حادثہ تھا کوئی ہو گیا
وہ ہمیں مل کے اب کھو گیا
چار سو پھیلا اندھیرا ہے
اپنا چاند کہاں سو گیا
عشق کی راہ پرخار ہے
ڈگمگایا جو سو وہ گیا
فطرتِ انساں شاید ہے یہ
ہر طرف یہ زہر بو گیا
کن بلندیوں سے ہے گرا
ٹکرے ٹکرے یہ دل ہو گیا
جان تھا جو، بتائیں کسے
آج کیسے بچھڑ وہ گیا
ایک آنسو ندامت کا وہ
میرے سارے گناہ دھو گیا
شام کوئی نہ کوئی تو تھا
تجھ کو یوں چھوڑ کر جو گیا