اس آیت میں عربی لفظ "جلباب" استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی اوپری لباس ، لانبا گاؤن جیسا Long Gown لباس ہے جو اندرونی لباس کے اوپر پہنا جاتا ہے۔ اور برقعہ کو اس عربی لفظ "جلباب" کی بہترین مثال قرار دیا جا سکتا ہے جو اس آیت کے منشاء کو احسن طریقہ پر پورا کرتا ہے۔
پردہ کے متعلق مندرجہ بالا قرآنی آیات کے تفصیلی مطالعہ سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ پردہ کے احکام عورت کی عزت و ناموس کی حفاظت کی غرض سے مومن عورتوں کی بد کار عورتوں سے علاحدہ شناخت کی غرض سے نازل کئے گئے۔ اور پردہ میں عورت غیر مردوں کی بد نگاہی اور ہوس سے محفوظ ہوجاتی ہیں۔
اب پردہ کے اصل مقصد کی روشنی میں نیدرلینڈ کی عدالت کے اعتراض کا جائزہ لیا جائے جس میں عدالت نے یہ کہا کہ مسلم عورتیں اگر حجاب پہنے گی تو وہ دیگر عورتوں سے علاحدہ شناخت تاثر کرے گی اور سماج کے عام دھارے سے الگ تھلگ ہوجائے گی۔
قارئین اکرام یہاں یہ بات محسوس کر سکتے ہیں۔ نیدرلینڈ کی عدالت نے پردہ یا حجاب کو لیکر جس بات کا "خدشہ" ظاہر کیا ہے وہی خدشہ دراصل اسلامی قانون پردہ کا "اصل منشاء" ہے اور ظاہر ہے کہ عریانی پسند معاشرہ کے یہ اقدار اسلامی شریعت سے راست متصادم ہوں گے کیونکہ اسلام ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کا ضامن ہے جبکہ موجودہ معاشرہ جنسی آزادی اور بے راہ روی کے راستہ پر اس نکتہ معدوم کو پار کر گیا ہے جہاں سے اسکی واپسی مشکل نظر آرتی ہے۔
اس طرح فرانس کے وزیراعظم کا یہ اعتراض کہ برقعہ کی وجہ سے عورت کی آزادی میں خلل پڑتا ہے اور وہ برقعہ میں قید ہوکر رہ جاتی ہیں۔ اسلامی احکام پردہ سے ناواقفیت کی دلیل ہے کیونکہ جیسا مندرجہ بالا مطالعہ میں عرض کیا گیا ہے کہ پردہ دراصل عورت کی حفاظت ناموس اور اسکی عزت و وقار کی برقراری کے لئے لازم قرار دیا گیا۔ یعنی پردہ یا برقعہ ایک طرح کا قلعہ ہے جس میں عورتیں شر پسند عناصر کو بوالہوسی سے محفوظ رہتی ہیں۔ اس طرح یہ کہنا کہ برقعہ عورت کی آزادی میں رکاوٹ ہے یا وہ برقعہ میں قید ہے بلکلیہ نفس مسئلہ سے عدم واقفیت کا مظہر ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ آزادی قید خانہ سے دلائی جاتی ہے۔ آزادی قلعہ سے نہیں دلائی جاتی جہاں عورتیں محفوظ ہیں۔ آزادی کے نام پر عورتوں کو پردہ کے اس قلعہ سے باہر نکالنا ان کی عزت و ناموس کو خطرہ میں ڈالنے کے مترادف ہے اور جس کو کوئی دانشمند اور صالح صاحبِ ایمان کبھی بھی قبول نہیں کر سکتا۔
قانونی موقف:
دنیا بھر کے ممالک کے دستوروں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ ہر ملک کا دستور اپنے شہریوں کو کچھ نہ کچھ بنیادی حقوق دیتا ہے اور عام طور پر یہ بنیادی حقوق میں سرفہرست آزادی مذہب و عقیدہ بھی شامل ہے اور تقریباً ہر ملک کے دستور میں کم از کم ایک علاحدہ دفعہ یا آرٹیکل مذہبی آزادی سے متعلق موجود ہے۔ دیگر یہ کہ اس مذہبی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے "قانون کے آگے مساوات اور " انسانی حقوق" کے نام سے بھی کئی دفعات ملتے ہیں جس کا مجموعی مقصد یہ ہے کہ شہریوں کو نہ صرف آزادی مذہب و عقیدہ کی بنیاد پر ان سے کوئی خصوصیت یا منفی امتیاز نہ برتا جائے چنانچہ Equality of Law اور Equal protection of Law کے مخصوص اصولوں کے تحت بھی تمام ممالک کے شہریوں کو آزادی مذہب حاصل ہے اور ان کے ساتھ مساویانہ برتاؤ کا تیقن بھی دیا گیا ہے۔ بعض اہم ممالک کے دستوروں کا طائرانہ حوالہ درج ذیل ہے۔
1۔
افغانستان کا دستور:
افغانستان کا دستور افغانستان کو ایک اسلامی جمہوریہ قرار دیتا ہے لیکن اس کے دستور کے دفعہ 2 کے ذیلی 2 میں یہ صراحت کردی گئی ہے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب اور عقیدہ پر چلنے کی آزادی حاصل ہے اور وہ اپنے مذہب کے رسم و رواج پر عمل پیرا بھی رہ سکتے ہیں۔ اسی طرح باب سوم بنیادی حقوق و فرائض سے موسوم ہے اور اسکے دفعہ 2 میں مساوات ، دفعہ 23 میں حقِ زندگی اور دفعہ 24 میں انسانی وقار اور آزادی کی طمانیت دی گئی ہے۔
2۔
عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کا دستور:
اس دستور کا حصہ سوم بنیادی حقوق سے متعلق ہے اور دفعہ 27 کے تحت قانون کے آگے مساوات ، دفعہ 31 کے تحت قانونی حفاطت کا حق زندگی اور شخصی آزادی جیسے حقوق دیئے گئے ہیں، دفعہ 28 کے تحت مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو منع کردیا گیا ہے۔
3۔
مملکت بھوٹان کا دستور:
اس ملک کے دستور میں شہنشاہیت کو برقرار رکھا گیا لیکن پھر بھی دفعہ 7 کے ذیلی دفعات 1 تا 20 میں حق زندگی ، شخصی آزادی و حفاظت آزادی مذہب اور دیگر حقوق بیان کئے گئے ہیں۔
4۔
بوسنیا اور ھرزنگونیا کا دستور:
اس دستور کے تحت بنیادی حقوق اور انسانی حقوق قلم بند کئے گئے ہیں اور اس دفعہ کے ذیلی دفعات انسانی حقوق سے متعلق ہے۔ ذیلی دفعہ 2 کے تحت حقوق انسانی اور آزادی سے متعلق بین الاقوامی قرارداد کا ذکر کیا گیا ہے اور اسکو دیگر قوانین پر برتری دی گئی ہے۔ دفعہ 3 میں حق زندگی ، حق آزادی ، حق آزادیِ مذہب وغیرہ کی تفصیلی زمرہ بندی کی گئی ہے جو جملہ 13 مشمولات پر مشتمل ہے۔
5۔
کینیڈا کا دستور:
اس ملک نے کینیڈین بل آف رائٹس کے عنوان سے 1960ء میں ہی انسانی حقوق اور دیگر بنیادی حقوق کی ضمانت دی ہے اور اس بل کے پیش لفظ ہی میں آزادی مذہب اور دیگر حقوق کی صراحت کردی گئ ہے۔
6۔
چین کا دستور:
اس دستور کے باب سوم میں شہریوں کے بنیادی حقوق اور فرائض کا ذکر کیا گیا ہے اور دفعات 44 تا 59 تمام حقوق کی تفصیلات بیان کرتا ہے جبکہ دفعہ 46 کے تحت آزادی مذہب عطا کیا گیا ہے۔
7۔
جرمنی کا دستور:
اس دستور کی ابتداء ہی بنیادی حقوق سے کی گئی ہے اور دفعہ 1 کے تحت انسانی وقار کی حفاظت کا حق ، دفعہ 2 کے تحت حق آزادی ، دفعہ 3 کے تحت قانون کے آگے مساوات اور دفعہ 4 کے تحت آزادئ مذہب بیان کیا گیا ہے۔
8۔
نیپال کا دستور:
اس دستور کے حصہ سوم میں بنیادی حقوق بیان کئے گئے ہیں اور دفعہ 11 کے تحت حق مساوات ، دفعہ 12 کے تحت حقِ آزادی اور دفعہ 19 کے تحت آزادئ مذہب دی گئی ہے۔
9۔
پاکستان کا دستور:
اس دستور کا حصہ دوم بنیادی حقوق سے متعلق ہے اور باب اول کے دفعہ 20 کے تحت آزادئ مذہب بیان کیا گیا ہے جبکہ اس باب کے اولین دفعات حق زندگی ، حق مساوات وغیرہ سے متعلق ہے۔
10۔
سنگا پور کا دستور:
اس دستور کے حصہ چہارم میں دفعہ 9 شخصی آزادی ، دفعہ 12 مساوات ، دفعہ 14 حق اظہار خیال اور دفعہ 15 آزادئ مذہب سے متعلق ہے۔
11۔
جنوبی افریقہ کا دستور:
اس دستور کے باب دوم میں بل آف رائٹس کے عنوان سے دفعہ 7 اور 8 کے تحت اس باب کی اولیت کو قائم کیا گیا ہے اور دفعہ 9 میں مساوات ، دفعہ 10 میں انسانی وقار ، دفعہ 11 میں حق زندگی اور دفعہ 15 میں آزادئ مذہب دی گئی ہے۔
12۔
سری لنکا کا دستور:
اس دستور کے باب ششم میں بنیادی حقوق دئے گئے ہیں اور دفعہ 18 میں تمام بنیادی حقوق کا ذکر اور دفعہ 18 کی ذیلی مشق (d) میں آزادئ مذہب کا ذکر ہے۔
13۔
برطانیہ کا دستور:
اس دستور کے حصہ دوم میں بین الاقوامی حقوق انسانی کا ذکر کیا گیا ہے اور حصہ سوم میں دفعہ 3 میں وقار انسانی دفعہ 4 میں مساوات اور باب ششم کے دفعہ 15 میں شخصی آزادی اور دفعہ 18 میں آزادئ مذہب کا ذکر کیا گیا ہے۔
14۔
فرانس کا دستور:
اس دستور میں ملک کے صدر جمہوریہ ، پارلیمنٹ اور دیگر ریاستی حکومتوں کی تشکیل اور ان کے مابین روابط کا ذکر کیا گیا ہے ، اس دستور میں بنیادی حقوق کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ البتہ اس دستور کے پیش لفظ میں لفظ "سیکولر" کا استعمال کیا گیا ہے اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو منع کیا گیا ہے۔ لیکن اس دستور کے تحت دیگر قوانین وضع کئے گئے ہیں جس میں بنیادی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے مگر اصل دستور میں بنیادی حقوق موجود نہیں ہیں۔
15۔
امریکہ کا دستور:
اس دستور کے پانچویں ترمیم کے ذریعہ بنیادی حقوق اور اس دستور کے تحت دیگر قوانین کو وضع کیا گیا ہے جس میں آزادئ مذہب شامل ہے۔
16۔
ہندوستان کا دستور:
ہندوستان کے دستور کو دنیا کا سب سے طویل ترین تحریری دستور ہونے کا شرف حاصل ہے اور اس میں بنیادی حقوق اور رہنمایانہ اصول وغیرہ کو بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس دستور کے دفعہ 25 کے تحت آزادئ مذہب کا تیقن دیا گیا ہے۔ جبکہ دفعات 14، 15 ، 16 ، تا 32 تمام بنیادی حقوق کا تفصیلی احاطہ کرتے ہیں اور اس دستور کو ایک مثالی دستور کہا جا سکتا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک کے قوانین پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا تقریباً ہر ملک نے آزادئ مذہب کا تیقن دیا ہے جس میں کسی مذہب کو قبول کرنا اور اسکے ساتھ ساتھ اس مذہب کے اصولوں پر کاربند رہنے کی گنجائش شامل ہے۔ چنانچہ ہر قانون کے تحت آزائ مذہب کی تعریف میں اس مذہب پر خارجی طور پر عمل پیرا ہونا اور اسکی تبلیغ و تشہیر بھی شامل ہے۔ ان تمام دستوروں کے تحت تمام عدالتوں نے بھی آزادئ مذہب کی حفاظت کی ہے۔
اس لئے کسی بھی تہذیب یافتہ ممالک کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسے انسانی حقوق سے اپنے شہریوں کو محروم کرے یا اس میں رکاوٹ کا باعث بنے۔
ماجی نقطۂ نظر:
سماجی نقطہ نظر سے بھی عورت اور مرد کے درمیان آزادانہ میل ملاپ ہمیشہ ہی گناہ اور بربادی کا موجب رہا ہے۔ اس لئے تقریباً ہر مذہب نے عورت مرد کے درمیان جنسی رشتوں کو مناسب اخلاقی حدود میں قید کر دیا تا کہ "خاندان" کا قیام عمل میں آئے اور ایک صحت مند مہذب معاشرہ تشکیل پائے۔ چنانچہ شادی کو خاندان کے قیام میں انتہائی اہمیت حاصل رہی ہے۔ بعض مذاہب نے تو ابتداء میں شادی کے بعد طلاق کے تصور کو ہی مسترد کردیا تھا کہ خاندان ٹوٹنے نہ پائے۔ لیکن بعد میں مختلف وجوہات کہ بناء پر طلاق کا رواج عام ہوا۔ عورت اور مرد کے درمیان جنسی تعلقات کو مذہب ، قانون اور سماجی نقطۂ نظر سے مختلف پابندیوں کے تحت کردیا گیا تاکہ اولاد کی تعلیم و تربیت اور صحت مند معاشرہ کی تشکیل ہو۔ لیکن موجودہ معاشرہ ان مہذب حدود کو توڑ کر بے راہ روی کی سمت گامزن ہے اور مذہب ، قانون اور سماجی اقدار اور فرائض سے دور ہوتا جا رہا ہے۔
قدیم زمانہ میں بھی ایسے احکام ملتے ہیں جس میں نیک عورتوں اور بد کار عورتوں کے درمیان فرق اور تمیز کو ملحوظ رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ ساتویں صدی قبل مسیح میں Assyrian Law نے شادی شدہ عورت کے لئے پردہ کا لزوم لگایا تھا اور بد کار عورتیں اس پردہ کے لزوم سے آزاد تھیں۔
(حوالہ: Cambridge Ancient History III , p -107)
ساتویں صدی قبل مسیح میں یہ پردہ کا قانون صرف شادی شدہ عورتوں سے متعلق تھا لیکن اسلام نے تمام مومن عورتوں پر عائد کر کے صالح معاشرہ کی تشکیل کی راہ ہموار کی ہے۔
اختتاماً یہی کہا جا سکتا ہے کہ نیدرلینڈ کی عدالت کا یہ خیال کہ "برقعہ سے عورت کی علاحدہ شناخت قائم ہوتی ہے اور اس طرح مسلمان عورتیں دیگر عورتوں سے الگ تھلگ ہو جائیگی" اس لئے قابل قبول نہیں معلوم ہوتا ہے اس عدالت کا برقعہ کو لیکر جو "خدشہ" ظاہر کیا گیا ہے دراصل وہی اسلامی احکام پردہ کا "اصل منشاء" ہے۔ اس طرح فرانسیسی وزیراعظم کا یہ کہنا کہ "برقعہ سے عورت کی آزادی میں رکاوٹ پڑتی ہے اور وہ قید ہوکر رہ جاتی ہے" اس لئے قابل قبول نہیں معلوم ہوگا کہ برقعہ میں عورت محفوظ ہوجاتی ہے اور برقعہ یا پردہ کو قلعہ کی حیثیت حاصل ہے۔ آزادی قید خانے سے دلائی جاتی ہے قلعہ سے نہیں۔ اگر برقعہ یا پردہ پر امتناع عائد کر دیا جائے تو عورت اس محفوظ قلعہ سے نکالی جاکر غیر محفوظ ہوجائے گی۔ اور آجکل کے اس آزادانہ جنسی بے راہ روی کے ماحول میں اسکی عزت و ناموس خطرہ میں پڑ جائےگی۔
اور کم از کم مسلمان عورتیں ان قرآنی احکام پردہ کا احترام ضرور کریں گی جس میں خود انہی کی فلاح و بہبود مضمر ہے۔
لنک: