عالمی میڈیا کی آزادی صرف دکھاوے اور نام کی آزادی ہے عارف بھائی اس آزادی اظہار رائے کی حقیقت پر بھی روشنی ڈالیے جو مغربی اور یورپی ممالک میں میڈیا کو آزادی حاصل ہے وہ کس حد تک ہے
اور وہ کس حد تک حکومت اور اپنی اداروں اور ایجنڈوں کے پابند ہیں
وکی پیڈیا کی جناتی اردو سے معذرت کیساتھ:
ایڈورڈ سنوڈن (Edward Joseph Snowden) امریکی ادارے قومی سلامتی کارندگی میں ٹھیکے پر ملازم تھا۔ وجہ شہرت سیٹی پھونکا ہے جب اس نے امریکی خفیہ برقی نگہداری اور جاسوسی برمجہ بنام پرزم نگہداری برمجہ کا بھانڈا پھوٹ دیا۔[1]
2003ء میں امریکی فوج میں بھرتی ہوا مگر دونوں ٹانگیں تڑوا بیٹھا۔ پھر قومی سلامتی کارندگی میں محافظ بھرتی ہوا۔
2013ء میں سنوڈن نے گارجین کے اخبار نویس گلن گرینوالڈ کو پیغام بھیجا کہ اس کے پاس امریکی جاسوسی بارے مواد ہے مگر وہ صرف پی جی پی کے ذریعہ صفریت طریقہ سے برقی رابط قائم کرنا چاہتا ہے۔ گرینوالڈ اس طرزیات سے نابلد تھا، چنانچہ گرینوالڈ کی جہالت کی وجہ سے رابطہ میں بہت تاخیر ہوئی۔ تنگ آ کر سنوڈن نے مواد صحافی لارا پوئیڑس کو بھیجا جو اس طرزیات سے واقف تھی۔ پوئیٹرس کے زریعہ مواد گرینوالڈ کو ملا۔[2] سنوڈن نے واشنگٹن پوسٹ کو بھی مواد پہنچایا۔ پرزم بارے 41 صفحات پر مشتمل مواد ان کے حوالے کیا۔ دونوں اخباروں نے امریکی سرکار سے رابطہ کیا اور ابتداً صرف دو تین صفحات شائع کرنے کی جراءت کر سکے۔ [3] بھانڈا پھوٹنے کے بعد سنوڈن ہوائی سے ہانگ کانگ چلا گیا جہاں اس نے گریندوالڈ سے ملاقات کی۔ امریکی حکام نے سنوڈن پر جاسوسی کی فردِ جرم عائد کرتے ہوئے اس کا گزرنامہ منسوخ کر دیا۔ تاہم سنوڈن ہانگ کانگ سے ماسکو فرار ہو گیا، جہاں اس نے کئی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں داغ دیں۔ امریکہ نے تمام ممالک کو ڈرا دھمکا کر فرار کے فضائی راستے بند کر دیے۔ سنوڈن نے روس میں عارضی پناہ کی درخواست کی جس پر امریکی حکومت نے روس کو بذریعہ خط یقین دلایا کہ سنوڈن کو وطن واپسی پر نہ ہی اذیت دی جائے گی اور نہ ہی سزائے موت، اس لیے پناہ کی درخواست مسترد کی جاوے۔[4] تاہم روسی صدر پیوٹن نے بیان میں کہا کہ روس کبھی کسی کو دوسرے ملک کے حوالے نہیں کرتا اور نہ کسی نے کسی کو کبھی روس کے حوالے کیا ہے۔ بالآخر روس نے جولائی 2013ء میں ایک سال کی عارضی پناہ دے دی اور سنوڈن ماسکو ہوائی اڈہ سے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔
14 جون 2013ء کو وائرڈ نے پی جی پی کا استعمال کرتے ہوئے ایک صفریتی پیغام سنوڈن کے نام شائع کیا۔[5]
http://ur.wikipedia.org/wiki/ایڈورڈ_سنوڈن
اس جیسے بہت سے افشاگر، سیٹی باز یا بھانڈا پھوڑ افراد یہاں مغرب میں گاہے بگاہے نکلتے رہتے ہیں جو اپنی ہی حکومتی ایجنسیوں کے غیر اخلاقی، غیر فطری اور مغربی اعلیٰ اقدار کیخلاف کرنے والوں کا بھانڈا اسی آزاد میڈیا میں جاکر پھوڑتے ہیں۔ اوپر جو ایک خفیہ امریکی NSA ایجنٹ کا ذکر ہے اس شخص نے اپنی ہی حکومت کے پوشیدہ راز اور غلط حرکات پوری دنیا کو بتلا کر بھونچال مچا دیا ہے۔ اور وہ امریکہ جو کسی زمانہ میں روس اور چین جیسی سخت حکومتوں پر الزام لگاتا پھرتا تھا کہ انکی عوام کو شخصی آزادی سے محروم رکھا جاتا ہے آج خود کھلے عام ان مغربی اقدار کی پامالی کرتے اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ہو گیا!
اسی طرح اور بہت سے افشاگر مغربی اخبارات میں اپنی ہی حکومتوں کا بھانڈا پھوڑتے پھوڑتے سزا بھگت چکے ہیں، جس میں نامور اسرائیلی افشاگر موردخائے وانونو شامل ہیں جنہوں نے 1986 میں اسرائیلی ایٹمی تنصیبات اور دیگر مہلک ہتھیاروں سے متعلق اثبوت برطانوی آزاد میڈیا کو مہیا کئے تھے اور بعد ازاں اپنی ہی خفیہ ایجنسی موساد کا نشانہ بن گئے اور 18 سال غداری کے الزام میں جیل کاٹنی پڑی:
http://www.theguardian.com/commentisfree/2014/apr/20/israel-mordechai-vanunu-hero-edward-snowden