکی کی تصویر ہو۔
اگر کنگھی بھی نکلے تو سمجھ لیں کہ لڑکا منچلا، فیشن زدہ اور لڑکیوں کا دلدادہ ہے۔ اگر جیب سے سفارشی خطوط اور رومال نکلے تو سمجھ لیں " صاحب جیب " بے روز گار ہے اور دھوپ میں پھرنے کا عادی ہے۔
جس کی جیبوں میں بجلی، گیس اور فون کے بل ہوتے ہیں وہ شادی شدہ ہوتے ہیں۔ جیبوں میں پرس رکھنے والے " شوباز " ہوتے کہے جا سکتے ہیں۔ ان کے پرسوں میں اکثر بڑے بڑے عہدے والے دور پرے کے رشتہ داروں کے وزیٹنگ کارڈ، فلمی ہیروئنوں کی تصاویر اور محبوباؤں کے خطوط ہوتے ہیں۔
آج کل جیبوں میں بینکوں کے کریڈٹ کارڈ رکھنا " اسٹیٹس سمبل" بن گیا ہے۔ ایک کریڈٹ کارڈ، ایک موبائل فون اور ایک نئے ماڈل کی کار دکھا کر آپ پاکستان میں سینکڑوں لڑکیوں کو اپنا گرویدہ بنا سکتے ہیں۔
دنیا کی سب سے بد نصیب جیب شاعروں کی ہوتی ہے جس میں سوائے غزلوں اور نظموں کے کچھ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعروں کی بیویاں جیبوں کی تلاشی لیے بغیر کپڑے لانڈری بھجوا دیتی ہیں۔ یوں شاعروں کے دوستوں پر احسان عظیم کرتی ہیں۔ اگر دھوبی نہ ہوتے تو آج دنیا میں شاعری کا ذخیرہ دگنا ہوتا۔
آج کل جیبوں میں پستول بھی ملتی ہے۔ آپ اپنے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے اس " فقیر " کو سب کچھ دینے پر راضی ہو جائیں گے جس کی جیب بالکل خالی ہو سوائے ایک بھرے ہوئے ریوالور کے۔ جیبوں میں سوراخ ہو جائے تو اکثر چیزوں کا سراغ نہیں ملتا۔ ہم بچپن میں چونی کی ٹافی کھا کر اپنی جیب میں سوراخ کر دیا کرتے تھے۔ اس طرح والدہ مطمئن ہو جاتی تھیں کہ چونی ہی گری ہے بچے کا اخلاق نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیب اور " اصحاب جیب" ؟
(مرزا یٰسین بیگ (کینیڈا) کے قلم سے
پاکستان کے ایک انگریزی روز نامے کی رپورٹ کے مطابق 20 فیصد پاکستانیوں کی جیبوں میں جعلی شناختی کارڈ ہیں۔ رپورٹ میں اس کا تذکرہ نہیں کہ " جعلی پاکستانیوں" کی جیبوں میں کتنے فیصد اصلی شناختی کارڈ ہیں۔ قصور شناختی کارڈ کا نہیں جیبوں کا ہے۔ اگر جیب ہی نہ ہوتی تو شناختی کارڈ کے اصلی یا جعلی ہونے کا پتہ ہی نہ چلتا۔ ویسے جیب کے رواج کی تاریخ آج تک کسی جیب سے برآمد نہیں ہوئی۔ ہم جو کچھ پہنتے ہیں مثلاً شیروانی، کوٹ، پینٹ، قمیض تقریباً سب میں ہی جیبیں ہوتی ہیں علاوہ پاجامے کے۔ پاجامے میں ازار بند کے سوا کوئی اور قابل تحریر چیز نہیں ہوتی۔ اس ازار بند کو بھی لوگ " آزار بند" کہتے ہیں، کیونکہ یہ اکثر وقت پر " دغا " دے جاتا ہے۔
جیبیں "ہلکی" بھی ہوتی ہیں اور " بھاری " بھی۔ " ٹھنڈی" بھی اور " گرم" بھی۔ شخصیت کا بھاری پن جیب کے بھاری پن سے متناسب ہوتا ہے۔ کاروبار جتنا ناجائز ہو، نوکری جتنی مشہور اور نیت جتنی خراب ہو، جیب اتنی ہی بھاری اور گرم ہوتی ہے۔ مردوں کی جیبیں ٹھنڈی اور ہلکی ہوں تو ان کی بیویاں ان پر گرم اور بھاری رہتی ہیں۔ ہر ٹھنڈی اور ہلکی جیب کے پیچھے کسی نہ کسی عورت یا ذاتی شرافت کا ہاتھ ہوتا ہے۔
کسی کے کردار، پیشے اور ذوق کا ذاتی اندازہ لگانا ہو تو اس کی جیب کی تلاشی کافی ہے۔ کسی نوجوان کے شریف ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کی جیب میں یونیورسٹی کا کارڈ، چند سکے اور صرف ایک لڑکی کی تصویر ہو۔
اگر کنگھی بھی نکلے تو سمجھ لیں کہ لڑکا منچلا، فیشن زدہ اور لڑکیوں کا دلدادہ ہے۔ اگر جیب سے سفارشی خطوط اور رومال نکلے تو سمجھ لیں " صاحب جیب " بے روز گار ہے اور دھوپ میں پھرنے کا عادی ہے۔
جس کی جیبوں میں بجلی، گیس اور فون کے بل ہوتے ہیں وہ شادی شدہ ہوتے ہیں۔ جیبوں میں پرس رکھنے والے " شوباز " ہوتے کہے جا سکتے ہیں۔ ان کے پرسوں میں اکثر بڑے بڑے عہدے والے دور پرے کے رشتہ داروں کے وزیٹنگ کارڈ، فلمی ہیروئنوں کی تصاویر اور محبوباؤں کے خطوط ہوتے ہیں۔
آج کل جیبوں میں بینکوں کے کریڈٹ کارڈ رکھنا " اسٹیٹس سمبل" بن گیا ہے۔ ایک کریڈٹ کارڈ، ایک موبائل فون اور ایک نئے ماڈل کی کار دکھا کر آپ پاکستان میں سینکڑوں لڑکیوں کو اپنا گرویدہ بنا سکتے ہیں۔
دنیا کی سب سے بد نصیب جیب شاعروں کی ہوتی ہے جس میں سوائے غزلوں اور نظموں کے کچھ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعروں کی بیویاں جیبوں کی تلاشی لیے بغیر کپڑے لانڈری بھجوا دیتی ہیں۔ یوں شاعروں کے دوستوں پر احسان عظیم کرتی ہیں۔ اگر دھوبی نہ ہوتے تو آج دنیا میں شاعری کا ذخیرہ دگنا ہوتا۔
آج کل جیبوں میں پستول بھی ملتی ہے۔ آپ اپنے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے اس " فقیر " کو سب کچھ دینے پر راضی ہو جائیں گے جس کی جیب بالکل خالی ہو سوائے ایک بھرے ہوئے ریوالور کے۔ جیبوں میں سوراخ ہو جائے تو اکثر چیزوں کا سراغ نہیں ملتا۔ ہم بچپن میں چونی کی ٹافی کھا کر اپنی جیب میں سوراخ کر دیا کرتے تھے۔ اس طرح والدہ مطمئن ہو جاتی تھیں کہ چونی ہی گری ہے بچے کا اخلاق نہیں۔