حسان خان
لائبریرین
بوسنیا اس روئے زمین پر جغرافیائی لحاظ سے مغربی ترین نقطہ ہے جہاں (عثمانی سلطنت کی بدولت) فارسی ادبی زبان کے طور پر رائج رہی ہے۔ بوسنیائی لوگوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد عثمانی ترکوں کی تقریباً تمام ثقافت، عادات اور دلچسپیاں اپنا لی تھیں۔ بوسنیا کے خواندہ افراد کے لیے ان میں سے ایک دلچسپی فارسی زبان بھی تھی، جسے اُنہوں نے دل جمعی سے سیکھا اور تحریر کے لیے استعمال کیا۔ سلطنتی امور کی زبان عثمانی ترکی تھی جو خود ستر فیصد سے زائد فارسی پر مشتمل تھی، اور فارسی کے اسلوب کی تقلید کرتے ہوئے ہی اس میں نظم و نثر لکھے جاتے تھے۔ ایسے میں عثمانی ترکی کے ساتھ فارسی کی تدریس لازم و ملزوم تھی۔ اگرچہ بیشتر بوسنیائی اہلِ قلم علماء قسمت آزمائی کے لیے استانبول جاتے تھے، لیکن بوسنیا کے سرائیوو اور موستار جیسے شہروں میں بھی فارسی زبان و ادب کی پرورش ہوتی رہی۔ یہ درست ہے کہ عثمانی دور میں بوسنیائی ادیبوں کی بیشتر کتب عثمانی ترکی میں ہیں، لیکن اُنہوں نے فارسی میں جتنا کچھ لکھا وہ اس وجہ سے دلچسپ ہے کہ یہ تحاریر فارسی ادبی تہذیب کے مغربی ترین پھیلاؤ کی نمائندگی کرتی ہیں۔
عثمانی دور ختم ہونے کے باوجود آج بھی بوسنیائی زبان میں فارسی کا اثر موجود ہے۔ بیرونی الفاظ کی ایک مرتب کردہ لغت کے مطابق اس وقت بوسنیائی زبان کے کُل ذخیرۂ الفاظ میں نو ہزار کے قریب ایسے الفاظ ہیں جو ترکی، فارسی اور عربی کے راستے سے زبان میں شامل ہوئے ہیں۔ مشرقی زبانوں کا یہ اثر صرف بوسنیائی زبان تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ خطے کی سخت گیر مسیحی اقوام کی زبانوں میں میں بھی مشرقی زبانوں سے مستعار الفاظ موجود ہیں۔ اس کی ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ آج بھی سربستان (سربیا) اور خرواتستان (کروشیا) میں کسی اچھی چیز کو دیکھ کر آفرین کہنے کے لیے 'ماشالا' کہا جاتا ہے جو عربی کے 'ماشاءاللہ' ہی کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
بوسنیا کے انہیں فارسی دانوں میں ایک 'احمد سودی بوسنوی' بھی تھے جن کے تعارف کے لیے یہ دھاگا کھولا گیا ہے۔ یہ جناب مشرقی بوسنیا میں فوچا کے نزدیک واقع گاؤں سودیچ میں پیدا ہوئے تھے، اور اسی گاؤں کی نسبت سے اُن کا تخلص سودی تھا۔ اُنہوں نے ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنی جائے پیدائش ہی پر کیا۔ پھر جوانی میں مزید تحصیلات کے لیے اُنہوں نے استانبول کے راستے دیاربکر تک کا سفر کیا جہاں اُن کی ملاقات ایک ایرانی مہاجر مصلح الدین لاری سے ہوئی جو صفویوں کے تعصب کی وجہ سے ایران سے ہجرت کر کے دیاربکر منتقل ہو گئے تھے۔ وہاں احمد سودی نے اُن سے فارسی اور مروجہ علوم سیکھے۔ مصلح الدین لاری کی دلچسپی دینی علوم میں تھی، لیکن احمد سودی نے اپنی توجہ فارسی ادب پر مرکوز رکھی۔ اپنے استاد کی وفات کے بعد احمد سودی استانبول کے ابراہیم پاشا مدرسے میں پڑھانے لگے جہاں اُنہوں نے عثمانی ترکی میں فارسی کلاسیکی ادب کے شاہ کاروں پر شرح لکھنے کا کام آغاز کیا۔ اُنہوں نے وہاں مولانا رومی کی مثنوی، سعدی کی گلستان اور بوستان، اور حافظ کے دیوان پر شرحیں لکھیں۔ اُنہوں نے علمِ صرف و نحو پر ابنِ حاجب کی کتابوں شافیہ و کافیہ کا بھی ترکی میں ترجمہ کیا اور اُن کی شرحیں لکھی۔ احمد سودی بوسنوی کی دیوانِ حافظ پر لکھی گئی شرح چار جلدوں میں فارسی میں ترجمہ ہو کر ایران میں شائع ہو چکی ہے، جو وہاں کے علمی حلقوں میں مشور ہے۔ ۱۵۹۶ء میں اُن کا استانبول میں انتقال ہو گیا۔
اُن کے مدرسے میں بہت سے بوسنیائی طلباء بھی آتے تھے جو سلطنتی امور میں شراکت کے قابل ہونے کے لیے وہاں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ اُنہیں طلباء میں سے ایک موستار سے تعلق رکھنے والے درویش پاشا بایزید آگیچ تھے۔ یہ جناب بوسنیا کے عثمانی حاکم اور وہاں مولویہ صوفی سلسلے کے بانی تھے۔ اسی لیے وہ اپنے تخلص کے طور پر درویش استعمال کرتے تھے۔ عثمانی قلمرو کی دوسری جگہوں کی طرح بوسنیا میں بھی مولوی صوفیاء حضرت رومی کی مثنوی کو اصل زبان میں ہی پڑھا کرتے تھے، اور اُن کے نزدیک فارسی کی حیثیت نیم مقدس زبان کی سی ہو گئی تھی۔ ان درویشوں نے عام اشرافیہ میں فارسی ذوق کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مولوی سلسلے سے اپنی وابستگی اور اپنے استاد سودی سے لی گئی تربیت کے زیرِ اثر درویش پاشا نے نے مثنوی کی تقلید میں ایک تصنیف تخلیق کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن روایت کے مطابق ابھی دو جز ہی مکمل ہوئے تھے کہ حضرت رومی اُن کے خواب میں ظاہر ہوئے اور اُن سے کہا کہ 'اے درویش، میری کتاب کی نظیر لانا ممکن نہیں ہے۔ یہ خیال چھوڑ دو'۔ اس کے بعد اُنہوں نے اپنی ارادہ کردہ تصنیف سے ہاتھ کھینچ لیا۔ البتہ اُنہوں نے ایک فارسی دیوان ضرور مکمل کیا۔ اس کے علاوہ سلطان مراد سوم کے ایماء پر کمال الدین بنّائی ہروی کی مثنوی 'سقا نامہ' کو بھی عثمانی ترکی میں 'مراد نامہ' کے نام سے منتقل کیا، جسے ایک نقاد کے مطابق اصل پر فوقیت حاصل ہے۔
درویش پاشا کا ۱۶۰۲ء میں بوڈاپسٹ کے نزدیک مجاروں (hungarians) سے لڑائی کے دوران انتقال ہو گیا۔
(ماخذ: انسائیکلوپیڈیا ایرانیکا)
عثمانی دور ختم ہونے کے باوجود آج بھی بوسنیائی زبان میں فارسی کا اثر موجود ہے۔ بیرونی الفاظ کی ایک مرتب کردہ لغت کے مطابق اس وقت بوسنیائی زبان کے کُل ذخیرۂ الفاظ میں نو ہزار کے قریب ایسے الفاظ ہیں جو ترکی، فارسی اور عربی کے راستے سے زبان میں شامل ہوئے ہیں۔ مشرقی زبانوں کا یہ اثر صرف بوسنیائی زبان تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ خطے کی سخت گیر مسیحی اقوام کی زبانوں میں میں بھی مشرقی زبانوں سے مستعار الفاظ موجود ہیں۔ اس کی ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ آج بھی سربستان (سربیا) اور خرواتستان (کروشیا) میں کسی اچھی چیز کو دیکھ کر آفرین کہنے کے لیے 'ماشالا' کہا جاتا ہے جو عربی کے 'ماشاءاللہ' ہی کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
بوسنیا کے انہیں فارسی دانوں میں ایک 'احمد سودی بوسنوی' بھی تھے جن کے تعارف کے لیے یہ دھاگا کھولا گیا ہے۔ یہ جناب مشرقی بوسنیا میں فوچا کے نزدیک واقع گاؤں سودیچ میں پیدا ہوئے تھے، اور اسی گاؤں کی نسبت سے اُن کا تخلص سودی تھا۔ اُنہوں نے ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنی جائے پیدائش ہی پر کیا۔ پھر جوانی میں مزید تحصیلات کے لیے اُنہوں نے استانبول کے راستے دیاربکر تک کا سفر کیا جہاں اُن کی ملاقات ایک ایرانی مہاجر مصلح الدین لاری سے ہوئی جو صفویوں کے تعصب کی وجہ سے ایران سے ہجرت کر کے دیاربکر منتقل ہو گئے تھے۔ وہاں احمد سودی نے اُن سے فارسی اور مروجہ علوم سیکھے۔ مصلح الدین لاری کی دلچسپی دینی علوم میں تھی، لیکن احمد سودی نے اپنی توجہ فارسی ادب پر مرکوز رکھی۔ اپنے استاد کی وفات کے بعد احمد سودی استانبول کے ابراہیم پاشا مدرسے میں پڑھانے لگے جہاں اُنہوں نے عثمانی ترکی میں فارسی کلاسیکی ادب کے شاہ کاروں پر شرح لکھنے کا کام آغاز کیا۔ اُنہوں نے وہاں مولانا رومی کی مثنوی، سعدی کی گلستان اور بوستان، اور حافظ کے دیوان پر شرحیں لکھیں۔ اُنہوں نے علمِ صرف و نحو پر ابنِ حاجب کی کتابوں شافیہ و کافیہ کا بھی ترکی میں ترجمہ کیا اور اُن کی شرحیں لکھی۔ احمد سودی بوسنوی کی دیوانِ حافظ پر لکھی گئی شرح چار جلدوں میں فارسی میں ترجمہ ہو کر ایران میں شائع ہو چکی ہے، جو وہاں کے علمی حلقوں میں مشور ہے۔ ۱۵۹۶ء میں اُن کا استانبول میں انتقال ہو گیا۔
اُن کے مدرسے میں بہت سے بوسنیائی طلباء بھی آتے تھے جو سلطنتی امور میں شراکت کے قابل ہونے کے لیے وہاں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ اُنہیں طلباء میں سے ایک موستار سے تعلق رکھنے والے درویش پاشا بایزید آگیچ تھے۔ یہ جناب بوسنیا کے عثمانی حاکم اور وہاں مولویہ صوفی سلسلے کے بانی تھے۔ اسی لیے وہ اپنے تخلص کے طور پر درویش استعمال کرتے تھے۔ عثمانی قلمرو کی دوسری جگہوں کی طرح بوسنیا میں بھی مولوی صوفیاء حضرت رومی کی مثنوی کو اصل زبان میں ہی پڑھا کرتے تھے، اور اُن کے نزدیک فارسی کی حیثیت نیم مقدس زبان کی سی ہو گئی تھی۔ ان درویشوں نے عام اشرافیہ میں فارسی ذوق کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مولوی سلسلے سے اپنی وابستگی اور اپنے استاد سودی سے لی گئی تربیت کے زیرِ اثر درویش پاشا نے نے مثنوی کی تقلید میں ایک تصنیف تخلیق کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن روایت کے مطابق ابھی دو جز ہی مکمل ہوئے تھے کہ حضرت رومی اُن کے خواب میں ظاہر ہوئے اور اُن سے کہا کہ 'اے درویش، میری کتاب کی نظیر لانا ممکن نہیں ہے۔ یہ خیال چھوڑ دو'۔ اس کے بعد اُنہوں نے اپنی ارادہ کردہ تصنیف سے ہاتھ کھینچ لیا۔ البتہ اُنہوں نے ایک فارسی دیوان ضرور مکمل کیا۔ اس کے علاوہ سلطان مراد سوم کے ایماء پر کمال الدین بنّائی ہروی کی مثنوی 'سقا نامہ' کو بھی عثمانی ترکی میں 'مراد نامہ' کے نام سے منتقل کیا، جسے ایک نقاد کے مطابق اصل پر فوقیت حاصل ہے۔
درویش پاشا کا ۱۶۰۲ء میں بوڈاپسٹ کے نزدیک مجاروں (hungarians) سے لڑائی کے دوران انتقال ہو گیا۔
(ماخذ: انسائیکلوپیڈیا ایرانیکا)
آخری تدوین: