کاشفی
محفلین
حجابِ خُلق - 1
( محسن نقوی شہید)
مرے قلم نے کہاں تراشا ہے آج تک مہ جبین ایسا
یہ لوحِ محفوظ کے مطالب بھی جانتا ہے ذہین ایسا
مرے تصور کی سلطنت میں کہاں ہے مہرِمبین ایسا
جہاں میں شاید نہ خلق ہو پھر جمیل ایسا حسین ایسا
مری محبت کا گلستاں ہے مری رضا کا چمن یہی ہے
دل ونظر میں بسالے اس کو، علی کا بیٹا حسن یہی ہے
یہ ملک خلق و جہانِ اخلاق کا مقدس ترین والی
حسین ایسا کہ حسنِ یوسف بھی اس کے دربار کا سوالی
کریم ایسا کہ اس کے دریوزہ گر کا کاسہ نہیں ہے خالی
یہ وہ ہے جس نے عرب کے وحشی دلوں میں بنیادِ امن ڈالی
یہ خلق پیغمبری کا وارث، قضا سے یوں انتقام لے گا
کہ دشمٖنوں کے مقابلے میں قلم سے پرچم کا کام لے گا
یہی تو ہے یوسفِ امامت، دلوں کی دھرتی کا شاہزادہ
مرا تحمل، مرا تجمل، مرا تدبر، مرا ارادہ
مرا تخیل، مرا تصور، مرا تقدس، مرا لبادہ
خیال زریں، مزاج سادہ، نگاہ گہری، جبیں کشادہ
ادا میں شوخی، حیا میں رخشندگی، نگاہوں میں تمکنت ہے
سنو امامت کی سلطنت میں یہی ولی عہدِ سلطنت ہے
یہ امن عالم کا شاہزادہ، کرم میں سلطاں مزاج ہوگا
ہوا حفاظت کرے گی اس کی یہ وہ منور سراج ہوگا
مری ضرورت، ترا سہارا، ضمیر کی احتیاج ہوگا
دلِ عزیزاں تو خیر کیا ہے عدو پہ بھی اس کا راج ہوگا
یہ خُلقِ پیغمبری کا وارث، قضا سے یوں انتقام لے گا
کہ دشمٖنوں کے مقابلے میں قلم سے پرچم کا کام لے گا
یہ حاصلِ عزم انبیاء ہے، دلِ شرف کا صدف یہی ہے
مری لغت میں شعور و وجدانِ آدمیت کی صف یہی ہے
سمٹ کے اوجھل حدِ نظر سے بکھر کے ہر اک طرف یہی ہے
علی نجف کی زمیں کا سورج، شعاعِ شمسِ نجف یہی ہے
نجات کا گر جو سیکھنا ہے تو صرف یہ بات جان لینا
خیالِ خلدِ بریں سے پہلے حسن کو سردار مان لینا
یہ خود بھی معجز نما ہے، اس کی ادا میں عکسِ پیمبری ہے
اسی کے ہونٹوں کی نرم جنبش غرورِ اوجِ سخنوری ہے
تری طبیعت کا صبر اس کی نظر کا اعجازِ سرسری ہے
اسی کے رنگِ قبا سے کشتِ خیال انساں، ہری بھری ہے
یہ وہ انامست ہے جو فاقہ کشی میں عظمت کا تاج لے گا
یہ وہ جری ہے کہ دشمنوں سے بنامِ صلح خراج لے گا
بتول زادہ، علی کا بیٹا، نبی کا نورِ نظر یہی ہے
ہر اک تمنّا کا بابِ آخر، ہر اک دعا کا اثر یہی ہے
قرارِ قلبِ ملائکہ ہے، سکونِ روحِ بشر یہی ہے
شعورِ وحدت کے بحر مواج کا حقیقی گہر یہی ہے
نجات کا گر جو سیکھنا ہے تو صرف یہ بات جان لینا
خیالِ خلدِ بریں سے پہلے حسن کو سردار مان لینا