حسان خان
لائبریرین
"۔۔۔وہ اصرار کر رہے تھے کہ پہلے تختِ جمشید جاؤ۔ شہر میں کیا دھرا ہے۔ اِدھر اپنا دل تھا کہ حافظ اور سعدی میں لٹکا تھا لہٰذا ہم نے ٹیکسی لی اور سیدھے مزارِ حافظ کا راستہ لیا کہ وہی پہلے پڑتا تھا۔
حافظ کے احاطے میں دیکھا کہ جا بجا لوگوں کی ٹولیاں بیٹھی ہیں۔ اور ایک کونے میں کوئی شخص ٹیپ ریکارڈر لیے کوئی پروگرام ریکارڈ کر رہا ہے۔ اونچی کرسی پر مزار ہے لیکن مزار کے گرد کوئی جالی یا پردہ نہیں کہ اندر اطمینان سے بیٹھ کے کوئی فاتحہ پڑھ سکے۔ کہتے ہیں یہاں فال کے لیے ۔۔۔ دیوان کا ایک نسخہ رکھا رہتا ہے ہمیں نظر نہ آیا۔ لڑکے لڑکیاں تفریح کے موڈ میں گھوم رہے تھے ہم نے دور ہی سے فاتحہ پڑھی اور ٹیکسی والے سے کہا چلو اب سعدی کے مقبرے۔
مزارِ شیخ کے احاطے کے پھاٹک پر ہی یہ شعر رقم تھا:
ز خاکِ سعدیِ شیراز بوئے عشق آید
ہزار سال پس از مرگِ او اگر بُویم
احاطے کے اندر داخل ہوتے ہی طبیعت ایک عجیب سرور سے آشنا ہوئی۔ یوں لگتا تھا کہ ذرہ ذرہ دامن کشاں ہے۔ مقبرہ نہایت سادہ ہے اور ایک کاریڈور کے سرے پر بہت مختصر سا گنبد ہے۔ جس کے چار طرف جالیاں اندر مزار ہے۔ بہت سی عورتیں مزار کو بوسہ دے رہی تھیں۔ معلوم ہوا منتیں بھی مانی جاتی ہیں۔ ایک طرف خدمت گار کھڑا تھا۔ اور کسی عقیدت مند خوش نویس کی لکھی ہوئی گلستان کی ایک حکایت اور بوستان کی ایک نظم دیوار پر آویزاں تھی۔ جب مزار سے عورتیں رخصت ہو گئیں۔ ہم فاتحہ کے لیے بڑھے۔ لیکن جانے کیا ہوا معاً جی بھر آیا اور ہم نے فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب رواں تھا۔ جتنا ضبط کرنے کی کوشش کرتے تھے سیلاب اور اُمڈتا تھا۔ فاتحہ بہت طویل ہو گئی۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ محافظ ہماری یہ کیفیت دیکھے۔ جانے کتنے عالم آنکھوں کے آگے آئے۔ وہ دن جب ہم نے اپنے گاؤں میں گلستان کے درس کا آغاز کیا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ در بابِ شاہاں سے ہمارا درس شروع ہوا تھا اور زندست نامِ فرخِ نوشیرواں والی حکایت پہلی تھی۔ پھر قافلۂ دزدان بر سرِ کوہے نشستہ بودند یاد آئی۔ ہم نے سعدی کو ہمیشہ اپنا رفیق اور دوست سمجھا۔ اور شاید یہ داخلی رفاقت تھی اور دوستی تھی جس سے یہ حال ہوا۔ بار بار خیال آتا تھا۔ یہی نواح ہوں گے جن میں ہمارا شیخ سیر کرتا تھا۔ گھومتا پھرتا تھا۔ اور پھر لوگ یہاں اس کا جنازہ لائے ہوں گے۔ یہ وہی سعدی ہے یہ وہی شیراز ہے۔ یعنی وہی پہنائی ہے۔ جس سے بچپن سے غائبانہ آشنائی ہے یقین نہ آتا تھا۔
شیخ کے مزار سے رخصت ہونے کو جی نہ چاہتا تھا۔ اُٹھتے تھے اور بیٹھ جاتے تھے۔ حافظ کے مزار پر قطعاً یہ کیفیت نہ تھی وہاں ہم خالی گئے خالی آئے۔
یادگار کے لیے ہم نے کیاریوں پر نظر ڈالی۔ صاحبِ گلستان کے چمن میں گلاب کا کوئی پھول اس وقت نظر نہ آیا۔ ناچار گلِ صد برگ کا ایک غنچۂ نوشگفتہ لیا اور جیب میں رکھ لیا۔ شیخ کی یہ یادگار ایک متاعِ عزیز کی طرح ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتی ہے۔"
(ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں)
حافظ کے احاطے میں دیکھا کہ جا بجا لوگوں کی ٹولیاں بیٹھی ہیں۔ اور ایک کونے میں کوئی شخص ٹیپ ریکارڈر لیے کوئی پروگرام ریکارڈ کر رہا ہے۔ اونچی کرسی پر مزار ہے لیکن مزار کے گرد کوئی جالی یا پردہ نہیں کہ اندر اطمینان سے بیٹھ کے کوئی فاتحہ پڑھ سکے۔ کہتے ہیں یہاں فال کے لیے ۔۔۔ دیوان کا ایک نسخہ رکھا رہتا ہے ہمیں نظر نہ آیا۔ لڑکے لڑکیاں تفریح کے موڈ میں گھوم رہے تھے ہم نے دور ہی سے فاتحہ پڑھی اور ٹیکسی والے سے کہا چلو اب سعدی کے مقبرے۔
مزارِ شیخ کے احاطے کے پھاٹک پر ہی یہ شعر رقم تھا:
ز خاکِ سعدیِ شیراز بوئے عشق آید
ہزار سال پس از مرگِ او اگر بُویم
احاطے کے اندر داخل ہوتے ہی طبیعت ایک عجیب سرور سے آشنا ہوئی۔ یوں لگتا تھا کہ ذرہ ذرہ دامن کشاں ہے۔ مقبرہ نہایت سادہ ہے اور ایک کاریڈور کے سرے پر بہت مختصر سا گنبد ہے۔ جس کے چار طرف جالیاں اندر مزار ہے۔ بہت سی عورتیں مزار کو بوسہ دے رہی تھیں۔ معلوم ہوا منتیں بھی مانی جاتی ہیں۔ ایک طرف خدمت گار کھڑا تھا۔ اور کسی عقیدت مند خوش نویس کی لکھی ہوئی گلستان کی ایک حکایت اور بوستان کی ایک نظم دیوار پر آویزاں تھی۔ جب مزار سے عورتیں رخصت ہو گئیں۔ ہم فاتحہ کے لیے بڑھے۔ لیکن جانے کیا ہوا معاً جی بھر آیا اور ہم نے فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب رواں تھا۔ جتنا ضبط کرنے کی کوشش کرتے تھے سیلاب اور اُمڈتا تھا۔ فاتحہ بہت طویل ہو گئی۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ محافظ ہماری یہ کیفیت دیکھے۔ جانے کتنے عالم آنکھوں کے آگے آئے۔ وہ دن جب ہم نے اپنے گاؤں میں گلستان کے درس کا آغاز کیا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ در بابِ شاہاں سے ہمارا درس شروع ہوا تھا اور زندست نامِ فرخِ نوشیرواں والی حکایت پہلی تھی۔ پھر قافلۂ دزدان بر سرِ کوہے نشستہ بودند یاد آئی۔ ہم نے سعدی کو ہمیشہ اپنا رفیق اور دوست سمجھا۔ اور شاید یہ داخلی رفاقت تھی اور دوستی تھی جس سے یہ حال ہوا۔ بار بار خیال آتا تھا۔ یہی نواح ہوں گے جن میں ہمارا شیخ سیر کرتا تھا۔ گھومتا پھرتا تھا۔ اور پھر لوگ یہاں اس کا جنازہ لائے ہوں گے۔ یہ وہی سعدی ہے یہ وہی شیراز ہے۔ یعنی وہی پہنائی ہے۔ جس سے بچپن سے غائبانہ آشنائی ہے یقین نہ آتا تھا۔
شیخ کے مزار سے رخصت ہونے کو جی نہ چاہتا تھا۔ اُٹھتے تھے اور بیٹھ جاتے تھے۔ حافظ کے مزار پر قطعاً یہ کیفیت نہ تھی وہاں ہم خالی گئے خالی آئے۔
یادگار کے لیے ہم نے کیاریوں پر نظر ڈالی۔ صاحبِ گلستان کے چمن میں گلاب کا کوئی پھول اس وقت نظر نہ آیا۔ ناچار گلِ صد برگ کا ایک غنچۂ نوشگفتہ لیا اور جیب میں رکھ لیا۔ شیخ کی یہ یادگار ایک متاعِ عزیز کی طرح ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتی ہے۔"
(ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں)
آخری تدوین: