جیمز فولی کا قتل

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

10302695_769503583109802_2242967162267929985_n.jpg



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
برطانوی قصبے میں چودہ سو بچوں کا جنسی استحصال
برطانیہ میں منگل 26 اگست کو منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق وہاں روتھرہیم نامی صرف ایک قصبے میں گزشتہ 16 برسوں کے دوران قریب 1400 بچوں کا جنسی استحصال کیا گیا۔


لندن سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اس تازہ رپورٹ سے یہ تصدیق ہو گئی ہے کہ کس طرح اس برطانوی قصبے کے ذمے دار اہلکار اور ان کی نگرانی میں کام کرنے والا سماجی نظام اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہے اور 1997ء سے لے کر 2013ء تک Rotherham میں 11 سے لے کر 16 سال تک کی عمر کے ایک ہزار چار سو کے قریب لڑکوں اور لڑکیوں کو نہ صرف پیٹا گیا اور ان کی ٹریفکنگ کی گئی بلکہ انہیں جنسی استحصال کا نشانہ بنانے کے علاوہ ان کا ریپ تک کیا گیا۔

اس رپورٹ کے مصنف آلیکسس جے Alexis Jay نے اس سال یکم جنوری سے پہلے تک کے سولہ برسوں کے دوران تقریباﹰ ڈھائی لاکھ کی آبادی والے اس برطانوی قصبے میں رونما ہونے والے پرتشدد واقعات کا جائزہ لیا۔ یہ غیر جانبدارانہ رپورٹ روتھرہیم اور اس کے گرد و نواح میں جنسی جرائم کے مرتکب افراد کو عدالتی سطح پر سزائیں سنائے جانے کے بہت سے حالیہ واقعات اور پھر اسی بارے میں برطانوی اخبار ٹائمز آف لندن میں ایک ہوشربا رپورٹ کی اشاعت کے بعد تیار کی گئی۔

خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ اس رپورٹ کے مصنف کے مطابق جسمانی تشدد اور جنسی استحصال کے ان واقعات کا شکار بننے والے بچوں کے بیانات کو پڑھا جائے تو یہ تصور کرنا محال ہو جاتا ہے کہ کس طرح ایک طویل عرصے تک ان جرائم کی روک تھام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا تھا۔


اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے مرتکب افراد کا تعلق زیادہ تر برطانیہ میں آباد پاکستانی تارکین وطن کی برادری سے تھا اور کس طرح بچوں کو مارا پیٹا جاتا رہا، ان کا استحصال کیا گیا، انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا رہا اور بہت سے واقعات میں انہیں اغواء کر کے انگلینڈ کے شمال میں دیگر قصبوں اور شہروں تک میں پہنچا دیا جاتا تھا۔

آلیکسس جے نے اپنی اس رپورٹ میں لکھا ہے، ’’ان جرائم میں ایسے بچوں کی مثالیں بھی موجود ہیں، جن پر پٹرول چھڑک کر انہیں آگ لگا دینے کی دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ انہیں آتشیں ہتھیار دکھا کر ڈرایا جاتا رہا۔ اس کے علاوہ انہیں زبردستی ریپ کے ایسے پرتشدد واقعات دیکھنے پر مجبور کیا جاتا رہا، جن کے بعد انہیں کہا جاتا تھا کہ اگر انہوں نے اس بارے میں کسی کو بتایا تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے گا۔‘‘

رپورٹ کے مصنف کے مطابق جنسی استحصال اور جنسی زیادتیوں کے ان واقعات کے دوران ایسی لڑکیوں کو بھی ریپ کیا گیا، جن کی عمر محض گیارہ برس تھی۔ ریپ کے ایسے واقعات کے مجرم اکثر ایسے بالغ مرد تھے، جو متعدد مرتبہ مختلف متاثرین کے خلاف ایسی زیادتیوں کے مرتکب ہوئے تھے۔‘‘
http://www.dw.de/برطانوی-قصبے-میں-چودہ-سو-بچوں-کا-جنسی-استحصال/a-17880881
یقین نہیں اتا
 

x boy

محفلین
بہت شکریہ
پکی خبر آنے تک کسی پر الزام نہیں لگاسکتے کہ کون کیا ہے ابھی شواہد ناکافی ہے
میڈیا اور کالم نگار کی باتوں سے سو فیصد متفق ہونا صحیح نہ ہوگا۔
 
اقصیٰ نے والدین نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ اگر ’ہماری بیٹی جسے زندگی میں تمام مواقع اور آزادی میسر تھی، سخت گیر خیالات کی حامل بن سکتی ہے تو یہ کسی بھی خاندان میں ہو سکتا ہے۔

’اقصیٰ کی وجہ سے زندگی ہمیشہ کے لیے بدل گئی‘

140903192812_aqsa_mahmood_304x171_bbc_nocredit.jpg

اقصیٰ گذشتہ برس نومبر میں ترکی کے راستے شام کے شہر حلب پہنچی تھیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/09/140904_aqsa_isis_parents_betrayed_zs.shtml
 

Fawad -

محفلین
میں اس قتل کی حمایت نہیں کرتا مگر امریکیوں نے بھی ڈاکٹروں تک سے جاسوسی کروا ڈالی
ان کی وجہ سے خیبر پختونخواہ میں پولیو ویکسین کا منصوبہ ٹھپ ہوگیا اور ایف سی و پولیس کی نگرانی میں پولیو ٹیمیں کچھ علاقوں میں کام کرتی ہیں۔
ہرشعبہ سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

وہ رائے دہندگان جو بدستور امريکہ کو پوليو ورکرز کے خلاف جاری خونی مہم کے ليے قصوروار سمجھتے ہيں، انھيں يہ ياد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سال 2009 ميں اقوام متحدہ کے ادارے ڈبليو-ايچ-او کی جانب سے پوليو کے انسداد کے ضمن ميں حائل رکاوٹوں کے تعين کے ليے ايک آزادانہ تحقيق کا اہتمام کيا گيا جس ميں تمام متاثرہ ممالک ميں تفصيل کے ساتھ ان عوامل کا ذکر کيا گيا جو پوليو کے خاتمے کے عمل کو مکمل نہيں ہونے دے رہے۔ اس وقت بھی پاکستان اور افغانستان ميں اس ضمن ميں سب سے بڑی رکاوٹ سيکورٹی اور پوليو ورکرز کو عدم تحفظ قرار ديا گيا تھا۔

يہ انتہائ لغو الزام ہے کہ کراچی، پشاور اور مختلف قبائلی علاقوں ميں پوليو ورکرز کی ہلاکت کے حاليہ واقعات کا براہراست تعلق ڈاکٹر شکيل آفریدی کيس سے ہے۔ ناقابل ترديد حقيقت تو يہ ہے کہ برسا برس سے دہشت گردوں کی جانب سے اس ايشو کو استعمال کر کے عوامی سطح پر خوف اور دھونس کے ذريعے اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔ دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے پوليو ويکسينيشن کے ضمن ميں کی جانے والی کاوشوں کے خلاف اپنے زہريلے پراپيگنڈے کے ذريعے دنيا کے بے شمار ممالک ميں ان گنت معصوم لوگوں کو ہلاک اور بچوں کے ليے تکليف اور اذيت کا سامان ان کی سوچ کا آئينہ دار ہے۔

ملک کے طول و عرض ميں بے گناہ ہيلھ ورکرز کا حالیہ قتل اسی خونی مہم کی تازہ کڑی ہے جو ايک دہائ سے بھی زيادہ پرانی ہے۔

سال 2010کے دوران پاکستان دنيا کا واحد ملک تھا جہاں پر اس بيماری سے اپاہج ہونے والے افراد کی تعداد ميں پہلے کے مقابلے ميں اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس يہ تعداد 89 تھی جو ورلڈ ہيلتھ آرگائنيزيشن کے مطابق اس سال بڑھ کر 138 ہو گئ۔ ان اعدادوشمار کی روشنی ميں پاکستان ميں دنيا بھر کے مقابلے ميں پوليو کے سب سے زيادہ کيسز سامنے آئے ہیں۔

ان ميں سے زيادہ تر کيسز افغان سرحد کے پاس ان علاقوں ميں سامنے آئے ہيں جہاں گزشتہ برس ايک پاکستانی طالبان کمانڈر نے پوليو ويکسين کو غير شرعی قرار ديا تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

x boy

محفلین
میں اس قتل کی حمایت نہیں کرتا مگر امریکیوں نے بھی ڈاکٹروں تک سے جاسوسی کروا ڈالی اور پاکستان سے کئی صحافی جاسوسی کی وجہ سے نکالے گئے ہیں
ان کی وجہ سے خیبر پختونخواہ میں پولیو ویکسین کا منصوبہ ٹھپ ہوگیا اور ایف سی و پولیس کی نگرانی میں پولیو ٹیمیں کچھ علاقوں میں کام کرتی ہیں۔
ہرشعبہ سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔

سو فیصد متفق
 

mfdarvesh

محفلین
او بھائی جان
آپ تو ایک بین الاقوامی ادارے میں ہوتے ہیں، جواب کوئی ربط والا دیں
کیا شکیل آفریدی اس کیس میں شامل ہے یا نہیں
جواب دیں، لمبی کہانیاں بہت سنی ہے

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

وہ رائے دہندگان جو بدستور امريکہ کو پوليو ورکرز کے خلاف جاری خونی مہم کے ليے قصوروار سمجھتے ہيں، انھيں يہ ياد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سال 2009 ميں اقوام متحدہ کے ادارے ڈبليو-ايچ-او کی جانب سے پوليو کے انسداد کے ضمن ميں حائل رکاوٹوں کے تعين کے ليے ايک آزادانہ تحقيق کا اہتمام کيا گيا جس ميں تمام متاثرہ ممالک ميں تفصيل کے ساتھ ان عوامل کا ذکر کيا گيا جو پوليو کے خاتمے کے عمل کو مکمل نہيں ہونے دے رہے۔ اس وقت بھی پاکستان اور افغانستان ميں اس ضمن ميں سب سے بڑی رکاوٹ سيکورٹی اور پوليو ورکرز کو عدم تحفظ قرار ديا گيا تھا۔

يہ انتہائ لغو الزام ہے کہ کراچی، پشاور اور مختلف قبائلی علاقوں ميں پوليو ورکرز کی ہلاکت کے حاليہ واقعات کا براہراست تعلق ڈاکٹر شکيل آفریدی کيس سے ہے۔ ناقابل ترديد حقيقت تو يہ ہے کہ برسا برس سے دہشت گردوں کی جانب سے اس ايشو کو استعمال کر کے عوامی سطح پر خوف اور دھونس کے ذريعے اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔ دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے پوليو ويکسينيشن کے ضمن ميں کی جانے والی کاوشوں کے خلاف اپنے زہريلے پراپيگنڈے کے ذريعے دنيا کے بے شمار ممالک ميں ان گنت معصوم لوگوں کو ہلاک اور بچوں کے ليے تکليف اور اذيت کا سامان ان کی سوچ کا آئينہ دار ہے۔

ملک کے طول و عرض ميں بے گناہ ہيلھ ورکرز کا حالیہ قتل اسی خونی مہم کی تازہ کڑی ہے جو ايک دہائ سے بھی زيادہ پرانی ہے۔

سال 2010کے دوران پاکستان دنيا کا واحد ملک تھا جہاں پر اس بيماری سے اپاہج ہونے والے افراد کی تعداد ميں پہلے کے مقابلے ميں اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس يہ تعداد 89 تھی جو ورلڈ ہيلتھ آرگائنيزيشن کے مطابق اس سال بڑھ کر 138 ہو گئ۔ ان اعدادوشمار کی روشنی ميں پاکستان ميں دنيا بھر کے مقابلے ميں پوليو کے سب سے زيادہ کيسز سامنے آئے ہیں۔

ان ميں سے زيادہ تر کيسز افغان سرحد کے پاس ان علاقوں ميں سامنے آئے ہيں جہاں گزشتہ برس ايک پاکستانی طالبان کمانڈر نے پوليو ويکسين کو غير شرعی قرار ديا تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
کیا شکیل آفریدی اس کیس میں شامل ہے یا نہیں

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امریکی حکومت اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہے کہ جو کچھ ڈاکٹر شکيل آفریدی نے کیا وہ غداری سے بہت دور ہے۔ ڈاکٹر شکيل آفریدی کو پاکستان پر نظر رکھنے اور جاسوسی کے لئے کبھی بھی نہیں کہا گیا تھا۔ اس نے صرف القاعدہ کے دہشت گرد گروہ کے رہنما کو تلاش کرنے میں مدد کی تھی جس نے پاکستان اور امریکہ کو خطرے ميں ڈال ديا تھا۔ ہم يہ سمجھتے ہيں کہ ڈاکٹر آفريدی کے اقدامات کيوجہ سے ممکنہ طور پر پاکستان اور دنیا بھر ميں کئی معصوم زندگیوں کو بچانے ميں مدد ملی ہے جودوسری صورت میں القاعدہ يا اسکے اکسائے ہوئے شکار دہشت گرد سرگرمیوں کا شکار ہوسکتے ہيں۔

مزید برآں، ڈاکٹر شکيل آفریدی کا فعل بہادری اور حب الوطنی کی غمازی کرتا ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد کو تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہوا،اور وہ شخص جس کے ہاتھ بہت سے معصوم پاکستانیوں اور دنیا بھر کے دیگر معصوم لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے، وہ اپنے انجام کو پہنچا۔

يہ نوٹ کرنا بھی نہايت ضروری ہے کہ ڈاکٹر آفريدی کا فعل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے کئی سال پرانی منظور شدہ قانونی قراردادوں کے عين مطابق تھا۔ ہم اتنی آسانی سے کیوں بھول جاتے ہیں کہ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن نے جولائی 2007 ء ميں پاکستان کی حکومت کے خلاف ایک عام جنگ کا اعلان کيا تھا۔ اس کے علاوہ، القاعدہ اور اس سے منسلک تنظیموں نے پاکستان میں خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں معصوم لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔

آخر میں، دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی حکومت کی مدد کرنے کے لئے ڈاکٹر شکيل آفریدی کے اقدامات نے نہ صرف انتہا پسندوں کے خلاف پاکستان کی اپنی جاری کوششوں میں حمایت کی ہے بلکہ دنیا کو ایک زیادہ محفوظ جگہ بنانے میں بھی ایک زبردست اور اہم کردار ادا کیا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
پاکستان میں بھی ایک بار ایسا ہوا تھا ڈینی پرل جو امریکن جاسوس صحافی تھا وہ قتل ہوا اور

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کيا آپ واقعی ايمانداری کے ساتھ اس بات پر يقین رکھتے ہيں کہ سی آئ اے کا ايک مبينہ خفيہ ايجنٹ جو اپنی حکومت کی ہدايات پر ايک دور دراز ملک ميں پراسرار منصوبے پر کام کر رہا تھا وہ نا صرف يہ کہ اپنی حاملہ بيوی کے ساتھ سفر کر رہا تھا بلکہ مقامی حکومت کے اہم عہديداروں کے ساتھ مسلسل رابطے ميں بھی تھا اور اپنے پاکستانی دوستوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ سماجی ميل ملاپ بھی رکھے ہوئے تھا؟

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ جس وقت ڈينيل پرل کو اغوا کيا گيا تھا اس وقت وہ وال اسٹريٹ جرنل کے ساؤتھ ايشيا بيرو چيف کی حيثيت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ وہ پاکستان ميں رچرڈ ريڈ نامی "شو بمبر" اور القائدہ کے مابين ممکنہ روابط کے ضمن ميں تفتيش کے ليے پاکستان ميں کام کر رہے تھے۔ ان کی تحقيقی رپورٹس، اپنے ادارے کے ساتھ کی جانے والی مسلسل خط وکتابت اور روز کے معمولات ريکارڈ کا حصہ ہيں۔

بے بنياد الزام تراشی اور عالمی سطح پر متفقہ طور پر ايک قابل مذمت اور بے رحم قتل کے ضمن ميں الٹا مقتول ہی کو قصوروار قرار دينے سے پہلے آپ کو ڈينيل پرل کے کوائف، ان کی پيشہ وارانہ زندگی کے سنگ ميل اور صحافت کی دنيا ميں ان کے گرانقدر کارناموں پر بھی ايک نظر ڈال لينی چاہيے۔ وہ ايک انتہائ جانے مانے اور قابل احترام صحافی تھے جنھوں نے اپنے شعبہ انتخاب ميں بے شمار کاميابياں اور ايوارڈز حاصل کر رکھے تھے اور وہ اس شعبے سے ايک دہائ سے زيادہ عرصے تک منسلک رہے تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

bilakhir2.jpg



10632620_777397072320453_1510457789996475587_n.jpg
 
Top