جوش جی میں آتا ہے کہ پھر مژگاں کو برہم کیجئے

حسان خان

لائبریرین
جی میں آتا ہے کہ پھر مژگاں کو برہم کیجئے
کاسۂ دل لے کے پھر دریوزۂ غم کیجئے
گونجتا تھا جس سے کوہِ بے ستون و دشتِ نجد
گوشِ جاں کو پھر اُنہیں نالوں کا محرم کیجئے
حُسنِ بے پروا کو دے کر دعوتِ لطف و کرم
عشق کے زیرِ نگیں پھر ہر دو عالم کیجئے
دورِ پیشیں کی طرح پھر ڈالئے سینے میں زخم
زخم کی لذت سے پھر تیار مرہم کیجئے
صبح سے تا شام رہئے قصۂ عارض میں گم
شام سے تا صبح ذکرِ زلفِ برہم کیجئے
دل کے ہنگاموں کو کیجے دل کے سناٹے میں غرق
رات کی خاموشیوں کو وقفِ ماتم کیجئے
دائمی آلام کا خوگر بنا کر روح کو
ناگہانی حادثوں کی گردنیں خم کیجئے
غیظ کی دوڑی ہوئی ہے لہر سی اصنام میں
جوش! اب اہلِ حرم سے دوستی کم کیجئے
(جوش ملیح آبادی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
تمام عمر جوش، غزل کی مخالفت اور نظم کی حمایت کرتے رہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ان کی غزلوں میں پھر بھی خیال کی گیرائی دکھائی پڑتی ہے۔ جبکہ نظمیں تو بالکل سطحی قسم کے خیالات لیے ہوئے ہیں۔
 
واہ واہ کیا عمدہ غزل ہے بلا شبہ ۔۔۔۔
دل کے ہنگاموں کو کیجے دل کے سناٹے میں غرق
رات کی خاموشیوں کو وقفِ ماتم کیجئے۔
اور یہ شعر بھی کہ
دائمی آلام کا خوگر بنا کر روح کو
ناگہانی حادثوں کی گردنیں خم کیجیئے۔
واہ لاجواب انتخاب
 
Top