ایم اسلم اوڈ
محفلین
امریکی صدر اوباما اپنے خاندان کے ہمراہ امریکہ کے شمالی مشرقی علاقے اٹلانٹک سٹی کے ساحل پر چھٹیاں گزارنے پہنچ گئے۔ خوب مزے کئے۔ بیوی بچوں کے ساتھ سائیکل کی سواری سے لطف اندوز ہوئے۔ آئس کریم کھائی۔کشتی کی سیر کی۔ ساحل کے کنارے ٹینس کھیلی۔ ہوٹل کے سوئمنگ پول میں تیراکی کی۔ قابل دید مناظر اور پہاڑیوں پر ہائکنگ کی ۔۔۔ پاکستانی صدر زرداری بھی اپنے بچوں کے ہمراہ ”محفوظ ممالک “میں چھٹیاں گزارنے جاتے رہتے ہیں حالانکہ وہ بارہ مہینے چھٹیوں پر ہوتے ہیں اور انہیں یہ بھی علم ہے کہ پاکستان امریکہ کی51ویں ریاست ہے پھر بھی کراچی کے ساحل پر جاتے ہوئے ان کی جان جاتی ہے۔ جس ریاست کا امریکہ محافظ ہو اس کو بھلا کیا خطرہ؟ پاکستان امریکہ کی 51ویں ریاست ہے ۔۔۔ اگر یقین نہیں آتا تو ” ہلیری آپا“ آجکل پاکستان آئی ہوئی ہیں ان سے پوچھ لیں ۔۔۔ امریکہ کی پچاس ریاستیں دہشت گردی کی کے خطرات سے دوچار ہیں جبکہ پاکستان مکمل طور پر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ دلیر خاتون اس آگ میں چند ماہ پہلے بھی کود چکی ہیں اور کل پھر آ ٹپکی ہیں۔ پاکستان میں آموں کا موسم ہے۔ مون سون کا موسم بھی شروع ہو چکا ہے۔ امریکہ ہی نہیں دبئی ، لندن اور پاکستان میں بھی بچوںکو گرمیوں کی چھٹیاں ہیں۔ پاکستان کے صاحب حیثیت خاندان امریکہ اور یورپ میں چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں تو پاکستان کا صدر اپنے بچوں کے ہمراہ ان ”محفوظ ممالک“ میں سیر سپاٹے کرنے کیوں نہیں جا سکتا؟ ہلیری کلنٹن نے وزیر اعظم گیلانی کو یقین دلایا ہے کہ صدر اوباما کو پاکستان آنے کا دعوت نامہ پہنچا دیںگی ۔۔۔ پاکستان کے صدر ”منہ اٹھائے“ امریکہ پہنچ جاتے ہیں تو صدر اوباما کو بھی پاکستان کا دعوت نامہ قبول کر لینا چاہئے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکہ کے ساحل سمندر اور کراچی کے ساحل سمندر کی صورتحال کا موازنہ کئے بغیر امریکی صدر کو پاکستان آنے کی دعوت کس اعتماد پر دے دی ۔۔۔؟ پاکستان محفوظ ہوتا تو اس کے عوام تو درکنار اس کے حکمران بھی اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ ساحل سمندر پر سائیکل کی سواری سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دیتے۔ آئس کریم کھاتے۔ ٹینس کھیلتے ۔۔۔ مگر افسوس ۔۔۔! آمروں کی لگائی ہوئی آگ اور حکمرانوں کی بھڑکائی ہوئی اس آگ میں لوگ بے دریغ مارے جا رہے ہیں۔ عوام جائیں تو جائیں کہاں ۔۔۔؟ نہ ان کے پاس اثاثے ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا ٹھکانہ ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی پاکستان کے بنکوں میں رکھا اپنا سرمایہ تھوڑا تھوڑا کرکے نکال رہے ہیں۔ ایک وقت میں تمام سرمایہ نکالنے سے شبہ ہو سکتا ہے۔ ان پر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعلق کا جرم عائد ہو سکتا ہے۔ امریکہ کا صدر افغانستان کا پھیرا لگا سکتا ہے۔ بھارت جا سکتا ہے۔ شمالی کوریا کے ساتھ رنجش کے باوجود وہاں جا نے میں بھی خطرہ محسوس نہیں کر ے گا۔ سابق صدر کلنٹن امریکی صحافی لڑکیوں کو ان کی قید سے آزاد کرانے کے لئے شمالی کوریا گئے تو ان کا بھر پور استقبال کیا گیا۔ امریکی صحافی لڑکیاں باعزت طور پر ان کے حوالے کر دی گئیں۔ امریکہ کے دشمن بھی امریکی حکمرانوں کی آمد پر موم ہو جاتے ہیں جبکہ صدر اوباما پاکستان آنے سے پہلے لاکھ بار سوچے گا۔ ہلیری کلنٹن نڈر عورت ہے۔ پاکستان کے آتش کدے میں بے خطرکود پڑتی ہے ۔۔۔ آخرکچھ تو اس ملک میں پنہاں ہے ۔۔۔ ایٹم بم ۔۔۔ خاکمِ بدہن اس تک رسائی ہو گئی تو اس ملک سے سب سے پہلے اس کے حکمران فرار ہونگے ۔ ایٹم بم تک رسائی نہ ہو سکی تو امریکہ بھی فرار چاہے گا مگر فرار ہونا اتنا بھی آسان نہیں ہے ۔۔۔ عراق میں دھنسا ہوا ہے۔ افغانستان میں غرق ہے۔ پاکستان میں پھنس چکا ہے۔ پاکستان جل رہا ہے تو امریکہ بھی ٹھنڈا نہیں ہے۔ پاکستان کے حالات جب ”نکو نک“ آ گئے تو واپسی کا سفر شروع ہو جائے گا۔ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کے حالات خطرناک نہج کو پہنچ چکے ہیں جبکہ پاکستان ابھی ”نکو نک“ نہیں ہوا۔ ابھی مزید خون خرابہ ہو گا اور پھر ”موڑا“ پڑے گا۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون مثبت اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی بجائے اپنی انرجی ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرکے حکومت کو فائدہ پہنچا رہی ہیں۔ توپوںکا رخ وفاق کی بجائے ایک دوسرے کی جانب ہے۔ مسلم لیگ نون کی غیر سنجیدہ حکمت عملی کی وجہ سے ان کی مقبولیت کو نقصان پہنچا ہے مگر ”شدید نقصان“ نہیں پہنچا لہذا آئندہ انتخابات میں ان کے بر سر اقتدار آنے کے زمینی حقائق کو نظر انداز نہیں کیا سکتا۔ تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف بڑھ رہا ہے۔ امریکہ کی مداخلت ایسی حقیقت ہے جسے اپوزیشن اور حکمران غلط ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں مگر امریکہ کی پاکستان میں موجودگی کو جھٹلایا نہیں جا سکتا البتہ کوئی مخلص لیڈر شپ ہی اس ملک کو امریکہ کے چنگل سے آزاد کرا سکتی ہے۔ ہلیری کلنٹن پاکستان آم کھانے نہیں اپنی امداد کا حساب کتاب کرنے آئی ہیں۔ ”ڈو مور“ کا تقاضا کرنے آئی ہیں۔ کیری لوگر بل کے تحت پاکستان میں نئے منصوبوں کا اعلان کرنے اور امداد کا صحیح استعمال بتانے آئی ہیں۔ پاکستان ایک بار پھر ان کو”جی آیاں نوں“ کہتا ہے ۔۔۔ غلام ہَوائی اڈے پر ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔”سر سے سر جوڑے“ ایک بار پھر پاک امریکی لائحہ عمل پر غورو خوض ہو رہا ہے۔۔۔!
http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakista...rdu-online/Opinions/Columns/20-Jul-2010/13023
http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakista...rdu-online/Opinions/Columns/20-Jul-2010/13023