فہیم
لائبریرین
جس طرح کے حالات آج کل ملک عزیز پاکستان کے ہیں کہ بہتری کے بجائے ملک بد تری کی جانب جاتا محسوس ہوتا ہے۔ حکمران ملک کو اپنی جاگیر جانتے ہیں اورنام کی جمہوریت گھر کی لونڈی بن کے رہ گئی ہے۔ ایسے میں ایسا کیا ہو کہ ملک میں بہتری آئے اور کس طرح کے لوگ ہوں جن کے ہاتھوں ملک کا انتظام ہو۔
ایسے میں ذہن میں ایک شخصیت آتی ہے جس نے ان لحمات میں جب بنو امیہ اندلس کی حکومت اندرونی خانہ جنگیوں اور بد انتظامی کی وجہ سے تباہی کے قریب تھی اس کی باگ دوڑ سنبھالی اور وہ کر دکھایا کہ دنیا آج بھی اسے مانتی ہے۔
اور وہ شخص کوئی بادشاہ نہیں تھا نہ ہی شاہی خاندان سے تھا نہ ہی پہلے کوئی بہت اونچا نام تھا۔ اور وہ شخص ہے محمد بن عامر المعروف "حاجب المنصور"۔
مورخ لکھتے ہیں کہ حاجب المنصور کا جدِ اعلیٰ عبدالمالک المعافی فاتح اندلس طارق بن زیاد کے ساتھ ایک سپاہی کی حیثیت سے اندلس میں وارد ہوا تھا۔ جبکہ اس کا والد ابو حفص عبداللہ ایک قانون دان اور عالم دین تھا۔ حاجب المنصور 942ء میں پیدا ہوا۔ اس نے اپنی زندگی کی ابتداء ایک نہایت ہی معمولی درجہ سے کی وہ قصر خلافت کے سامنے لوگوں کی عرضیاں اور درخواستیں تحریر کرتا پھر اسے شعبہ قضا میں معمولی ملازمت مل گئی۔پھر اسے شہزادہ عبدالرحمٰن کی جائیداد کی نگرانی کی نوکری مل گئی اور یہیں سے اس کے عروج کے دن شروع ہوئے اس نے ملکہ کو خوشامد، چاپلوسی وار حسن انتظام سے بے حد متاثر اور خوش کیا۔ چناچہ ملکہ نے اسے اشبیلہ میں زکوٰۃ اور وراثت کے شعبہ کا سربراہ بنادیا اور اپنی جائیداد کا نگران بھی۔ یہاں بھی اس نے اپنی صلاحیتوں مظاہرہ کیا اور ملکہ کی نظر میں ایک اہم مقام حاصل کرلیا۔ لہٰذا اس پھر قرطبہ میں دارالغرب کا افسر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔
شہزادہ عبدالرحمٰن کی وفات کے بعد سے ہشام کا اتالیق مقرر کیا گیا جو اب وارثِ تخت تھا۔ لیکن کم عمر ہونے کی وجہ سے بالکل ہی ناتجربہ کار تھا اسے نہ ہی حکومت کرنے کا پتہ تھا نہ جنگی چالوں سے کوئی واقفیت تھی۔ شمال کے عیسائیوں نے جب حکومت پر ایک نا بالغ بچے کو بیٹھے دیکھا تو اپنی چیرہ دستیوں اور لوٹ مار سے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا۔
ہشام کے پاس فوج اور خزانہ تھا لیکن وہ جنگی امور سے لا علم تھا۔ اس بات سے ملکہ پریشان تھی اس نے حاجب المنصور کو شمال کے عیسائیوں کی سرکوبی کے لئے مقرر کردیا۔ اور یہیں سے حاجب المنصور کی اصل شخصیت سامنے آئی۔ وہ طاقتور، فال اور مردم خیز معاشرہ جس کو اندلس میں امویو کے دماغ کی کشو کشائی نے جنم دیا تھا حاجب المنصور اس کا بہترین ثمر اور ممتاز نمائندہ ثابت ہوا۔
جس قسم کی سیاسی بصیرت، انتظامی صلاحیت اور عسکری فوقیت کا اس شخص نے اپنے 26 سالہ اقتدار میں مظاہرہ کیا وہ تاریخ کا ایک ولولہ انگیز اور بہت حد تک حیران کن باب ہے۔
اس میں ایسا غیر متزلزل اور ناقابل شکست عزم تھا کہ جس کی بدولت اس نے اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو پاش پاش کردیا۔ اندورنی سازشیں تھیں یا بیرونی خطرات کوئی بھی اس پر غالب نہ ہوسکا۔ اس کے وقت میں اندلس کی بڑی طاقتور شخصیات جو اقتدار کے عروج پر تھیں حاجب المنصور سے سیاست اور جنگ دونوں میں مات کھا گئیں۔ حاجب المنصور ایسی طاقت رکھتاتھا جس سے وقت کی ساری ہی طاقتیں یا تو شکست کھا کر ملیا میٹ ہوجاتیں یا پھر حاشیہ بردار ہوکر اپنا وجود فنا کرلیتیں۔اس نے اندلس اور جنوب مغربی یورپ کی تاریخ کو جس قدر متاثر کیا کسی اور نے نہیں کیا۔ عبدالرحمٰن الناصر کے بعد دسویں صدی عیسوی میں حاجب المنصور یورپ کا سب سے بڑا جرنیل اور سیاست دان تھا۔
اس نے بادشاہ یا خلیفہ کا لقب تو اختیار نہیں کیا لیکن اس کی حیثیت کسی طور پر خلیفہ سے کم نہ تھی۔شاہی کاغذات پر اس کی مہر ثبت ہوتی اور اسی نے اپنے مہر سے اپنے بیٹے کو بطور حاجب یعنی وزیر اعظم نامزد کیا اور کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ اس کی مخالفت کرسکے۔
اگرچہ اس کا تعلق فوج سے نہیں رہا تھا لیکن اس نےمیدان جنگ میں اپنے کمالات کا لوہا دوست و دشمن سب سے منوایا۔ شمال کے عیسائیوں کے خلاف اس نے 52 جنگیں لڑیں اور سب میں فتح یاب ہوا۔لیون، نبرہ، برشلونہ اور قشتالبہ کی عیسائی ریاستوں کے علم سرنگوں کردیئے گئے اور اطاعت قبول کرنےکے سوا کوئی اور راہ عمل ان کے لیے باقی نہ رہا۔ ان جنگوں اور یلغاروں کا نتیجہ تھا کہ وہ سلطنت اور خزانے جو عیسائیوں نےسابقہ تین سو برسوں میں حاصل کئے تھے وہ بیس سال میں ختم ہوگئے۔ اس کے نام سے ہی عیسائیوں پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ عیسائیوں کے خوف اور حاجب المنصور کی ہیبت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ اسلامی فوج کے سپہ سالار نے ایک بلند پہاڑی پر اپنا پرچم نصب کردیا اور روانگی کے وقت اس کو اکھاڑنا بھول گیا۔ وہ پرچم عرصہ تک یوں ہی لہراتا رہا اور کسی عیسائی کو اتنی ہمت نہ ہوئی کہ وہ جاکر اسے اتار دیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ شمالی اندلس کے عیسائیوں کا حاجب المنصور جیسے دشمن سے کبھی پہلے مقابلہ نہ کرنا پڑا تھا۔
جنگ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے انتظام و انصرام کی طرف بھی وہ خصوصی توجہ دیتا تھا۔ عہدہ قضاء پر وہ بہترین افرادمتعین کرتا اس کے تمام چھوٹے بڑے کاموں سے ذہانت، لیاقت اور انتظامی سوجھ بوجھ صاف نظر آتی۔ حاجب المنصور نے اپنے آہنی ہاتھوں سے ملک میں قانون کی بالادستی اور امن و امان کی فضا قائم کی۔ لوٹ مار کا خاتمہ کیا اور حکومتی کارندوں کی کارکردگی پر مؤثر کنٹرول کرکے انتظامیہ سے وہ خرابیاں دور کیں جو دورہ وسطی میں عام تھیں۔ اس نے بد نظمی اور بدعنوانیوں کو ختم کرنے کے لئے مالیاتی امور کی خصوصی نگرانی کی۔ وہ خود مالیات کی جانچ پڑتال کرتا اوربدعنوان افسروں اور ماتحتوں کوان کے عہدوں سے فوراً برطرف کردیتا۔
حاجب المنصور نے ملک و قوم کی ساری ترقی کے لئے بھی بھرپور کام کیا اور اندلس کو سطوت و اقبال کی اس بلندی پر پہنچایا جس پر وہ پہلے کبھی فائز نہ تھا۔ یہاں تک کہ عبدالرحمٰن سوم کے زمانہ میں بھی اسے یہ عروج حاصل نہ ہوا تھا۔
حاجب المنصور کا برسر اقتدار آنا نہ صرف اندلس بلکہ اموی خاندان کے لئے بھی سود مند ثابت ہوا۔ اس کا 26 سالہ دور حکومت اندلس میں امویوں کا دم واپس کہا جاسکتا ہے۔ اس نے امویوں کے اقتدار پر قبصہ کیا لیکن اس اقتدار کو ناجائز پر استعمال نہیں کیا بلکہ پوری ذمہ داری اور انصاف کے مطابق اس کے تقاضوں کو پورا کیا۔
آج بھی اسپین میں سب سے بلند پہاڑ اسے کے نام(المنصور) پر ہے۔
ایسے میں ذہن میں ایک شخصیت آتی ہے جس نے ان لحمات میں جب بنو امیہ اندلس کی حکومت اندرونی خانہ جنگیوں اور بد انتظامی کی وجہ سے تباہی کے قریب تھی اس کی باگ دوڑ سنبھالی اور وہ کر دکھایا کہ دنیا آج بھی اسے مانتی ہے۔
اور وہ شخص کوئی بادشاہ نہیں تھا نہ ہی شاہی خاندان سے تھا نہ ہی پہلے کوئی بہت اونچا نام تھا۔ اور وہ شخص ہے محمد بن عامر المعروف "حاجب المنصور"۔
مورخ لکھتے ہیں کہ حاجب المنصور کا جدِ اعلیٰ عبدالمالک المعافی فاتح اندلس طارق بن زیاد کے ساتھ ایک سپاہی کی حیثیت سے اندلس میں وارد ہوا تھا۔ جبکہ اس کا والد ابو حفص عبداللہ ایک قانون دان اور عالم دین تھا۔ حاجب المنصور 942ء میں پیدا ہوا۔ اس نے اپنی زندگی کی ابتداء ایک نہایت ہی معمولی درجہ سے کی وہ قصر خلافت کے سامنے لوگوں کی عرضیاں اور درخواستیں تحریر کرتا پھر اسے شعبہ قضا میں معمولی ملازمت مل گئی۔پھر اسے شہزادہ عبدالرحمٰن کی جائیداد کی نگرانی کی نوکری مل گئی اور یہیں سے اس کے عروج کے دن شروع ہوئے اس نے ملکہ کو خوشامد، چاپلوسی وار حسن انتظام سے بے حد متاثر اور خوش کیا۔ چناچہ ملکہ نے اسے اشبیلہ میں زکوٰۃ اور وراثت کے شعبہ کا سربراہ بنادیا اور اپنی جائیداد کا نگران بھی۔ یہاں بھی اس نے اپنی صلاحیتوں مظاہرہ کیا اور ملکہ کی نظر میں ایک اہم مقام حاصل کرلیا۔ لہٰذا اس پھر قرطبہ میں دارالغرب کا افسر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔
شہزادہ عبدالرحمٰن کی وفات کے بعد سے ہشام کا اتالیق مقرر کیا گیا جو اب وارثِ تخت تھا۔ لیکن کم عمر ہونے کی وجہ سے بالکل ہی ناتجربہ کار تھا اسے نہ ہی حکومت کرنے کا پتہ تھا نہ جنگی چالوں سے کوئی واقفیت تھی۔ شمال کے عیسائیوں نے جب حکومت پر ایک نا بالغ بچے کو بیٹھے دیکھا تو اپنی چیرہ دستیوں اور لوٹ مار سے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا۔
ہشام کے پاس فوج اور خزانہ تھا لیکن وہ جنگی امور سے لا علم تھا۔ اس بات سے ملکہ پریشان تھی اس نے حاجب المنصور کو شمال کے عیسائیوں کی سرکوبی کے لئے مقرر کردیا۔ اور یہیں سے حاجب المنصور کی اصل شخصیت سامنے آئی۔ وہ طاقتور، فال اور مردم خیز معاشرہ جس کو اندلس میں امویو کے دماغ کی کشو کشائی نے جنم دیا تھا حاجب المنصور اس کا بہترین ثمر اور ممتاز نمائندہ ثابت ہوا۔
جس قسم کی سیاسی بصیرت، انتظامی صلاحیت اور عسکری فوقیت کا اس شخص نے اپنے 26 سالہ اقتدار میں مظاہرہ کیا وہ تاریخ کا ایک ولولہ انگیز اور بہت حد تک حیران کن باب ہے۔
اس میں ایسا غیر متزلزل اور ناقابل شکست عزم تھا کہ جس کی بدولت اس نے اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو پاش پاش کردیا۔ اندورنی سازشیں تھیں یا بیرونی خطرات کوئی بھی اس پر غالب نہ ہوسکا۔ اس کے وقت میں اندلس کی بڑی طاقتور شخصیات جو اقتدار کے عروج پر تھیں حاجب المنصور سے سیاست اور جنگ دونوں میں مات کھا گئیں۔ حاجب المنصور ایسی طاقت رکھتاتھا جس سے وقت کی ساری ہی طاقتیں یا تو شکست کھا کر ملیا میٹ ہوجاتیں یا پھر حاشیہ بردار ہوکر اپنا وجود فنا کرلیتیں۔اس نے اندلس اور جنوب مغربی یورپ کی تاریخ کو جس قدر متاثر کیا کسی اور نے نہیں کیا۔ عبدالرحمٰن الناصر کے بعد دسویں صدی عیسوی میں حاجب المنصور یورپ کا سب سے بڑا جرنیل اور سیاست دان تھا۔
اس نے بادشاہ یا خلیفہ کا لقب تو اختیار نہیں کیا لیکن اس کی حیثیت کسی طور پر خلیفہ سے کم نہ تھی۔شاہی کاغذات پر اس کی مہر ثبت ہوتی اور اسی نے اپنے مہر سے اپنے بیٹے کو بطور حاجب یعنی وزیر اعظم نامزد کیا اور کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ اس کی مخالفت کرسکے۔
اگرچہ اس کا تعلق فوج سے نہیں رہا تھا لیکن اس نےمیدان جنگ میں اپنے کمالات کا لوہا دوست و دشمن سب سے منوایا۔ شمال کے عیسائیوں کے خلاف اس نے 52 جنگیں لڑیں اور سب میں فتح یاب ہوا۔لیون، نبرہ، برشلونہ اور قشتالبہ کی عیسائی ریاستوں کے علم سرنگوں کردیئے گئے اور اطاعت قبول کرنےکے سوا کوئی اور راہ عمل ان کے لیے باقی نہ رہا۔ ان جنگوں اور یلغاروں کا نتیجہ تھا کہ وہ سلطنت اور خزانے جو عیسائیوں نےسابقہ تین سو برسوں میں حاصل کئے تھے وہ بیس سال میں ختم ہوگئے۔ اس کے نام سے ہی عیسائیوں پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ عیسائیوں کے خوف اور حاجب المنصور کی ہیبت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ اسلامی فوج کے سپہ سالار نے ایک بلند پہاڑی پر اپنا پرچم نصب کردیا اور روانگی کے وقت اس کو اکھاڑنا بھول گیا۔ وہ پرچم عرصہ تک یوں ہی لہراتا رہا اور کسی عیسائی کو اتنی ہمت نہ ہوئی کہ وہ جاکر اسے اتار دیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ شمالی اندلس کے عیسائیوں کا حاجب المنصور جیسے دشمن سے کبھی پہلے مقابلہ نہ کرنا پڑا تھا۔
جنگ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے انتظام و انصرام کی طرف بھی وہ خصوصی توجہ دیتا تھا۔ عہدہ قضاء پر وہ بہترین افرادمتعین کرتا اس کے تمام چھوٹے بڑے کاموں سے ذہانت، لیاقت اور انتظامی سوجھ بوجھ صاف نظر آتی۔ حاجب المنصور نے اپنے آہنی ہاتھوں سے ملک میں قانون کی بالادستی اور امن و امان کی فضا قائم کی۔ لوٹ مار کا خاتمہ کیا اور حکومتی کارندوں کی کارکردگی پر مؤثر کنٹرول کرکے انتظامیہ سے وہ خرابیاں دور کیں جو دورہ وسطی میں عام تھیں۔ اس نے بد نظمی اور بدعنوانیوں کو ختم کرنے کے لئے مالیاتی امور کی خصوصی نگرانی کی۔ وہ خود مالیات کی جانچ پڑتال کرتا اوربدعنوان افسروں اور ماتحتوں کوان کے عہدوں سے فوراً برطرف کردیتا۔
حاجب المنصور نے ملک و قوم کی ساری ترقی کے لئے بھی بھرپور کام کیا اور اندلس کو سطوت و اقبال کی اس بلندی پر پہنچایا جس پر وہ پہلے کبھی فائز نہ تھا۔ یہاں تک کہ عبدالرحمٰن سوم کے زمانہ میں بھی اسے یہ عروج حاصل نہ ہوا تھا۔
حاجب المنصور کا برسر اقتدار آنا نہ صرف اندلس بلکہ اموی خاندان کے لئے بھی سود مند ثابت ہوا۔ اس کا 26 سالہ دور حکومت اندلس میں امویوں کا دم واپس کہا جاسکتا ہے۔ اس نے امویوں کے اقتدار پر قبصہ کیا لیکن اس اقتدار کو ناجائز پر استعمال نہیں کیا بلکہ پوری ذمہ داری اور انصاف کے مطابق اس کے تقاضوں کو پورا کیا۔
آج بھی اسپین میں سب سے بلند پہاڑ اسے کے نام(المنصور) پر ہے۔