الف نظامی
لائبریرین
زاہد حنا لکھتی ہیں :
حسن منظر کا ناول ’’حبس‘‘ حیرت انگیز ہے۔ اسرائیل کا پہلا وزیر دفاع اور گیارہواں وزیر اعظم جو فلسطینیوں کی آبادیوں کو بلڈوز کرنے والا قاتل تھا، ایک یہودی ہٹلر تھا۔ تل ابیب کے شیبا میڈیکل سینٹر کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں بے ہوش پڑا ہے۔ حسن منظر اس کے دماغ میں اتر کر جو کچھ وہ بے ہوشی کے عالم میں سوچ رہا ہے اسے بیان کرتے ہیں۔
ڈاکٹر حسن منظر کی زندگی کا ایک طویل حصہ مسافت میں گزرا۔ تین براعظموں کی دھول ان کے پیروں کو لگی ہے اور شاید ہی دنیا کے ایسے مہجور اور مجبور لوگ ہوں جن کے دکھوں کو انھوں نے اپنی کہانیوں اور ناولوں میں بیان نہ کیا ہو۔ ’’حبس‘‘ اردو زبان میں بیان ہونے والا ایسا نادرہ کار قصہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ اس اسرائیل کے پہلے وزیر دفاع اور گیارہویں وزیر اعظم ایرئیل شیرون کے عالم نزع کا معاملہ ہے۔
حسن منظر نے ایک ماہر قصہ گو کی طرح آنکھ کی جھری سے شیرون کا قصہ لکھا ہے۔ اس ناول میں انھوں نے اس سے کیسے کاری جملے کہلوائے ہیں۔ موت کے انتظار میں لحظہ لحظہ مرتے ہوئے شیرون کے احساسات اور جذبات کیا رہے ہوں گے اس کی منظر کشی حسن منظر نے کیا خوب کی ہے۔ ایک ایسا شخص جو صرف نفرت کرسکتا ہے۔
یہ نفرت فلسطینیوں اور عرب یہودیوں سے یکساں ہے۔ ایک ایسی نفرت جو موت کے سامنے بھی ہار نہیں مانتی۔ حسن منظر پیشے کے اعتبار سے سائیکٹیرسٹ ہیں۔
انھوں نے اپنے پیشے کی تمام مہارت’’حبس‘‘ میں صرف کردی ہے اور اردو کو ثروت مند کیا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں :
اگر یہ ناول انگریزی یا کسی اور زبان میں ہوتا یقیناً نوبیل انعام کا حقدار ٹھہرایا جاتا۔
حسن منظر کا ناول ’’حبس‘‘ حیرت انگیز ہے۔ اسرائیل کا پہلا وزیر دفاع اور گیارہواں وزیر اعظم جو فلسطینیوں کی آبادیوں کو بلڈوز کرنے والا قاتل تھا، ایک یہودی ہٹلر تھا۔ تل ابیب کے شیبا میڈیکل سینٹر کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں بے ہوش پڑا ہے۔ حسن منظر اس کے دماغ میں اتر کر جو کچھ وہ بے ہوشی کے عالم میں سوچ رہا ہے اسے بیان کرتے ہیں۔
ڈاکٹر حسن منظر کی زندگی کا ایک طویل حصہ مسافت میں گزرا۔ تین براعظموں کی دھول ان کے پیروں کو لگی ہے اور شاید ہی دنیا کے ایسے مہجور اور مجبور لوگ ہوں جن کے دکھوں کو انھوں نے اپنی کہانیوں اور ناولوں میں بیان نہ کیا ہو۔ ’’حبس‘‘ اردو زبان میں بیان ہونے والا ایسا نادرہ کار قصہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ اس اسرائیل کے پہلے وزیر دفاع اور گیارہویں وزیر اعظم ایرئیل شیرون کے عالم نزع کا معاملہ ہے۔
حسن منظر نے ایک ماہر قصہ گو کی طرح آنکھ کی جھری سے شیرون کا قصہ لکھا ہے۔ اس ناول میں انھوں نے اس سے کیسے کاری جملے کہلوائے ہیں۔ موت کے انتظار میں لحظہ لحظہ مرتے ہوئے شیرون کے احساسات اور جذبات کیا رہے ہوں گے اس کی منظر کشی حسن منظر نے کیا خوب کی ہے۔ ایک ایسا شخص جو صرف نفرت کرسکتا ہے۔
یہ نفرت فلسطینیوں اور عرب یہودیوں سے یکساں ہے۔ ایک ایسی نفرت جو موت کے سامنے بھی ہار نہیں مانتی۔ حسن منظر پیشے کے اعتبار سے سائیکٹیرسٹ ہیں۔
انھوں نے اپنے پیشے کی تمام مہارت’’حبس‘‘ میں صرف کردی ہے اور اردو کو ثروت مند کیا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں :
اگر یہ ناول انگریزی یا کسی اور زبان میں ہوتا یقیناً نوبیل انعام کا حقدار ٹھہرایا جاتا۔