hakimkhalid
محفلین
''جیو ''پر حملہ آزادیِ صحافت پر حملہ ہے:قاضی ایم اے خالد
[align=justify:7828d60ebe]جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آج اسلام آباد میں پولیس زبردستی جیو نیوز کے آفس میں داخل ہوگئی اور آنسو گیس پھینک کر اسٹاف کو باہر نکلنے پر مجبور کر دیا گیا ۔ رپورٹ کے مطابق رائفل اور ڈنڈوں سے لیس پولیس تقریباً چار بج کر پینتیس منٹ پر اچانک اسلام آباد میں جیو نیوز کے دفتر میں گھس گئی۔بیورو چیف حامد میر نے انہیں اندر داخل ہونے سے روکا اور کہا کہ پاکستان کے آئین کے تحت وہ کسی نجی عمارت میں بغیر اجازت داخل نہیں ہو سکتے لیکن ان کی بات سنے بغیر پولیس اہلکار انہیں دھکا دے کر اندر داخل ہوگئے ۔پولیس اہل کاروں کا کہنا تھا کہ جیو نیوز کی نشریات بند کی جائیں کیونکہ ٹی وی پر کہا جا رہا ہے کہ اسلام آبادکی صورت حال خراب ہے ۔جیو نیوز کے اسٹاف نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے انہیں گالیاں دیں اور انہیں زدو کوب کیا ۔اس سے اسٹاف کے لوگ زخمی ہوگئے ۔پولیس اہل کاروں نے اسٹاف کو باہر نکلنے کے لیے کہالیکن ان کی مزاحمت پر عمارت کے اندر آنسو گیس پھینکی گئی تاکہ اسٹاف کو باہر نکلنے پر مجبور کیا جاسکے ۔حامد میر کے مطابق پولیس نے جیو نیوز کی عمار ت کے شیشے توڑ دیئے ہیں۔
اسلام آباد میں جیو ٹی وی کے دفتر میں پولیس کا حملہ توڑپھوڑ اور اسٹاف پر تشدد یقینا ریاستی دہشت گردی کی انتہا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ آزادیِ صحافت کے نعرے لگانے والے اب عدلیہ کے بعد صحافت پر حملہ آور ہوگئے ہیں۔جسے کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔
پارلیمنٹ،پریس اور عوام کو حکومتی اقدامات کے تجزئیے اور چھان بین کےلیے اطلاعات اور معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔بروقت معلومات کی بناء پر وہ فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہوتے ہیں اور حکومت کے احتساب کے سلسلے میں ان کی اہلیت میں اضافہ ہوتا ہے۔آزادیِ صحافت کے جواز کا تعلق بنیادی طور پر حکومت کے عوام کے سامنے جوابدہ ہونے کے تصور سے ہے۔عوام کو محکوم رکھنے والے بعض حکمران اصل واقعات تک عوام کی رسائی مناسب نہیں سمجھتے جو انتہائی غیرمناسب بات ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے مطابق آزادیِ اطلاعات ایک بنیادی انسانی حق ہونے کے ساتھ ساتھ تمام آزادیوں کی کسوٹی ہے۔جیو اس نازک دور میں آزادیِ صحافت اور آزادی رائے کا علم سربلند کر رہا تھا جو حکمرانوں کو ناگوار گذرا اور یہ انتہائی اقدام اٹھا کر میڈیا کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئ ہے۔ اگر میڈیا آزاد ہے تو ملک آزاد ہے۔اگر میڈیا پر کوئی قدغن لگائی جائے یا عوام تک اطلاعات کی فوری رسائی کے حوالے سے اسے ہراساں کیا جائے تو ہم کسی آزاد ملک کے شہری نہیں کہلا سکتے۔ موجودہ دور میں پریس کو کسی طور ''پریس'' نہیں کیا جا سکتا۔اس سلسلے میں تمام حکومتی کوششیں ناکام ہوں گی لہذا حکومت اس سلسلے میں باز رہے۔ تمام اہلِ وطن جیو سمیت اپنے تمام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ہیں۔
پیارے پڑھنے والے کیا آپ آزادیِ اطلاعات کے اپنے بنیادی حق کا تحفظ چاہتے ہیں یا نہیں؟
قاضی ایم اے خالد (لاہور) [/align:7828d60ebe]