انسان حاصل کی تمنا میں لاحاصل کے پیچھے دوڑتا ہے۔ اس بچے کی طرح جو تتلیاں پکڑنے کے مشغلے میں گھر سے بہت دور نکل جاتا ہے۔ نہ تتلیاں ملتی ہیں، نہ واپسی کا راستہ۔
اس بات کو بہت سے زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔
جو حاصل ہے اس کی تمنا کیسی ؟ اور جو لاحاصل ہے اس کے پیچھے دوڑنا کیسا؟
شاید یہ بات ایسے ٹھیک رہے گی کہ
انسان حاصل کرنے کی تمنا میں لاحاصل کے پیچھے دوڑتا ہے
اسی پیرائے میں حضرت واصف رح نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
زندگی کو سکون سے گزارنا ہے دو ہی طریقے ہیں۔ جو تمہاری چاہت ہے اسے حاصل کر لو یا جو تمہیں حاصل ہے اسے اپنی چاہت بنا لو۔
لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جیسا محترمی
محمداحمد جی نے اپنے ایک شعر میں کہا کہ
اُس کو پانے کی طلب!پر سوچ لو
اُس کو پا نا ، اُس کوکھونا ہو تو پھر؟
ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ لاحصل کے حصول کی تمنا کچھ بری چیز بھی نہیں ہے یہی تمنا تو کاروبارِ دنیا کو چلائے ہوئے ہے۔
دوڑتا ہے اشہبِ زمانہ
کھا کھا کے طلب کا تازیانہ
اس معاملے کو جب میں نے اپنے نقطہ نظر سے دیکھا محسوس ہوا کہ کبھی کبھی اس لاحاصل کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے انسان خود بھی گم ہو جاتا ہے۔ پھر سوچا ایسا بھی تو ہو سکتا ہے انسان کسی کو اپنی چاہت بنانے کی بجائے خود کسی کی چاہت بن جائے۔ تو کچھ یوں بیان کرنے کی کوشش کی۔
عشق کی بھول بھلیوں میں کیا کھویا ہے ، کیا پایا ہے
ڈھونڈنے والے خود کو ڈھونڈیں، خود کو کھو کر پانا مشکل
اس نے کہا سب میرا ہے اور میں نے کہا تو میرا ہے
ناسمجھی کی میری باتیں سب کی سمجھ میں آنا مشکل
شاعر تو ہوں نہیں بس خیالات کو الفاظ کا روپ دینے کی کوشش کی اس لیے اگر کوئی غلطی نظر آئے تو
محمداحمد جی اصلاح فرما دیجیے گا۔