x boy
محفلین
پھر کون تھانسلی یورپین تو نہیں تھا۔
کیا امریکہ شی آئی اے اور موشاد صحافیوں کو ہی دنیا بھر میں استعمال کررہے ہیں
پھر کون تھانسلی یورپین تو نہیں تھا۔
برطانوی پاکستانیپاکستان میں بھی ایک بار ایسا ہوا تھا ڈینی پرل کو قتل کرنے والا القاعدہ کا تھا یورپین تھا
صحافیوں کو معاوضہ بہت ملتا ہے جو یہ کام کرتے ڈرتے نہیں؟
کیوں کررہے ہیں؟معاملہ یہ نہیں کہ صحافی کا کیا کردار ہے
بلکہ یہاں یہ بھی پوائنٹ ہے کہ آخر برطانیہ سے لوگ اکر اس طرح کیوں کررہے ہیں؟
کیوں کررہے ہیں؟
میری رائے میں یہ لوگ ائسولییٹڈ ہیں اور کچھ نظرانداز ہیں۔ معاشرے میں جذب نہیں ہوئے یعنی تنہا ہیں۔
دونوں سے لگتے ہیںگھر اور معاشرے سے الگ تھلک ہیں یا معاشرے نے ان کے ساتھ زیادتی کی انکا نتیجہ ہے
یقین نہیں اتابرطانوی قصبے میں چودہ سو بچوں کا جنسی استحصال
برطانیہ میں منگل 26 اگست کو منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق وہاں روتھرہیم نامی صرف ایک قصبے میں گزشتہ 16 برسوں کے دوران قریب 1400 بچوں کا جنسی استحصال کیا گیا۔
لندن سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اس تازہ رپورٹ سے یہ تصدیق ہو گئی ہے کہ کس طرح اس برطانوی قصبے کے ذمے دار اہلکار اور ان کی نگرانی میں کام کرنے والا سماجی نظام اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہے اور 1997ء سے لے کر 2013ء تک Rotherham میں 11 سے لے کر 16 سال تک کی عمر کے ایک ہزار چار سو کے قریب لڑکوں اور لڑکیوں کو نہ صرف پیٹا گیا اور ان کی ٹریفکنگ کی گئی بلکہ انہیں جنسی استحصال کا نشانہ بنانے کے علاوہ ان کا ریپ تک کیا گیا۔
اس رپورٹ کے مصنف آلیکسس جے Alexis Jay نے اس سال یکم جنوری سے پہلے تک کے سولہ برسوں کے دوران تقریباﹰ ڈھائی لاکھ کی آبادی والے اس برطانوی قصبے میں رونما ہونے والے پرتشدد واقعات کا جائزہ لیا۔ یہ غیر جانبدارانہ رپورٹ روتھرہیم اور اس کے گرد و نواح میں جنسی جرائم کے مرتکب افراد کو عدالتی سطح پر سزائیں سنائے جانے کے بہت سے حالیہ واقعات اور پھر اسی بارے میں برطانوی اخبار ٹائمز آف لندن میں ایک ہوشربا رپورٹ کی اشاعت کے بعد تیار کی گئی۔
خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ اس رپورٹ کے مصنف کے مطابق جسمانی تشدد اور جنسی استحصال کے ان واقعات کا شکار بننے والے بچوں کے بیانات کو پڑھا جائے تو یہ تصور کرنا محال ہو جاتا ہے کہ کس طرح ایک طویل عرصے تک ان جرائم کی روک تھام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا تھا۔
اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے مرتکب افراد کا تعلق زیادہ تر برطانیہ میں آباد پاکستانی تارکین وطن کی برادری سے تھا اور کس طرح بچوں کو مارا پیٹا جاتا رہا، ان کا استحصال کیا گیا، انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا رہا اور بہت سے واقعات میں انہیں اغواء کر کے انگلینڈ کے شمال میں دیگر قصبوں اور شہروں تک میں پہنچا دیا جاتا تھا۔
آلیکسس جے نے اپنی اس رپورٹ میں لکھا ہے، ’’ان جرائم میں ایسے بچوں کی مثالیں بھی موجود ہیں، جن پر پٹرول چھڑک کر انہیں آگ لگا دینے کی دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ انہیں آتشیں ہتھیار دکھا کر ڈرایا جاتا رہا۔ اس کے علاوہ انہیں زبردستی ریپ کے ایسے پرتشدد واقعات دیکھنے پر مجبور کیا جاتا رہا، جن کے بعد انہیں کہا جاتا تھا کہ اگر انہوں نے اس بارے میں کسی کو بتایا تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے گا۔‘‘
رپورٹ کے مصنف کے مطابق جنسی استحصال اور جنسی زیادتیوں کے ان واقعات کے دوران ایسی لڑکیوں کو بھی ریپ کیا گیا، جن کی عمر محض گیارہ برس تھی۔ ریپ کے ایسے واقعات کے مجرم اکثر ایسے بالغ مرد تھے، جو متعدد مرتبہ مختلف متاثرین کے خلاف ایسی زیادتیوں کے مرتکب ہوئے تھے۔‘‘
http://www.dw.de/برطانوی-قصبے-میں-چودہ-سو-بچوں-کا-جنسی-استحصال/a-17880881
میں اس قتل کی حمایت نہیں کرتا مگر امریکیوں نے بھی ڈاکٹروں تک سے جاسوسی کروا ڈالی
ان کی وجہ سے خیبر پختونخواہ میں پولیو ویکسین کا منصوبہ ٹھپ ہوگیا اور ایف سی و پولیس کی نگرانی میں پولیو ٹیمیں کچھ علاقوں میں کام کرتی ہیں۔
ہرشعبہ سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔
میں اس قتل کی حمایت نہیں کرتا مگر امریکیوں نے بھی ڈاکٹروں تک سے جاسوسی کروا ڈالی اور پاکستان سے کئی صحافی جاسوسی کی وجہ سے نکالے گئے ہیں
ان کی وجہ سے خیبر پختونخواہ میں پولیو ویکسین کا منصوبہ ٹھپ ہوگیا اور ایف سی و پولیس کی نگرانی میں پولیو ٹیمیں کچھ علاقوں میں کام کرتی ہیں۔
ہرشعبہ سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
وہ رائے دہندگان جو بدستور امريکہ کو پوليو ورکرز کے خلاف جاری خونی مہم کے ليے قصوروار سمجھتے ہيں، انھيں يہ ياد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سال 2009 ميں اقوام متحدہ کے ادارے ڈبليو-ايچ-او کی جانب سے پوليو کے انسداد کے ضمن ميں حائل رکاوٹوں کے تعين کے ليے ايک آزادانہ تحقيق کا اہتمام کيا گيا جس ميں تمام متاثرہ ممالک ميں تفصيل کے ساتھ ان عوامل کا ذکر کيا گيا جو پوليو کے خاتمے کے عمل کو مکمل نہيں ہونے دے رہے۔ اس وقت بھی پاکستان اور افغانستان ميں اس ضمن ميں سب سے بڑی رکاوٹ سيکورٹی اور پوليو ورکرز کو عدم تحفظ قرار ديا گيا تھا۔
يہ انتہائ لغو الزام ہے کہ کراچی، پشاور اور مختلف قبائلی علاقوں ميں پوليو ورکرز کی ہلاکت کے حاليہ واقعات کا براہراست تعلق ڈاکٹر شکيل آفریدی کيس سے ہے۔ ناقابل ترديد حقيقت تو يہ ہے کہ برسا برس سے دہشت گردوں کی جانب سے اس ايشو کو استعمال کر کے عوامی سطح پر خوف اور دھونس کے ذريعے اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔ دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے پوليو ويکسينيشن کے ضمن ميں کی جانے والی کاوشوں کے خلاف اپنے زہريلے پراپيگنڈے کے ذريعے دنيا کے بے شمار ممالک ميں ان گنت معصوم لوگوں کو ہلاک اور بچوں کے ليے تکليف اور اذيت کا سامان ان کی سوچ کا آئينہ دار ہے۔
ملک کے طول و عرض ميں بے گناہ ہيلھ ورکرز کا حالیہ قتل اسی خونی مہم کی تازہ کڑی ہے جو ايک دہائ سے بھی زيادہ پرانی ہے۔
سال 2010کے دوران پاکستان دنيا کا واحد ملک تھا جہاں پر اس بيماری سے اپاہج ہونے والے افراد کی تعداد ميں پہلے کے مقابلے ميں اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس يہ تعداد 89 تھی جو ورلڈ ہيلتھ آرگائنيزيشن کے مطابق اس سال بڑھ کر 138 ہو گئ۔ ان اعدادوشمار کی روشنی ميں پاکستان ميں دنيا بھر کے مقابلے ميں پوليو کے سب سے زيادہ کيسز سامنے آئے ہیں۔
ان ميں سے زيادہ تر کيسز افغان سرحد کے پاس ان علاقوں ميں سامنے آئے ہيں جہاں گزشتہ برس ايک پاکستانی طالبان کمانڈر نے پوليو ويکسين کو غير شرعی قرار ديا تھا۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
کیا شکیل آفریدی اس کیس میں شامل ہے یا نہیں
پاکستان میں بھی ایک بار ایسا ہوا تھا ڈینی پرل جو امریکن جاسوس صحافی تھا وہ قتل ہوا اور