حالِ دل اور حالات حاضرہ

عبد الرحمن

لائبریرین
سال گذشتہ کی "نثری نشست" نے جو غالبا اردو محفل کی تاریخ میں پہلی بار بہ فیضان نظر نیرنگ خیال اور بہ سربراہی سید فصیح احمد منعقد ہوئی تھی کچھ ایسے گہرے نقوش چھوڑے کہ اس کی تازگی ابھی تک محسوس ہوتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ حادثاتی طور پر ہی سہی مگر ہم بھی اس نشست کے کرتا دھرتا میں شمار ہوگئے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارا شمار منتظمین کی آخری صفوں میں ہوتا تھا۔ خیر پھر ہوا یہ کہ اس نشست کے خوب صورت اختتام پر ہم سال بھر سے یہی سوچے بیٹھے تھے کہ اگلی بار بھی یہ نشست ضرور منعقد کریں گے اور اگر کسی نے ذرا بھی سستی یا تاخیر سے کام لینے کی کوشش کی تو خود آگے بڑھ کر سارے معاملات ٹیک اوور کرلیں گے۔ اس سلسلے میں جو عملی اقدامات خاکسار نے کیے ان میں سے ایک ضرروی اقدام یہ بھی تھا کہ سال بھر میں جتنے نئے محفلین نے شمولیت اختیار کی پرانوں سمیت ان سب کے نام بھی لسٹ میں درج کرلیے اور تہیہ کر لیا کہ نثری نشست کے انعقاد سے مہینہ بھر پہلے سب کو مکالمے میں دعوت نامے بھیجے جائیں گے اور یوں پہلے سے زیادہ اس نشست کو یاد گار بنانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ لیکن بھلا ہو شاعر کا جو کہہ گیا کہ ؎

وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے​

ملک بھر میں خصوصا "اپنا کراچی" میں گرمی نے کچھ اس شدت سے زور پکڑلیا ہے کہ میڈیا یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ سال رواں کی گرمی میں پچھلے دس سالوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ خیر یہ خبر ہم نہ بھی سنتے تو بھی ہم کو کوئی حیرانی نہ ہوتی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ بارشوں کے نہ ہونے اور دن بدن ٹمپریچر کے بڑھنے سے وطن عزیز کی جو حالت خصوصا اہل کراچی کی جو درگت بن گئی ہے اس سے اللہ دشمنوں کو بھی بچائے۔ میرے خیال میں ایک یہی بات گرمی کی شدت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔

ایک عزیز از جان دوست جو سردی گرمی اور دھوپ چھاؤں کی زیادتی سے بے نیاز ہو کر انتھک کام کرنے کے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کل کہنے لگے کہ گرمی نے کچھ اس طرح سے حملہ کیا کہ اے سی میں بیٹھے بیٹھے بھی سر درد ہوگیا۔ ٹیبلٹ لینی پڑی۔ پھر چائے پی تو کچھ طبیعت بحال ہوئی۔ یہی نہیں بڑے بڑے ادب دوست قسم کے دوست جو جب میدان میں اترتے ہیں تو کئی کئی دنوں تک ان کا تذکرہ زیر لب رہتا ہے۔ وہ بھی ان دنوں گرمی کے زیر اثر ہیں اور کیفیت ناموں کی کھڑکی سے آگے ہی نہیں بڑھ پاتے۔

تو مختصرا عرض یہ ہے کہ کراچی کی کریم ان دنوں اگر متحرک نہیں ہے تو اس کی بنیادی وجہ قیامت خیز گرمی ہے ۔ پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ لوڈ شیڈنگ بھی ان دنوں اپنے عروج پر ہے۔ذرا کچھ لکھنے لکھانے کا کام کرنے کے لیے بیٹھتے ہیں کہ بجلی دغا دے جاتی ہے اور ہم تین تین گھنٹے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہ جاتے ہیں۔

کام کی بات: اس ساری تفصیل کو رقم کرنے کے پیچھے دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ سب دوستوں کی دعائیں اور ہمدردیاں ہم سب کو حاصل ہوجائیں دوسری بڑی وجہ یہ کہ اگر سالگرہ کے حوالے سے نثری نشست کو تھوڑا مؤخر (خبردار کسی نے ملتوی کا نام لیا تو) کردیا جائے تو یہ واقعی بڑا احسان گردانا جائے گا۔

اب ہم قلم کو یہی روکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ بجلی بھک سے اڑجائے اور یہ تحریر پوسٹ ہونے سے رہ جائے اور ہمیں لینے کے دینے پڑجائیں۔اب آپ تشریف لایے اور اپنی عمدہ تجاویزات سے نوازیے۔ ہم نے اپنی گزارشات پیش کردی۔ مزید کیا ہوسکتا ہے اس سلسلے میں یہ آپ پر چھوڑ کر رخصت چاہتے ہیں۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
ابھی تو سالگرہ شروع ہونے میں کافی دن ہیں، اور اس کے بعد بھی جولائی کا پورا مہینہ ہے۔ آپ ایک ایک سطر کر کے لکھنا شروع کیجیے انشاءاللہ اللہ مدد کرے گا اور تحریر پوری ہو جائے گی (کبھی نہ کبھی)
 

عبد الرحمن

لائبریرین
یہی نہیں بڑے بڑے ادب دوست قسم کے دوست جو جب میدان میں اترتے ہیں تو کئی کئی دنوں تک ان کا تذکرہ زیر لب رہتا ہے۔ وہ بھی ان دنوں گرمی کے زیر اثر ہیں اور کیفیت ناموں کی کھڑکی سے آگے ہی نہیں بڑھ پاتے۔

عبد الرحمن بھائی، سچی بات تو یہ ہے کہ ہر سال گرمی میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ " آج گرمی پتہ پوچھ رہی ہے" مگر وہ کراچی کی مقامی گرمی ہوتی ہے جس کی شدت کے ہم عادی ہیں، مگر اس بار کی گرمی نے حقیقت میں "نانی یاد دلا دی" ہلاکتوں کی خبریں اتنی تیزی سے موصول ہو رہی ہیں کہ یقین کرنا مشکل ہے ، کل رات تک شہر بھر میں گیارہ سو افراد کی ہلاکت کی خبریں تھیں، یہاں لوگوں کی مشکلات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ لوگ سرد خانوں میں اپنے مردے رکھوانے کے لیے شہر بھر میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ گورکن قبریں کھودنے پر تیار نہیں ظاہر ہے وہ بھی انسان ہیں اس گرمی میں انھیں اپنی جان بھی پیاری ہے ۔ اور اکثر قبرستانوں میں نظام یہ ہے کہ جب جگہ کی قلت ہو قرب و جوار کی جھاڑ جھنکاڑ یا تو کاٹ کوٹ کے برابر کی جائے یا اسے آگ لگا دی جائے ، دونوں ہی کام اس برستی آگ میں ممکن نہیں۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ایسی پرانی اور بوسیدہ قبریں جن کے والی وارث بھی اب قبر کا نشان بھول چکے ہیں انہیں دوبارہ "تازہ" کیا جائے ۔ لیکن یہ کام بھی جوئے شیر لانا ہے ۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ بغیر کچھ کئے ہی اس گرمی میں " صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا" ۔

اگر کل شام تک موسم میں تبدیلی نہ ہوئی ہوتی تو خود راقم القصور بھی عصر کے بعد قفسِ عنصری سے پرواز کر گیا ہوتا۔ گھر میں بزرگوں اور بچوں کے کملائے ہوئے چہرے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ بار بار یہ گناہ آلودہ ہاتھ بارگاہِ الہٰی میں بلند ہوتے ہیں ، خداوندا ، اپنے بندوں پر رحم فرما، بھیج دے رحمت سے بھرے ہواوں میں تیرتے ہوئے دریا، بارالہٰ، زیر زمین پانی خوشک ہوتا جا رہا ہے ، تو جانتا ہے ، نظام بجلی کا سرمایہ دار کے ہاتھ ہے تیرے علم سے کیا پوشیدہ ہے مالک، جو اشیاء تا حال سرمایہ دار کے قبضے سے باہر ہیں وہاں شامتِ اعمال، حکمران طبقہ موجود ہے، مولیٰ تیری مخلوق ہر طرف سے پسی جا رہی ہے ۔ رحم میرے پروردگار رحم۔
 
آخری تدوین:

عبد الرحمن

لائبریرین
:) :) :)

ہم تو یہ سوچ رہے ہیں کہ (ماشاءاللہ) نثری نشست سے پہلے ہی 'لوگوں' کا قلم چل پڑا ہے۔ :)
جی میں بھی نوٹ کررہا ہوں جتنا متحرک میں گرمیوں کے اس سیزن میں ہوگیا ہوں اتنا تو میں پچھلے دو سالوں میں بھی نہیں ہوا۔:):)
 

عبد الرحمن

لائبریرین
عبد الرحمن بھائی، سچی بات تو یہ ہے کہ ہر سال گرمی میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ " آج گرمی پتہ پوچھ رہی ہے" مگر وہ کراچی کی مقامی گرمی ہوتی ہے جس کی شدت کے ہم عادی ہیں، مگر اس بار کی گرمی نے حقیقت میں "نانی یاد دلا دی" ہلاکتوں کی خبریں اتنی تیزی سے موصول ہو رہی ہیں کہ یقین کرنا مشکل ہے ، کل رات تک شہر بھر میں گیارہ سو افراد کی ہلاکت کی خبریں تھیں، یہاں لوگوں کی مشکلات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ لوگ سرد خانوں میں اپنے مردے رکھوانے کے لیے شہر بھر میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ گورکن قبریں کھودنے پر تیار نہیں ظاہر ہے وہ بھی انسان ہیں اس گرمی میں انھیں اپنی جان بھی پیاری ہے ۔ اور اکثر قبرستانوں میں نظام یہ ہے کہ جب جگہ کی قلت ہو قرب و جوار کی جھاڑ جھنکاڑ یا تو کاٹ کوٹ کے برابر کی جائے یا اسے آگ لگا دی جائے ، دونوں ہی کام اس برستی آگ میں ممکن نہیں۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ایسی پرانی اور بوسیدہ قبریں جن کے والی وارث بھی اب قبر کا نشان بھول چکے ہیں انہیں دوبارہ "تازہ" کیا جائے ۔ لیکن یہ کام بھی جوئے شیر لانا ہے ۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ بغیر کچھ کئے ہی اس گرمی میں " صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا" ۔

اگر کل شام تک موسم میں تبدیلی نہ ہوئی ہوتی تو خود راقم القصور بھی عصر کے بعد قفسِ عنصری سے پرواز کر گیا ہوتا۔ گھر میں بزرگوں اور بچوں کے کملائے ہوئے چہرے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ بار بار یہ گناہ آلودہ ہاتھ بارگاہِ الہٰی میں بلند ہوتے ہیں ، خداوندا ، اپنے بندوں پر رحم فرما، بھیج دے رحمت سے بھرے ہواوں میں تیرتے ہوئے دریا، بارالہٰ، زیر زمین پانی خوشک ہوتا جا رہا ہے ، تو جانتا ہے ، نظام بجلی کا سرمایہ دار کے ہاتھ ہے تیرے علم سے کیا پوشیدہ ہے مالک، جو اشیاء تا حال سرمایہ دار کے قبضے سے باہر ہیں وہاں شامتِ اعمال، حکمران طبقہ موجود ہے، مولیٰ تیری مخلوق ہر طرف سے پسی جا رہی ہے ۔ رحم میرے پروردگار رحم۔
ادب دوست بھائی! بہت ساری ریٹنگز ہیں جو آپ کے اس مختصر پر اثر مراسلے پر دی جاسکتی ہیں۔ باقی میں اس پر کچھ کہنے کے قابل نہیں ہوں۔ کہوں بھی تو کیا کہوں؟ ہر لفظ کھوکھلا کھوکھلا سا لگتا ہے۔اس کیفیت میں پھر خاموشی ہی بہتر ہے۔
اللہ نہ کرے۔ ایسا نہ کہیے برادرم! ان شاء اللہ یہ دن بھی ہنستے کھیلتے گزر جائیں گے۔ آج کا موسم بھی گزشتہ دنوں کی نسبت قدرے بہتر تھا۔ اللہ تعالیٰ سے مزید بہتری کی التجا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جی میں بھی نوٹ کررہا ہوں جتنا متحرک میں گرمیوں کے اس سیزن میں ہوگیا ہوں اتنا تو میں پچھلے دو سالوں میں بھی نہیں ہوا۔:):)

بہت خوب ! اسے کہتے ہیں مثبت سوچ!

یعنی آپ نے اس شدید گرم موسم میں گرمی کو ایندھن میں بدلنے کا گُر سیکھ لیا اور گرمی کی بہتات سے خوب فائدہ اُٹھایا۔ :) :) :)
 

عبد الرحمن

لائبریرین
بہت خوب ! اسے کہتے ہیں مثبت سوچ!

یعنی آپ نے اس شدید گرم موسم میں گرمی کو ایندھن میں بدلنے کا گُر سیکھ لیا اور گرمی کی بہتات سے خوب فائدہ اُٹھایا۔ :) :) :)
آگے کا جملہ بھی تو سنیے جلد باز لڑکے! :)

یہ اور بات ہے کہ اس شدید گرمی میں ہم نے گیلا تولیہ سر پر رکھنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا۔ :p
 

عبد الرحمن

لائبریرین
اچھی بات ہے۔
نہیں تو ویلنٹائن سے سبق حاصل کریں۔ کیسے اس کے دن پھر رہے ہیں اور وہ جیل میں سب کو تگنی کا ناچ نچا رہا ہے :)
ہاہاہاہا!

ارے اس سے یاد آیا ، سالگرہ پر زبردستتتت قسم کی ڈبل قسط لکھیے گا۔ :)
 
Top